جو کچھ وفاقی دارالحکومت میں ہو رہا ہے اُس سے اہلِ وطن بہت پریشان ہیں۔ عام آدمی کا تو خیر کیا مذکور کہ پریشانی اُس کا مقدر بھی ہے اور جبلّت بھی۔ مشکل یہ ہے کہ اب اچھے خاصے پروفیشنل افراد بھی پریشان ہیں۔ اب کامیڈینز ہی کو لیجیے۔ جب سے اسلام آباد کے ریڈ زون میں ''یوتھ فیسٹیول‘‘ شروع ہوا ہے، کامیڈینز کے چہرے بُجھ سے گئے ہیں۔ وہ یہ سوچ سوچ کر پریشان ہیں کہ اگر ایسے میلے سال میں کئی بار سجنے لگے تو اُن کے دھندے کا کیا ہوگا! یہی حال گانے بجانے والوں کا ہے۔ اُنہیں بھی اپنے اپنے پیٹ پر لات پڑتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے۔
ہزاروں ''رنجور‘‘ پاکستانیوں نے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے جس طور وزیر اعظم کے خلاف ''احتجاج‘‘ کیا ہے اُسے دیکھ کر ہمیں اجمیر شریف کی درگاہ پر نصب دیگیں یاد آگئیں۔ 1980ئمیں ہم نے بھی اجمیر میں خواجہ معین الدین چشتی رحمت اللہ علیہ کے عُرس میں شرکت کی سعادت پائی تھی۔ تب بڑی دیگ پک کر تیار ہوئی تھی۔ اور پھر اُس کے لُٹنے کا یعنی اُس میں سے تبرّک نکالے جانے کا منظر! وہ سب کچھ اب تک آنکھوں میں بسا ہوا ہے۔ اجمیر کی دیگ میں تمام ممکنہ متضاد چیزیں ڈال دی جاتی ہیں۔ کوئی دال کی بوریاں ڈالتا ہے۔ کوئی چھواروں کی بوری کے منہ کھول دیتا ہے۔ کوئی مِصری ڈالتا ہے اور کوئی خشک میوہ جات۔ اُس میں آلو بخارے بھی ہوتے ہیں اور خوبانیاں بھی۔ کھٹّے میٹھے ذائقے والا یہ تبرّک بہت اہتمام سے تقسیم ہوتا ہے اور ملک کے کونے کونے میں پہنچتا ہے۔ یہ تبرّک خشک کرکے بھی فروخت کیا جاتا ہے۔
اسلام آباد میں جو احتجاجی میلہ سجا اُس میں بھی اجمیر شریف کی دیگ کی طرح سبھی کچھ ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ اگر کوئی تقریر سے گھبرائے تو پُرجوش پارٹی ترانے حاضر ہیں۔ کوئی ترانوں سُن سُن کر ہوش کھونے کے قریب پہنچ جائے تو قائدِ محترم چُٹکلے سُنانے کے لیے موجود ہیں۔ اگر قائد کی باتیں سُن سُن کر کوئی بیزار ہوجائے تو ناچنا شروع کردے کہ ریڈ زون کی سڑک کو ڈانس فلور میں تبدیل کیا جاچکا ہے۔ کوئی معترض نہ ہو کہ یہ بھی انقلاب ہی کی ایک شکل ہے!
احتجاج کی دُکان سجی ہے۔ اور اِس میں سب کی مرضی کا سبھی کچھ ہے۔
بولو جی، تم کیا کیا خریدو گے؟
کون ہے جو کاروباری سوجھ بوجھ کے معاملے میں سیاسی دکانداروں کی برابری کرسکے؟ اُنہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ کب کون سا مال گاہک کے سامنے رکھنا ہے۔ اُن کی دکان میں آنسو بھی ہیں، ہچکیاں بھی ہیں اور سِسکیاں بھی۔ آپ کو چاہیے تو قہقہے بھی، ناچ گانا بھی اور لہکنا جُھومنا بھی۔ منگنی اور مہندی کی تقریب کا رنگ بھی اور دلھن کی رخصتی کے دِل گداز لمحوں کا تاثر بھی۔
اسلام آباد میں دھرنوں کی دھماچوکڑی جمانے والوں نے پوری کوشش کی ہے کہ ''آڈینس‘‘ بیزار نہ ہو۔ جسے جو چاہیے وہ پیش کیا جاتا رہا ہے۔ احتجاج کے نام پر کچھ دیر دل کو بہلانا اب کچھ خاص مشکل نہیں رہا۔ جس فتح کے دور تک آثار نہیں اُس کا جشن تین دن سے منایا جارہا ہے۔ اور عمران خان نے تو وزیراعظم سے ''گزارش‘‘ بھی کی کہ ابھی دو دن مستعفی نہ ہوں، لوگوں کو ذرا جشن منا لینے دیں۔ تحریک انصاف کے قائد اپنے کارکنوں سے نا انصافی کیسے کرسکتے تھے؟ اُنہوں نے دھرنے کو میوزیکل کنسرٹ میں تبدیل کیا تاکہ کوئی دل گرفتہ نہ ہو کہ کہاں نعرے بازی میں پھنس گئے۔
طاہر القادری بھلا کیسے پیچھے رہ سکتے تھے؟ سوال لوگوں کی دلچسپی کا گراف بلند رکھنے کا تھا۔ عمران خان نے میوزیکل کنسرٹ کا سماں پیدا کیا تو طاہرالقادری نے کنٹینر کی چھت پر محفلِ سماع کا اہتمام کر ڈالا! احتجاج میں تھوڑا سا عقیدت کا رنگ بھی مل جائے تو ہرج ہی کیا ہے۔ چراغ جلائے رکھنا ہے تو اُس میں تیل تو ڈالتے رہنا پڑے گا۔ اب تیل سرسوں کا ہو یا چمبیلی کا، اِس سے چراغ کو کیا غرض۔ یہ الگ کہ احتجاجی چراغ کو روشن رکھنے کی کوشش میں بہت سے غریبوں کا تیل نکل گیا ہے اور اُن کے چہروں کا اُجالا دُھندلا گیا ہے۔
دھرنوں سے کیا ملے گا؟ اِس سوال پر بحث قوم اُس وقت کرے گی جب فراغت نصیب ہوگی۔ ساحرؔ لدھیانوی نے خوب کہا ہے ؎
بربادیوں کا سوگ منانا فضول تھا
بربادیوں کا جشن مناتا چلا گیا!
اچھا ہے ہر لمحے سے لطف کشید کیا جائے، بھرپورحظ اٹھایا جائے۔ قوم کو اپنے مسائل حل کرنے ہیں۔ اگر مسائل حل نہ بھی ہوں تو چند پُرمسرّت لمحات کا اہتمام کرنے میں کیا ہرج ہے؟ ؎
مِلے نہ پُھول تو کانٹوں سے دوستی کرلی
اِسی طرح سے بسر ہم نے زندگی کرلی!
ریڈ زون میں جب عوام داخل ہوئے تو رنگوں کی ایسی بہار آئی کہ سُرخ رنگ کہیں دب دباکر رہ گیا۔ اب وہاں صرف خوشیوں کے رنگ ہیں۔ لوگ حَسّاس ترین عمارتوں کے سامنے اپنی محرومیوں اور ناکامیوں کا جشن منا رہے ہیں۔ ع
ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق
یاروں نے طے کرلیا ہے کہ مسائل حل ہوں نہ ہوں، احتجاج کے نام پر کچھ اچھا وقت تو گزار لیا جائے۔ سَر دَھڑ کی بازی لگانے کی باتیں کرنے والوں کو بھی اندازہ تھا کہ کارروائی ہوئی تو کوئی دکھائی نہیں دے گا۔ میچ فکس کرلیا جائے تو کچھ خاص فکر لاحق نہیں ہوا کرتی۔ اور دھرنے میں شریک ہونے والوں کو بھی ابتدا ہی میں اندازہ ہوچکا تھا کہ کوئی ایسی ویسی کارروائی نہیں ہوگی لہٰذا بے فکر ہوکر دھرنا دیجیے اور فراغت کی ساعتوں کو انجوائے کیجیے۔ ع
بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست
''ہم زندہ قوم ہیں، پائندہ قوم ہیں‘‘ جیسے نعرے اب کھوکھلے پن کی حد سے گزر چکے ہیں۔ جب وہاں کھڑے ہیں جہاں اِنسان کو اپنی ناکامیوں سے بھی حظ اُٹھانے کی سُوجھتی ہے۔ بات سیدھی سی ہے، بظاہر اِس کے سِوا کوئی چارہ بھی نہیں ہوتا۔ قمر جمیلؔ بر وقت یاد آئے ؎
اپنی ناکامیوں پہ آخرِکار
مُسکرانا تو اختیار میں ہے!
دنیا والے حکمت و دانائی کی تلاش میں کہاں کہاں بھٹکتے ہیں۔ ہم نے اپنی جہالت اور نادانیوں سے حکمت کشید کرنے کا ہُنر سیکھ لیا ہے۔ خرابیوں سے خُوبیاں تشکیل دینے پر تحقیق کا بازار گرم ہے۔ ہر تخریب میں تعمیر کی صورت تلاش کی جاتی ہے۔ کسی نے خوب کہا ہے ع
روٹی تو کسی طور کما کھائے مُچھندر
بس اپنا بھی کچھ ایسا ہی حال ہوا ہے۔ دھرنے کے شرکاء نے کچھ لوگوں کی روزی روٹی کا بھی بندوبست کیا۔ فروٹ چاٹ، دہی بڑے، آلو چھولے، گولا گنڈا اور فروٹ جوس بیچنے والوں کی چاندی ہوگئی۔ یہ بھی خوب رہی۔ قوم مخمصے میں ہے، کاروباری اور صنعت کار طبقہ شش و پنج میں مبتلا ہے اور چند ٹھیلے والے غریبوں کا روزگار ''چمک‘‘ اُٹھا۔ گھر پُھونک کر اُجالا کرنا شاید اِسی کو کہتے ہیں۔ ایک گولا گنڈا بیچنے والا ریڈ زون سے کچھ فاصلے پر ٹھیلا لگائے ہوئے تھا۔ ٹی وی چینل والوں نے اُس سے صورت حال پر رائے طلب کی تو بولا۔ ''لوگ آرہے ہیں، گولے کھارہے ہیں، کام میرا چل رہا ہے۔‘‘
کسی بڑی خرابی کے بطن سے کسی غریب کے لیے ذرا سی بھی خُوبی پیدا ہوگی تو وہ یہی کہے گا کہ میرا کام تو چل رہا ہے۔ ہمیں ایسی آزادی یا ایسا انقلاب نہیں چاہیے جس میں بہت سوں کا بہت کچھ داؤ پر لگے اور چند لوگوں کا کام چل نکلے!
قوم کو اب دھرنوں، ریلیوں اور مظاہروں کے مرحلے سے گزر کر یگانگت کے گرین زون میں آ جانا چاہیے۔ ہر سیاسی بحران کا یہی موزوں ترین حل ہے۔ جب گلی میں گلی ڈگڈگی بجتی ہے تو گھروں سے بچے نکل آتے ہیں۔ یاد رکھیے کہ بچے نکل آتے ہیں، بڑے نہیں! یہ ثابت کرنے کا وقت آگیا ہے کہ ہم بڑے ہوچکے ہیں۔