"MIK" (space) message & send to 7575

انوکھا لاڈلا، کھیلن کو مانگے … مریخ!

بھارتی قیادت نے تمام پریشانیوں کا بہت اچھا حل تلاش کر لیا ہے۔ جب معاملات سمجھ میں نہ آ رہے ہوں تو انہیں یا تو ’’بالائے طاق کے اوپر‘‘ رکھ دینا چاہیے یا پھر بوریا بستر لپیٹ کر کہیں اور چل دینا چاہیے۔ جو لوگ زمین پر مسائل حل نہیں کر پاتے وہ آسمانوں میں پناہ ڈھونڈتے ہیں۔ زندگی بھر کچھ نہ کرنے والے آسمان کو تکتے ہوئے دست بہ دعا رہتے ہیں۔ دِلّی سرکار خیر سے دعا کی منزل سے بہت آگے بڑھ گئی ہے۔ چاند پر تو مغرب کے یاروں نے پہلے ہی بستیاں بسا لی ہیں اِس لیے چانکیہ کے چیلوں نے آسمان کی چادر میں ذرا آگے جا کر پیوند لگانے کا سوچا اور مریخ کا رخ کیا ہے۔ علاقائی سُپر پاور بننے کے چکر میں بھارت نے سفارتی دستر خوان پر ہر پڑوسی ملک کے سامنے خوب خوب تنازعات پروسے ہیں۔ ایک پاکستان پر کیا موقوف، نیپال سے سری لنکا تک سبھی پریشان ہیں۔ لے دے کر بس چین ہے جس نے بھارت کا ناطقہ بند کیا ہے۔ چین نے 1962ء میں بھارت کی مہم جُو طبیعت کو ایسی لگام دی کہ دِلّی سرکار کو اگر وہ چند روزہ جنگ کبھی یاد بھی آ جائے تو سَر اور دِل دونوں تھام لیتی ہے۔ نومبر 2011ء میں چین نے مریخ کیلیے تحقیقی مشن روانہ کرنا چاہا مگر تجربہ ناکام رہا۔ اس سے قبل 1998ء میں جاپان بھی ناکامی سے دوچار ہوا تھا۔ چین کی ٹیکنالوجی کے بارے میں دو رائے ہو سکتی ہیں مگر جاپان؟ وہ تو ٹیکنالوجی کا امام ہے۔ اُس کی ٹیکنالوجی بھی ناکام ہو گئی! مگر اِن دونوں کے تجربے سے نئی دہلی کے حکمرانوں نے کوئی سبق نہ سیکھا اور مریخ پر مشن بھیجنے کیلیے کمر کس لی۔ 5 نومبر کو بھارت نے جنوبی ریاست آندھرا پردیش کے مشرقی حصے میں واقع سری ہری کوٹا لانچنگ گراؤنڈ سے اپنا مشن ’’منگل یان‘‘ مریخ کی طرف روانہ کر دیا۔ ’’منگل یان‘‘ 30 نومبر تک زمین کے مدار میں رہے گا جس کے بعد بنگلور کا خلائی مرکز اسے مریخ کے 9 ماہ کے سفر پر روانہ کر دے گا۔ 40 کروڑ کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے یہ خلائی جہاز 12 ستمبر 2014ء کو مریخ کے مدار میں داخل ہو گا۔ ’’منگل یان‘‘ کو 500 سائنس دانوں نے 15 ماہ کی شبانہ روز محنت سے تیار کیا ہے۔ اس منصوبے پر ساڑھے چار تا پانچ ارب روپے خرچ ہوئے ہیں۔ ’’منگل یان‘‘ کے بطن سے اب تک کچھ برآمد نہیں ہوا مگر اِس کی لانچنگ نے بھارت میں ایک نئی بحث کو ضرور جنم دے دیا ہے۔ سائنس دان، دانشور اور سیاسی مبصرین یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا بھارتی قیادت نے تمام بنیادی مسائل حل کر لیے تھے جو اب زمین سے یاری ترک کر کے خلا کی گہرائیوں کو کھنگالا جا رہا ہے؟ ان تبصروں میں بھارتی قیادت کے لیے ایک ہی مشورہ ہے ع دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بندِ قبا دیکھ 1350 کلوگرام کا ’’منگل یان‘‘ مریخ کی طرف اُسی بھارت نے روانہ کیا ہے جس کے 23 کروڑ سے زائد باشندے آج بھی پینے کے صاف پانی سے یکسر محروم ہیں۔ اِتنی ہی تعداد میں لوگ ایک وقت بھوکے رہتے ہیں۔ 12 کروڑ سے زائد افراد خوراک کی مقدار اور معیار دونوں کے معاملے میں انتہائی پچھڑے ہوئے ہیں۔ 20 کروڑ سے زائد بھارتی گھرانے آج بھی گھر کے نام پر ایک تنگ و تاریک کمرے میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ ایک کمرے کے ان مکانات کے ایک کونے میں ’’کچن‘‘ اور دوسرے کونے میں برتن اور کپڑے دھونے کا چوکھٹا بنا ہوتا ہے۔ کروڑوں افراد کو اپنے نام نہاد گھروں میں بیت الخلا اور غسل خانے کی سہولت میسر نہیں۔ دہلی، مدراس، کولکتہ، ممبئی، حیدر آباد دکن اور احمد آباد سمیت 20 چھوٹے بڑے شہروں اور قصبوں میں کم و بیش 8 کروڑ افراد علی الصبح فطرت کی پُکار پر کھیتوں، ریل کی پٹڑیوں اور خالی پلاٹس کا رُخ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ہندی کے معروف اخبار ’’جاگرن‘‘ نے انکشاف کیا ہے کہ مریخ کی طرف مشن روانہ کرنے کی 9 کوششیں ناکامی سے دوچار ہوئی تھیں۔ اگر بھارت 30 نومبر کے بعد ’’منگل یان‘‘ کو زمین کے مدار سے مریخ کی طرف روانہ کرنے میں کامیاب ہو گیا تو وہ ایسا کرنے والا پہلا ایشیائی ملک ہو گا۔ اب اہم سوال یہ ہے کہ بھارت مریخ تک اپنا تحقیقی جہاز پہنچا کر کیا حاصل کرنا چاہتا ہے؟ کیا اس کا مقصد پڑوسیوں اور دیگر علاقائی ممالک پر اپنی ٹیکنالوجیکل برتری کا رعب جمانا ہے؟ مریخ کے مدار میں داخل ہونے کا خواہش مند بھارت اب تک اپنے 50 کروڑ باشندوں کو غربت کی لکیر کے مدار سے نکالنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ اپنے ہاں معاشی ناہمواری دور کرنے میں قدم قدم پر ناکام رہنے والا ملک کبھی عالمی معیشت میں بڑا کردار ادا کرنے کی باتیں کرتا ہے اور کبھی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں دائمی نشست حاصل کرنے کی دوڑ میں حصہ لیتا دکھائی دیتا ہے۔ بھارت نے کئی شعبوں میں ترقی کی ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی اُن میں نمایاں ہے مگر ایسی ترقی کس کام کی جو ملک کی آدھی سے زائد آبادی کو آج بھی بنیادی سہولتوں کی فراہمی یقینی بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکی؟ شمال مشرقی بھارت سمیت کم و بیش دس ریاستوں میں کسی نہ کسی سطح پر علیحدگی کی تحریک چل رہی ہے۔ کئی ریاستوں میں باغی اس قدر مضبوط ہیں کہ ان کے بہت سے علاقوں میں ریاستی عملداری تقریباً ناپید ہوکر رہ گئی ہے۔ کشمیر ہی کی مثالی لیجیے جہاں آج بھی کم و بیش سات لاکھ فوجی اور نیم فوجی دستے تعینات ہیں۔ یہ تمام مسائل اٹل حقیقت بن کر منصۂ شہود پر موجود ہیں مگر اِن سب کو بُھلا کر مریخ کو تسخیر کرنے کی ٹھانی گئی ہے۔ خلائی تحقیق کے شعبے میں بھارت کی عظیم الشان کامیابی (!) کا دفاع کرتے ہوئے فزیکل ریسرچ لیباریٹری کے چیئرمین آر راؤ کہتے ہیں کہ مریخ مشن پر 500 کروڑ روپے خرچ ہو گئے تو کیا ہوا؟ دیوالی پر لوگ پانچ ہزار کروڑ روپے کے پٹاخے بھی تو پھوڑ ڈالتے ہیں۔ راؤ صاحب کو یہ خیال نہیں آیا کہ لوگ اپنے پیسوں سے پٹاخے چلاتے ہیں، حکومت کی طرح عوام کی کمائی پر ڈاکا ڈال کر خلائی مہم جُوئی کی پھلجھڑیاں نہیں چھوڑتے۔ دِلّی سرکار کو مریخ پر کس چیز کی تلاش ہے؟ کیا وہ اپنے 23 کروڑ باشندوں کے لیے پینے کے صاف پانی کے ذخائر دریافت کرنا چاہتی ہے؟ مبصرین تو یہ بھی کہتے ہیں کہ انتخابات سَر پر ہیں تو کانگریس نے ’’منگل یان‘‘ روانہ کر کے سیاسی فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ’’ناسا‘‘ بتا چکا ہے کہ تو مریخ پر زندگی کے آثار نہیں تو پھر بھارت وہاں زندگی کے امکانات کیوں تلاش کرنا چاہتا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں چین کی آبادی دیکھ کر دِلّی سرکار کو کمتری کا احساس ہوتا ہو اور وہ مریخ کی مخلوق کو اپنی دھرتی پر بسا کر چین کی برابری کرنا چاہتی ہے۔ ہمیں ’’منگل یان‘‘ کے کامیاب سفر کی دُعا کرنی چاہیے کیونکہ مریخ مشن کا کوئی بھی ناخوشگوار نتیجہ سامنے آنے پر بھارت کی پروپیگنڈا مشینری آئی ایس آئی کی مزید ’’مشہوری‘‘ کے اہتمام میں دیر نہیں لگائے گی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں