"MIK" (space) message & send to 7575

خاکم بہ ’’شِکم‘‘

بچپن سے سُنتے آئے ہیں کہ کوئی بہت زیادہ کھا رہا ہو تو یوں کہنا چاہیے کہ پیٹ بھر گیا ہے، نیت نہیں بھری۔ مگر اب یہ بات مکمل طور پر غلط معلوم ہوتی ہے۔ کھانے کی عادت نے ایسا انقلاب برپا کیا ہے کہ اب ہماری نیت بھرتی ہے نہ پیٹ۔ دونوں معاملات اُلٹ پَلٹ گئے ہیں۔ نیت کے بھرنے تک لوگ پیٹ بھرتے رہتے ہیں اور پیٹ اچھی طرح بھر کر نیت کے بھرنے کا اہتمام کرتے ہیں! اور سچ پوچھیے تو کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ نیت اور پیٹ کے درمیان قیامت تک جاری رہنے والی جنگ چِھڑی ہوئی ہے! 
جب سے ہوش سنبھالا ہے، لوگوں کوکھانے پر مائل پایا ہے۔ اور یہ سب دیکھ کر ہوش اب تک پوری طرح سنبھل نہیں پایا ! ایسا لگتا ہے کہ ہر شخص نے اپنے طور پر یہ طے کرلیا ہے کہ زندگی کو صرف کھانے پینے کے لیے مختص ہونا چاہیے۔ ایک انتہائی وسیع کائنات کا حصہ ہم خود ہیں۔ سائنس دان کہتے ہیں کہ اِس کائنات کی بہرحال ایک حد ہے۔ ہاں، اِتنا ضرور ہے کہ چادر کی طرح ہماری کائنات کبھی اِدھر سے کھنچ جاتی ہے اور کبھی اُدھر سے۔ حدودِ شکم کے معاملے میں البتہ سائنس دان خاموش ہیں۔ یہ ایسی کائنات ہے جس کی حُدود کے بارے میں سوچنا ابھی شاید شروع بھی نہیں کیا گیا۔ اور سب سے بڑا مسئلہ شاید یہ ہے کہ سوچنا کہاں سے شروع کیا جائے! بہت سے لوگ اِس طرح کھا رہے ہوتے ہیں کہ اندازہ ہی نہیں ہو پاتا کہ جو کچھ وہ کھا رہے ہیں وہ جا کہاں رہا ہے! محسوس یہ ہوتا ہے کہ جیسے نوالے کو حلق سے اُترنے کے بعد عجیب کشمکش کا سامنا ہوتا ہے۔ گویا حلق کی منزل سے گزرتے ہی بے کراں خلا کا شروع ہو جاتا ہو۔ اب نگلا ہوا کھانا جائے تو کہاں جائے؟ یوں کھایا پیا لاپتا ہوکر رہ جاتا ہے! سائنس دان پتا نہیں کیا کیا ایجاد کرتے رہتے ہیں۔ ذرا کوئی ایسی مشین بھی تو ایجاد کرکے دکھائیں جو ہمیں بتائے کہ کھائی ہوئی اشیاء پیٹ کے کون سے زون یا سیکٹر میں جمع ہو رہی ہیں! 
لوگ شادی کی تقریب میں شرکت کے لیے پہنچتے ہیں تو رشتوں اور رشتہ داروں کے بارے میں سوچنے اور پوچھنے کا مرحلہ بعد میں آتا ہے، پہلے یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ کھانے میں کیا ہے؟ بریانی یا قورمہ روٹی؟ یا دونوں؟ اور میٹھے میں؟ اور ہاں، ''ٹھنڈی والی کولڈ ڈرنک‘‘ ہے یا نہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ مُنہ میں ٹُھنسی ہوئی بریانی کو پانی کی مدد سے پیٹ میں دھکیلنا پڑے گا؟ 
شادی ہال میں نکاح اور رسوم کا طے پانا کبھی کبھی جاں گسل مرحلہ ثابت ہوتا ہے کیونکہ حاضرین کی واضح اکثریت کھانے کے انتظار میں پہلو بدلتی رہتی ہے۔ ایسے میں لڑکے اور لڑکی والوں کے چونچلے آتشِ شوق کو بھڑکاتے جاتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کھانا کھلتے ہی لوگ اِس کڑھن کا بدلہ بریانی، قورمے، فرائیڈ چکن، کھیر اور فیرنی سے لیتے ہیں۔ شادی ہال میں آمد سے نکاح تک کم و بیش ڈیڑھ دو گھنٹے کے دوران جو مُنہ غیبت اور گِلوں شِکووں کے باعث کڑوے ہوچکے ہوتے ہیں اُنہیں ''لبِ شیریں‘‘ سے میٹھا کیا جاتا ہے! 
کھانے پینے کا معاملہ اِس قدر اہمیت اختیار کرگیا ہے کہ جہاں غم کھانا لازم ہو وہاں بھی کھانے پینے ہی کو ترجیح دی جاتی ہے۔ میت کے گھر میں بھی لوگوں کو اس بات کی فکر لاحق رہتی ہے کہ تدفین کے بعد کھانا رکھا گیا ہے یا نہیں۔ اور اگر ہاں، تو بریانی ہے یا قورمہ روٹی۔ مرنے والے کے غم پر پیٹ بھرنے کی فکر تیزی سے غالب آ جاتی ہے۔ میت والے گھر میں بھی لوگ اِس قدر فُرصت سے پیٹ بھر رہے ہوتے ہیں جیسے یہ عمل بھی پس ماندگان کو پُرسہ دینے کا حصہ ہو! 
ہمارے ہاں جب سیاست ہے ہی کھانے پینے کا نام تو پھر سیاسی جلسوں میں کھانا کُھلنے پر ہنگامہ کیوں برپا نہ ہو! سچ تو یہ ہے کہ بہت سے لوگ سیاسی جلسوں میں آخر تک اِس لیے رہتے ہیں کہ کھانے کی تقسیم کا پُرلطف تماشا دیکھ سکیں! ٹی وی چینلز بھی اِس تماشے کو اِس قدر اہتمام سے پیش کرتے ہیں کہ کامیڈی شو کی ریٹنگ خطرے میں پڑجاتی ہے! 
جیالوں کی ایک ''تابندہ‘‘ روایت یہ بھی ہے کہ پارٹی کے یوم تاسیس، کسی لیڈر کی سالگرہ یا یوم پیدائش پر تیار کئے جانے والے کیک کو متوازن حصوں میں تقسیم کرنے کے بجائے لُوٹ کر کھایا جائے۔ کبھی کبھی ایسا لگتا ہے جیسے جیالوں نے کہیں سے سُن رکھا ہے کہ کیک کو کاٹ کر، بہتر انداز سے تقسیم کرنے کی صورت میں اُس کی لذت کم ہوجاتی ہے! بہر کیف، جیالوں سے سیاسی دُنیا کے دوسرے دِل والوں نے بھی بہت کچھ سیکھا اور سیاسی تقریب میں کھانے کی تقسیم کو ''آئٹم سانگ‘‘ کا درجہ دینے پر تُل گئے۔ اب حالت یہ ہے کہ سیاسی تقریب کے آخر میں کھانے کی ''تقسیم‘‘ (یعنی لُوٹ مار) تقریب کا دلچسپ ترین سیگمنٹ بن چکی ہے! 
ابھی کل تک کھانے کی تقسیم پر جو دھماچوکڑی مزارات کے ماحول کا خاصہ ہوا کرتی تھی وہ اب سیاسی جلسوں میں در آئی ہے۔ معاملہ دونوں جگہ مَنّت ہی کا ہے۔ جن کی مُراد پوری ہوتی ہے وہ مزاروں پر لنگر تقسیم کرواتے ہیں۔ اور سیاسی جلسوں میں بھی اہل سیاست مُن کی مُراد پانے ہی کے لیے بریانی کی دیگیں عوام کی نذر کرتے ہیں! فرق صرف یہ ہے کہ بابا کے نام پر لنگر مَن کی مُراد بَر آنے پر تقسیم کیا جاتا ہے اور سیاست دان ووٹرز کو بہلانے پُھسلانے کے لیے Pre-emptive strike کے طور پر کھانا تقسیم کرواتے ہیں! پس ثابت ہوا کہ لوگوں کو بابا پر یقین ہو نہ ہو، سیاست دان اپنے ووٹرز پر یقینِ کامل کے حامل ہیں! 
مزاروں پر لنگر کی تقسیم ہو یا سیاسی جلسوں کے اختتام پر کھانے کی بندر بانٹ، دونوں ہی معاملات میں لوگوں کا بھرپور جوش و خروش دیکھ کر خیال آتا ہے کہ کاش ہم ملک کو سنوارنے کے معاملے میں بھی ایسے ہی پُرجوش ہوا کرتے! توبہ ہے صاحب، ہم بھی کھانے پینے کے تذکرے میں کہاں ملک کو سنوارنے کی بات لے بیٹھے! 
لوگ اپنے سامنے کھانا دیکھ کر حواس پر قابو نہیں رکھ پاتے تو حیرت کی بات کیا ہے؟ آپ سوچیں گے کھانے پینے کی اشیاء سامنے پاکر حواس کھو بیٹھنا اِنسانیت کی توہین ہے، تحقیر ہے کیونکہ اپنے سامنے چارا دیکھ کر جانور بھی پاگل نہیں ہوتے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ جانوروں کے جذبات اور احساسات نہیں ہوا کرتے! اور اگر ہم بھی کھانے پینے کی اشیاء دیکھ کر جانوروں کی طرح اپنے حواس قابو میں رکھا کریں تو ہمارا شمار بھی جانوروں ہی میں ہوا کرے گا! کھانا دیکھ کر پاگل ہو جانا خود کو جانوروں کے زُمرے میں شمار ہونے سے بچانے کی کوشش کے سِوا کچھ نہیں! 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں