ہر سال 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے‘ اور اِس دن مرزا تنقید بیگ کی دُنیا میں سوگ کا سماں رہتا ہے۔ وہ اِس بات پر افسردہ رہتے ہیں کہ اُصولاً تو ہر دن ہی خواتین کا ہوتا ہے کیونکہ گھر کے بازار میں اُنہی کی بات سِکّہ رائج الوقت کا درجہ رکھتی ہے۔ ہر گھر کُھلے بازار کی معیشت کے اُصول پر قائم ہے یعنی جس چیز کی طلب زیادہ ہو یا پوزیشن مضبوط ہو وہی راج کرتی ہے۔ اِس لحاظ سے گھر گھر خواتین ہی کا راج ہے۔ مرزا کو اعتراض اِس بات پر ہے کہ اگر خواتین کے لیے کوئی ایک دِن مختص کر دیا جائے تو سال کے باقی 364 دِن اُن کی چودھراہٹ کو کِس کھاتے میں ڈالا جائے گا۔
مرزا کو اِس بات کا بے حد رنج ہے کہ مَردوں کے حقوق کی بات کرنے کے لیے کوئی کھڑا ہی نہیں ہوتا۔ اور اب یہ حال ہے کہ کوئی اگر مَردوں کے حقوق کی بات کرنے کی کوشش کرے تو لوگ عجیب نظروں سے دیکھنے لگتے ہیں۔ اِس لیے نہیں کہ وہ کوئی انوکھی بات کر رہا ہے بلکہ اِس لیے کہ جو ہونا ہی نہیں ہے اُس کا رونا کیا رونا۔
مرزا نے زندگی بھر سَر جُھکا کر گھر کی نوکری کی یعنی بھابی کے سامنے لب نہ کھولنے کی قسم کھائی ہوئی ہے۔ اِس روش نے اُنہیں سرکاری دفتر کے پرفیکٹ بابو میں تبدیل کر دیا ہے۔ جب سے شادی ہوئی ہے، مرزا نے do as directed کے اُصول کو حرزِ جاں بنا رکھا ہے۔ کبھی کبھی تو ہم اِس گمان میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ اُن کے پاس دِماغ ہے بھی یا نہیں۔ ہم جیسے کئی خیر خواہ اِس خیال کے حامل ہیں کہ طویل مُدّت سے استعمال نہ کئے جانے کے باعث کہیں ایسا نہ ہو کہ مرزا کبھی دِماغ استعمال کرنے کی کوشش کریں اور وہ کام کرنے سے انکار کر دے۔
ایک مرزا پر کیا موقوف ہے، یہاں تو سماج کے سماج خواتین کے ناز بردار ہیں۔ اور سچ تو یہ ہے کہ اِس معاملے میں ناز برداری کے مُظاہرے کی دوڑ سی لگی ہوئی ہے۔ شادی کی تقریب میں کھانے پینے کے خیال سے فُرصت ملے تو ذرا غور سے دیکھیے کہ لوگ کس طور بیگمات کے ناز اُٹھاتے ہیں۔ شاید ہی کوئی جاندار اپنی مادہ کا ایسا خیال رکھتا ہو۔ اور بدلے میں وہ کیا چاہتے ہیں؟ تھوڑی سی عزت۔ اور اِس بات کی ضمانت کوئی نہیں دے سکتا کہ عزت مل پائے گی یا نہیں۔ ہم نے گھر کی سلطنت میں خواتین کی حکمرانی کی اِتنی مثالیں دیکھی ہیں کہ اب تو مَردوں کی سُلطانی کے بارے میں سوچنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ع
ہم ہوئے، تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے
یعنی عورت کی غلامی سے ''اِستثنا‘‘ کسی کے نصیب میں نہیں لکھا۔ ہم نے بارہا لوگوں کو بیویوں کا رونا روتے دیکھا ہے۔ یہ بھی ہمارے نزدیک انتہائی حیرت انگیز ہے۔ جب ایک چیز default میں آ ہی گئی ہے تو پھر اُس کا رونا کیوں رویا جائے؟ اور اِس کا فائدہ بھی کیا ہے؟ جن سے شِکوہ ہے اُن کے آگے رویا جائے تو کچھ بات بھی ہے۔ اِدھر اُدھر رو رو کر ہلکان ہوتے رہنا کہاں کی دانش مندی ہے؟ اِس پر ہمیں کبھی کبھی یہ جواب بھی ملا ہے کہ جن کے دَم سے یہ رونا ہے اُن کے آگے نہ رونا ہی دانش مندی ہے‘ ورنہ لوگ رونے کے قابل بھی نہ رہیں گے، فریاد کا دَم گُھٹنے سے مر جائیں گے۔
بہت سے احباب اکثر اِس بات پر حیران ہوتے ہیں کہ ہم شادی شدہ ہو کر اِس قدر خوش و خُرّم کیوں رہتے ہیں۔ وہ شاید یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ ہماری زندگی میں شادمانی ہی شادمانی ہے۔ ہم وضاحت کرتے رہے ہیں کہ یارو! چہرے پر نہ جاؤ، دِل میں جھانک کر دیکھو۔ سب کا ایک سا حال ہے۔ فراخ دِلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہم نے بعض نُسخے دینے کی خواہش بھی ظاہر کی ہے۔ ہم نے بارہا خاصے طویل لیکچرز کے ذریعے اُنہیں سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ ع
ہر رنگ میں راضی بہ رضا ہو تو مزا دیکھ
بات یہ ہے جناب کہ جب انسان کسی ناپسندیدہ کیفیت یا چیز کا عادی ہو جاتا ہے تو پھر کوئی تکلیف باقی نہیں رہتی۔ ع
رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
اِتنا اشارہ پا کر بھی کوئی سمجھ نہیں پاتا تو ہم ذرا کُھل کر سمجھاتے ہیں کہ ؎
کسی کی آنکھ جو پُرنم نہیں ہے
نہ سمجھو یہ کہ اُس کو غم نہیں ہے
کامیابی کا معیار یہ ہے کہ کسی کو آپ کے دِل کا حال معلوم نہ ہو پائے۔ کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہے اور آج ہم آپ کے لیے یہ خبر ''بریک‘‘ کر رہے ہیں کہ ہمیں بچپن ہی سے اداکاری کا شوق تھا۔ چڑھتے لڑکپن اور چڑھتی جوانی میں تو یہ شوق پُورا نہ ہو سکا۔ شادی کے بعد ہم نے اداکاری کا شوق اِس خُوبی سے پُورا کیا کہ لوگ اب تک داد ہی دے رہے ہیں، غور کرنے کا موقع نہیں مِل رہا۔ یہ جو خوشی خوشی ازدواجی زندگی بسر کر رہے ہیں‘ اِسے اداکارانہ صلاحیت کا حاصل بلکہ نچوڑ کہیے کیونکہ ہمارا رَس نچوڑا جا چکا ہے۔
شادی کے بعد بھی اپنی مرضی کی زندگی بسر کی جا سکتی ہے، شرط صرف اِتنی ہے کہ بیوی کی مرضی کو اپنی مرضی سمجھ لیا جائے۔ جو لوگ شادی کے بعد نازل ہونے والی پریشانیوں کو (ہم اولاد کی بات نہیں کر رہے) گناہوں کی سزا سمجھتے ہیں وہ نِرے نادان ہیں۔ بھلا ہمارے گناہ اِتنے زیادہ ہو سکتے ہیں کہ ایسی کڑی سزا مِلے۔ جو لوگ شدید مصروفیت کے باعث روحانی تربیت کا اہتمام نہیں کر پاتے اور گوشہ نشینی اختیار کرکے اللہ سے لَو نہیں لگا سکتے وہ ذرا بھی بددِل اور بے مزا نہ ہوں۔ ازدواجی زندگی کو اللہ کی طرف سے آزمائش سمجھ کر اُس میں سے گزر جائیں۔ جب ذہنی کیفیت یہ ہو تو قدم قدم پر دِل کی تسکین کا سامان ہو گا۔ شادی شدہ ہیں تو آپ کو مراقبے کی ضرورت ہے نہ ہمالیہ کی چوٹی پر چڑھ کر تپسیا کرنے کی حاجت۔ اُس کے لیے تو گھر کا ماحول اور محترمہ کا ساتھ ہی کافی ہے جو اِس مرحلے سے گزرے گا تو خود کو سُلوک کی منزل پر پائے گا۔
ہم نے مرزا کو بارہا سمجھایا ہے کہ بھائی، گھریلو سلطنت میں مَردوں کی سُلطانی کے بارے میں سوچنا چھوڑ دو۔ اچھا ہے کہ گھر میں ہم کنگ نہ ہوں، کنگ میکر ہوں۔ چیز وہ کھانی چاہیے جس میں لَذّت بھی ہو اور غذائیت بھی۔ ع
کام اَچّھا ہے وہی جس کا مآل اَچّھا ہے
مگر مرزا بھی ایک ڈھیٹ ہیں۔ سو بار بھی سمجھائیے تو کہیں نہ کہیں سے وسوسے تلاش کرکے اپنے دِل میں ڈال لیتے ہیں۔ جورو کا غلام بننے کا کوئی نُسخہ گوش گزار کیجیے تو وہ ایسے بھونڈے طریقے سے عمل کرتے ہیں کہ اُس کے نتیجے میں غلامی مزید پُختہ ہو جاتی ہے۔ اِس پر بھی ہم اُنہیں دِلاسا دیتے ہیں کہ بدگمان اور بددِل نہ ہوں، اِس آزمائش کا صِلہ آخرت میں لِکھا ہے۔ ازدواجی زندگی کو اگر یہ سمجھ کر قبول کیا جائے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اِس کا اجر بھی اللہ ہی دے گا تو دِل میں کوئی خاص خَلِش باقی نہیں رہتی۔ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا؟ آپ بھی اِس رُوحانی نُسخے پر عمل کرکے نتائج کا مُشاہدہ کر سکتے ہیں۔