"MIK" (space) message & send to 7575

وہ سیلاب کب آئے گا؟

جو کچھ بھی اِس قوم کی فطرت کا حصہ ہوگیا ہے وہ مرزا تنقید بیگ کو بہت بُرا لگتا ہے۔ اب چونکہ احتجاج بھی پاکستانی قوم کے مزاج کا جزوِ لاینفک ہے اِس لیے مرزا کو احتجاج اور احتجاج کرنے والوں سے خدا واسطے کا بیر ہے۔ مگر خیر، وہ بیر رکھنے اور چِڑنے کے معاملے میں توازن برقرار رکھتے ہیں اور حالات دیکھ کر ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ بھابی بھی اُن کے بعض رویّوں پر شدید احتجاج کرتی ہیں مگر اِس احتجاج کو مرزا ہنس کر جھیل جاتے ہیں۔ گھر کے ڈی چوک میں اُنہیں کوئی دھرنا پسند نہیں۔ جیسے ہی بھابی کسی بات پر احتجاج کرتی ہیں، مرزا مذاکرات پر آمادہ ہوجاتے ہیں اور تمام مطالبات مانتے چلے جاتے ہیں۔ کامیاب گھریلو سیاست کا یہی تو ایک راز ہے۔ 
ایک طرف قوم سڑکوں پر آئی ہوئی ہے اور دوسری طرف دریاؤں میں پانی آیا ہوا ہے۔ اِدھر کچھ لوگ احتجاج کر رہے ہیں اور اُدھر قدرت ہماری عاقبت نا اندیشی پر احتجاج کر رہی ہے۔ سیاست دان احتجاج کی فصل اگائیں یا نہ اگائیں اور دھرنے دیں یا نہ دیں، دریاؤں میں طغیانی تو موسم کا معمول ہے۔ ہر سال ہی کسی نہ کسی درجے کا سیلاب ہماری زمینوں کا رُخ کرتا ہے۔ دریاؤں کے ساغر چھلک جاتے ہیں اور پھر کناروں پر آباد لوگوں کو بُرے وقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 
مرزا کہتے ہیں کہ جب ہم قدرت کے اُصولوں کو نظر انداز کرتے ہیں تو قدرت بھی ہمیں نظر انداز کرنے پر تُل جاتی ہے۔ ملک میں کئی دریا ہیں۔ اور جب دریا ہیں تو اُن میں پانی بھی ہوگا۔ کبھی سطح بڑھے گی، کبھی گِرے گی۔ جب گِرے گی تو ہم بُوند بُوند کو ترسیں گے۔ فصلیں سُوکھ جائیں گی۔ اور اگر دریاؤں میں پانی زیادہ آجائے تب بھی مصیبت ہی مصیبت۔ فصلیں جس پانی کو ترس رہی ہوتی ہیں اُسی کے ہاتھوں تباہ ہوجاتی ہیں۔ دریا جب اپنی جولانی پر ہوں تو اُن میں پایا جانے والا پانی بچا لینا ہماری ذمہ داری ہے۔ قدرت کا کام پانی دینا ہے، ڈیم بنانا نہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے قدرت کپاس کی نعمت سے نوازتی ہے، اُسے دھاگے میں بدلنا اور دھاگے سے کپڑا بُننا ہمارا فرض ہے۔ مرزا کو اِس بات کا شدید دُکھ ہے کہ ہم اب تک اِتنی سادہ سی بات بھی سمجھ نہیں سکے۔ مرزا کیا جانیں کہ ہم مشکل پسند قوم ہیں، آسان باتیں ہماری سمجھ میں آسانی سے نہیں آتیں۔ 
مرزا کا کور اِشو یہ ہے کہ وہ قوم کے بارے میں سوچ سوچ کر دُبلے ہوئے جاتے ہیں۔ صحت اِس قدر گِرچکی ہے کہ دور سے دیکھ کر بھی کوئی پورے یقین سے بتاسکتا ہے کہ یہ صاحب قوم کے غم میں مَرے جارہے ہیں۔ ہم نے بارہا سمجھایا ہے کہ جناب! کیوں اپنے دشمن ہوئے جاتے ہیں۔ محض سوچنے سے کچھ ہوا ہے نہ ہوگا۔ یہ عمل کی دُنیا ہے۔ محض تفکرات کا سِکّہ چلاکر آپ اِس بازار سے کچھ بھی خرید نہیں سکتے۔ مگر مرزا کہاں مانتے ہیں؟ کبھی وہ اہلِ سیاست کو بُرا بھلا کہتے ہیں اور کبھی سرکاری مشینری کے لَتّے لیتے ہیں۔ بھابی صاحبہ بھی کئی بار ہاتھ جوڑ چکی ہیں کہ بس، اب یہ واویلا بند کیا جائے۔ مگر جس طور بھارت ''اٹوٹ انگ‘‘ کی رَٹ لگائے رہتا ہے بالکل اُسی طرح مرزا بھی ہر وقت مقنّنہ اور منتظمہ کو روتے رہتے ہیں۔ 
آج کل سیلاب نے مرزا کے ذہن کو جکڑ رکھا ہے۔ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری نے حساس ترین سرکاری عمارات کے سامنے اور مرزا نے ٹی وی سیٹ کے سامنے ڈیرا ڈالا ہوا ہے۔ سیلاب کی لپیٹ میں آئے ہوئے علاقوں کی تباہی دیکھ دیکھ کر کُڑھتے ہیں، دل مَسُوس کر رہ جاتے ہیں۔ اُدھر پانی کے ریلے اور اِدھر مرزا کے دریائے لب پر مغلظات کے ریلے۔ ٹی وی پر سیلاب کی کوریج دیکھ کر طبیعت میں طغیانی اور مزاج میں گرانی آتی جاتی ہے۔ مرزا کبھی سَر پیٹتے ہیں، کبھی گھٹنوں پر ہاتھ مار کر قوم کی ناتوانی کا ماتم کرتے ہیں۔ 
ایک مرزا پر کیا موقوف ہے، جس کسی کے بھی سینے میں دِل ہوگا وہ یہ سب کچھ دیکھ کر کڑھے گا، دکھی ہی ہوگا۔ مگر وہ کیوں دُکھی نہیں ہیں جن کے ذمے ہنگامی صورت حال کے لیے ہر طرح کی تیاریوں کو یقینی بنانا ہے؟ وہ کیوں پریشان نہیں جن کا کام ہی سیلاب اور دیگر قدرتی آفات سے نمٹنے کے اسباب کا اہتمام کرنا ہے؟ مرزا کی طرح وہ ہیجان میں مبتلا کیوں نہیں جن کی ڈیوٹی ہی یہ ہے کہ دریاؤں میں طغیانی کے آنے سے پہلے ممکنہ متاثرین کو نہ صرف آگاہ کریں بلکہ اُن کی بھرپور پیشگی مدد بھی یقینی بنائیں؟ 
یہ تماشا تو چھ عشروں سے جاری ہے۔ ہر سال مون سون آتا ہے یعنی بارشیں ہوتی ہیں۔ جب بارشیں زیادہ ہوتی ہیں تو سیلاب بھی آتا ہے۔ سیلاب کو تو ہم شاید مکمل طور پر نہ روک پائیں مگر چھلکے ہوئے دریاؤں کو سمندر میں گرنے کی اجازت دینا کہاں کی دانش مندی ہے؟ ڈیم بنانا تو ہمارے بس کی بات ہے۔ اِس راہ میں تو قدرت کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کرتی۔ دریاؤں کا کٹاؤ روکنا تو بہت حد تک ہمارے بس کی بات ہے۔ دریاؤں کے پُشتے بھی ہمیں مضبوط کرنے ہیں اور کناروں پر آباد لوگوں کو ہٹاکر محفوظ مقامات پر بسانا بھی ہمارا ہی فرض ہے۔ قدرت کو جب اپنے کام کا پورا اندازہ ہے تو ہمیں اپنے فرائض کا احساس کیوں نہیں؟ جن کے پیر نہیں ہوتے وہ آمد و رفت کے لیے بہتر تکنیکی اور میکانیکی سہارے تلاش کرتے ہیں، خصوصی گاڑیاں بنواتے ہیں۔ اور ایک ہم ہیں کہ پیر سلامت ہونے پر بھی گِھسٹ گِھسٹ کر چلنے کا ''آپشن‘‘ سینے سے لگائے ہوئے ہیں! جن ملکوں کے پاس دریا نہیں (یا کم ہیں) کوئی اُن سے پوچھے کہ پانی کتنی بڑی نعمت ہے۔ یہاں قدرت نے دل کھول کر جھرنوں، جھیلوں، تالابوں، دریاؤں اور سمندر سے نوازا ہے تو رونا پیٹنا لگا ہوا ہے کہ اِتنے پانی کا کیا کریں؟ یعنی خوب ضائع کرو اور جب ڈھونڈے سے نہ مِلے تو اُسی کمیاب پانی کو کمرشل کوموڈٹی میں تبدیل کردو! 
قدرت کی طرف سے فَیّاضی اور ہماری طرف سے ناقدری... کیا سِتم ہے۔ اپنے مُقدر سے یہ کھلواڑ کب تک... اور کیوں؟ کب ہمیں یہ خیال آئے گا کہ جب آسمان کے دروازے بند ہونے پر آتے ہیں تو انسانوں کی ساری اوقات کھل کر سامنے آجاتی ہے؟ 
قدرت اپنے حصے کا کام کرتی رہے گی۔ بارشیں بھی ہوتی رہیں گی۔ دریاؤں میں طغیانی بھی آتی رہے گی۔ دریا چھلکتے بھی رہیں گے یعنی سیلاب بھی آتے رہیں گے۔ یہ تو قدرت اور فطرت کا معمول ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے معمولات کب تبدیل ہوں گے؟ ہمارے قومی وجود پر روشن ضمیری کی بارش کب ہوگی؟ سیلاب کے بند باندھنے کا جذبہ کب ہمارے ارادوں کی بنجر زمین کو سیراب کرے گا؟ وہ دن کب آئے گا جب ہم ہر قدرتی آفت کے لیے بہت پہلے سے جاگ اُٹھیں گے اور ساری تیاریوں کے ساتھ اُس کا سامنا کریں گے تاکہ ربّ العالمین بھی عرش سے نظر ڈالے تو ہمارے جذبوں کی بھرپور داد دے اور اِس بات پر نازاں ہو کہ اُس کے بندوں کو ایک دوسرے کا خیال آگیا ہے! 
زمینی دریاؤں میں تو سیلاب آیا ہی کرے گا۔ سوال صرف یہ ہے کہ ہمارے دریائے عمل میں طغیانی کی کیفیت کب پیدا ہوگی؟ ہمارے فکر و عمل کے تمام دھارے پوری دیانت اور رفتار سے کب بہیں گے اور بنجر زمینوں کو سیراب کرنے کا اہتمام کرکے قدرت کی فَیّاضی پر شُکرانے کا حق ادا کریں گے؟ مرزا کی طرح ہم بھی اُس دن کے منتظر ہیں جب اِس قوم کے ارباب بست و کشاد محض اپنی جیبیں بھرنے کے لیے کسی قدرتی آفت کے منتظر نہ ہوں (اور نہ اُس قدرتی آفت کو یقینی بنانے کا اہتمام کریں!) بلکہ اپنے ضمیر کی عدالت میں کھڑے ہوکر اہل وطن کے حق میں چند فیصلے کریں۔ جب ایسا ہوگا تب کسی بھی درجے کا سیلاب ہمارا کچھ بگاڑ نہ پائے گا۔ اور تب تک جو کچھ بھی ہونا ہے اُس سے نمٹنے کیلئے گڑگڑا کر اللہ سے مدد مانگنے کے سِوا چارہ نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں