"MIK" (space) message & send to 7575

خُونیں معاشرہ، خُونی امراض

جس نے بیماری کا مُنہ نہ دیکھا وہ کیا جانے کہ صحت کون سے درجے کی نعمت ہے؟ افلاس سے محفوظ رہنے والے دولت اور خوش حالی کی قدر نہیں کرتے۔ یہ سب کچھ فطری سا ہے۔ بہتر تربیت انسان کو ہر حال میں خوش رہنے اور اللہ کا شکر ادا کرتے رہنے کی توفیق عطا کرتی ہے۔ 
ہم ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جس پر، نعوذ باللہ، کسی کی بَد دُعا ''سایہ فگن‘‘ ہے۔ بہت سا خُون ہے جو قتل و غارت کی نذر ہو رہا ہے۔ اور باقی جو خُون رگوں میں ہے وہ بیماریوں کا شکار ہوکر اپنی افادیت سے محروم ہوتا جاتا ہے۔ خُونیں معاملات ہوں یا خُونی بیماریاں، ہر دو معاملات میں ہم خسارے کے دائرے میں گھوم رہے ہیں۔ 
گزشتہ روز دنیا بھر میں تھیلیسیمیا کا دن منایا گیا۔ اِس بیماری میں مبتلا افراد میں خون بننے کا عمل پیچیدہ ہوتا جاتا ہے اور خون کا معیار بھی تیزی سے گرتا ہے جس کے نتیجے میں لازم ہوجاتا ہے کہ ایک خاص مدت کے بعد جسم کو نیا خُون دیا جائے۔ اگر خُون دینے میں تاخیر ہوجائے تو مریض کی حالت غیر ہوتی جاتی ہے۔ زیادہ دُکھ کی بات یہ ہے کہ تھیلیسیمیا بچوں کو زیادہ آسانی سے ہدف بنالیتا ہے۔ موروثی طور پر منتقل ہونے کے باعث بھی بچے اِس میں مبتلا پائے گئے ہیں۔ جنہیں ابھی زندگی نے پُوری طرح گلے نہیں لگایا ہوتا اُنہیں تھیلیسیمیا جیسا مُوذی مرض گھیر لیتا ہے۔ 
معاشرے کا حال یہ ہے کہ عام آدمی کے لیے دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرنا جُوئے شیر کے لانے سے جیسا ہوگیا ہے۔ معمولی بُخار یا کھانسی وغیرہ کے علاج پر کئی سو روپے خرچ ہوجاتے ہیں۔ ایسے میں تھیلیسیمیا جیسے مرض میں مبتلا بچوں کے والدین کو کِن مشکلات سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہوگا، اِس کا اندازہ کوئی بھی بخوبی لگا سکتا ہے۔ 
شدید بے حواسی، بے دِلی اور بے حِسی کے دور میں بھی چند افراد غنیمت ہیں کہ رات دن خدمت میں جُتے ہوئے ہیں۔ اُن کی زندگی کا مقصد صرف یہ ہے کہ زندگی کی گاڑی کو چلتا رکھا جائے۔ اِس کے لیے وہ فلاحی ادارے بھی قائم کرتے ہیں اور پھر اُن اداروں کو برقرار رکھنے کے لیے رات دن مصروف رہتے ہیں۔ 
لاہور میں شوکت خانم میموریل ہسپتال پیچیدہ امراض کے علاج کے حوالے سے ایک روشن مثال ہے۔ کراچی میں عمومی امراض کے تدارک کے لیے کئی فلاحی ادارے کام کر رہے ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں نجی شعبے کے تعاون سے بھی وارڈ کھولے گئے ہیں جن میں جدید ترین مشینری کی مدد سے چیک اپ اور علاج کیا جاتا ہے۔ 
عُمیر ثناء فاؤنڈیشن تھیلیسیمیا کے تدارک کے حوالے سے کام کرنے والے اداروں میں بہت نمایاں ہے۔ یہ فاؤنڈیشن ہر سال یکم تا آٹھ مئی تھیلیسیمیا سے متعلق شعور پیدا یا اجاگر کرنے کی غرض سے آگاہی مہم چلاتی ہے۔ فاؤنڈیشن کے ایک ذمہ دار نے بتایا کہ پاکستان میں تھیلیسیمیا کے حوالے سے شعور اب تک کماحقہ اجاگر نہیں ہوسکا ہے۔ لوگ بہت سے عمومی امراض سے نجات پر بھی توجہ نہیں دیتے۔ ایسے میں تھیلیسیمیا جیسے پیچیدہ مرض کے حوالے سے لوگوں کا ذہن بیدار کرنا ایک دشوار گزار مرحلہ ہے۔ 
یہ فاؤنڈیشن تھیلیسیمیا کے تدارک کے حوالے سے کئی پہلوؤں پر متوجہ ہے۔ سوال صرف بچوں میں بلڈ ٹرانسفیوژن کا نہیں ہے۔ عوام کو یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ تھیلیسیمیا سے کیسے بچا جاسکتا ہے یا یہ کہ اِسے پیچیدہ تر ہونے سے کس طور روکا جاسکتا ہے۔ عوام کو بھی اِس معاملے میں متحرک ہونا پڑے گا۔ لازم ہے کہ لوگ اپنی صحت پر متوجہ ہوں اور ہر اُس تدبیر کو اپنائیں جس کی ذریعے جسمانی پیچیدگیوں سے دور رہنا ممکن ہو۔ 
بعض بیماریوں کا نام سُن کر ہی خُون خُشک ہونے لگتاہے، 
بالخصوص خُونی بیماریوں کا سُن کر! اگر کسی کے خُون میں خرابی پیدا ہوجائے تو وہ خرابی کا سُن کر ہی ہاتھ پاؤں ڈھیلے چھوڑ دیتا ہے۔یہ فاؤنڈیشن اور اِسی نوعیت کے دیگر ادارے علاج کے ساتھ ساتھ لوگوں کو پیچیدہ بیماریوں سے مقابلے کے لیے تیار بھی کر رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ کس طور تھیلیسیمیا اور ایسی ہی دوسری خطرناک بیماریوں کو قابو میں رکھا جاسکتا ہے۔ اِن بیماریوں کا علاج چونکہ بہت مہنگا ہے اِس لیے حفاطتی تدابیر کا عمومی شعور عام کرنا لازم ہوچلا ہے۔ 
اس فائونڈیشن کے ڈاکٹرز اور انتظامیہ کا مشن صرف یہ ہے کہ تھیلیسیمیا کی روک تھام ممکن بنائی جائے اور اگر یہ مقصد حاصل نہ ہوسکتا ہو تو جو لوگ تھیلیسیمیا میں مبتلا ہیں اُن پر بھرپور توجہ دے کر اِس جان لیوا مرض کی شدت کو قابو میں رکھا جائے۔ بہت سے بچوں کے لیے تھیلیسیمیا تمام امکانات کا قاتل بن جاتا ہے۔ پڑھنا لکھنا اور مستقبل کی تیاری کرنا تو ایک طرف رہا، وہ بے چارے ڈھنگ سے جی بھی نہیں پاتے۔ اگر مرض کی شدت کم ہو بھی جائے تو کام کرنے کی لگن اور سکت کم ہوتی جاتی ہے۔ 
حکومت کی توجہ اِن اُمور کی طرف کم ہی ہے۔ سرکاری شعبے کے ہسپتال عمومی امراض کے تدارک کے لیے بھی پوری طرح متحرک اور کامیاب نہیں تو خُون کی پیچیدگیوں کو دور کرنے کے حوالے سے اُن سے کیا توقع وابستہ کی جائے؟ وقت کا تقاضا ہے کہ معاشرے کے بدلتے یعنی بگڑتے ہوئے معیارات کی کوکھ سے جنم لینے والی بیماریوں کے تدارک کی فکر کی جائے۔ مختلف اقسام کے سرطان اور خُون سے متعلق امراض کا سَدِ باب فوری توجہ چاہتاہے۔ وقت کم ہے اور مقابلہ سخت۔ مقابلہ جان لیوا امراض سے ہے۔ یہ ادارے بھرپور کوشش کے ذریعے بھی پورے معاشرے کی ضرورت کو تو پورا نہیں کرسکتے لیکن اپنا حصہ ضرور ڈال رہے ہیں۔ مگر اِس سے کہیں بڑھ کر حکومت کا فرض ہے کہ معاشرے کے مختلف طبقات میں تیزی سے پھیل رہے پیچیدہ امراض کے تدارک کے لیے خاطر خواہ اقدامات کرے۔ یہ کام حکومتوں ہی کے کرنے کا ہے۔ کچھ لوگ اپنی مدد آپ کے اُصول کی بنیاد پر میدان میں آتے ہیں۔ اُن کی بھرپور مدد کرنا بھی حکومت پر قرض ہے۔ مگر سب کچھ اُن چند لوگوں پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ ع 
سفینہ چاہیے اِس بحرِ بے کراں کے لیے! 
یہ چند سطریں اِس امید کے ساتھ لکھی ہیں کہ شاید کسی صاحبِ اختیار کے دِل میں بات اُتر جائے اور اُسے مُوذی امراض کے تدارک کے حوالے سے کچھ کرنے کا خیال آجائے! حالات خواہ کچھ ہوں، بہتری کی اُمّید ضرور رکھنی چاہیے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں