"MIK" (space) message & send to 7575

حُسنِ اختلاف کی تابندہ علامت

گزرے ہوئے وقت کو یاد کرکے رونا انسانی فطرت ہے۔ ہر انسان یہی سمجھتا ہے کہ گزرتا ہوا وقت مزید خرابی کی طرف لے جاتا ہے۔ بات صرف اِتنی ہے کہ اِنسان فطرتاً یا طبعاً ماضی پسند واقع ہوا ہے اور گزرے ہوئے زمانوں میں رہنا پسند کرتا ہے۔ اِسی لیے انگریزی میں کہا جاتا ہے کہ گزرا ہوا زمانہ ایک الگ ہی ملک ہے! 
قومی سیاست کو حزبِ اختلاف کے کردار سے کماحقہ رُوشناس کرانے والے نوابزادہ نصراللہ خان کی گیارہویں برسی پر کئی گزرے ہوئے زمانے یاد آرہے ہیں۔ کئی زمانے اِس اعتبار سے کہ نوابزادہ نصراللہ خان نے طویل عمر پائی اور سیاست میں کئی ایسے ادوار گزارے جن میں وہ ہی وہ دکھائی دیے۔ بہت چھوٹی عمر سے سیاست میں قدم رکھنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ قدرت نے اُنہیں سیاسی شعور شباب کی دہلیز پر قدم رکھنے سے پہلے ہی عطا کردیا اور پھر زندگی بھر وہ دوسروں کو بھی اِس شعور سے بہرہ مند کرنے کی کوشش کرتے دکھائی دیے۔ 
نوابزادہ نصراللہ خان افغانستان سے ہجرت کرکے جنوبی پنجاب کے ضلع مظفر گڑھ کے علاقے خان گڑھ میں آباد ہونے والے پٹھان گھرانے میں 13 نومبر 1916ء (اور بعض ذرائع کے مطابق 1918ء) کو پیدا ہوئے۔ لڑکپن میں یعنی 1930ء میں سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کی مجلس احرارِ اسلام سے وابستہ ہوئے۔ 1945ء میں کل ہند مجلسِ احرارِ اسلام کے سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے۔ 1966ء میں آل پاکستان عوامی لیگ کی قیادت سنبھالی۔ 
نوابزادہ نصراللہ خان کا دم غنیمت تھا کہ اُصولی اختلاف کی روایت اُنہی کے دم سے زندہ اور توانا رہی۔ تعلیم یافتہ اور اعلیٰ ذوق کے حامل ہونے کی بدولت نوابزادہ نصراللہ خان نے سیاست میں بھی شرافت اور نفاست متعارف کرائی۔ اختلاف کس طور اور کس حد تک کرنا چاہیے یہ کچھ نوابزادہ نصراللہ خان ہی کا حصہ تھا۔ جب تک اُن کے دم میں دم رہا، جمہوریت کو پروان چڑھانے کی لگن بھی برقرار رہی۔ جمہوریت کے لیے اختلاف ناگزیر حیثیت رکھتا ہے اور اختلاف کو برتنا، نبھانا نوابزادہ نصراللہ کے سیاسی ہُنر کا درجۂ کمال تھا۔ 
ایسا نہیں ہے کہ گزرے ہوئے زمانوں میں بدمعاشی نہیں تھی۔ جو کچھ آج کل مروّج ہے ویسا ہی بہت کچھ اُس وقت بھی سِکّہ رائج الوقت کی حیثیت رکھتا تھا۔ نوعیت اور شِدّت البتہ کچھ مختلف تھی۔ ہماری سیاست میں خرابیاں کب نہیں تھیں؟ مگر اِس نکتے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ سب کو ایک لاٹھی سے ہانکنے یا زمینی حقیقت سے مکمل چشم پوشی برتنے کی ''روایت‘‘ نے تب جنم نہیں لیا تھا اور ایک حد کے بعد کچھ بھی غلط کرنے سے اجتناب برتا جاتا تھا۔ 
نوابزادہ نصراللہ خان نے پاکستانی سیاست میں سنجیدہ اختلاف و احتجاج کا کلچر متعارف کرایا۔ وہ بے حد نفیس اور وضع دار تھے‘ اِس لیے اُن کی سیاست میں بھی یہ اوصاف خوب جھلکتے تھے۔ جب بھی وہ کسی تحریک کی قیادت کر رہے ہوتے تھے یا کسی اِشو پر میدان میں نکل آتے تھے تب لوگوں کو یہ اندازہ لگانے میں مدد ملتی تھی کہ موقع کی مناسبت سے متوازن اختلافی رویّہ کس طور اپنانا ہے۔ کسی بھی اختلافی نکتے پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے نوابزادہ نصراللہ خان نے توازن، احتیاط اور وضع داری کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ اُن کی اختلافی سیاست کا نچوڑ یہ نکتہ تھا کہ اپنی بات اِس طور کہنی ہے کہ فریقِ ثانی معاملے کی تہہ تک پہنچ جائے اور بے مزا بھی نہ ہو۔ 
آج کی ہنگامہ خیز اور بے اُصولی سیاست پر نظر ڈالیے تو نوابزادہ مرحوم کی شخصیت تپتی دُھوپ میں گھنے درخت جیسی معلوم ہوتی ہے۔ آج جب سیاست دانوں کو اظہارِ اختلاف کے نام پر ایک دوسرے کو بھرپور ذلّت سے دوچار کرنے کی کوشش کرتے دیکھیے تو یقین نہیں آتا کہ کبھی اِس ملک کی سیاست میں ایسا بھی دور تھا کہ نوابزادہ نصراللہ اور اُن کے قبیل کے لوگ شرافت اور شائستگی کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنی بات کہتے تھے اور فریق ثانی بھی دلائل سے قائل ہوکر غلطی کسی حد تک تسلیم کرنے پر آمادہ ہوجایا کرتا تھا۔ نوابزادہ نصراللہ خان نے کئی مواقع پر زبان و بیان کا بہترین اور موزوں ترین اُسلوب اختیار کرکے سیاسی تحریک کی بگڑی ہوئی بات یوں بنائی کہ اپنے اور بیگانے سبھی اُن کی دانائی کے (مزید) قائل ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ 
نوابزادہ نصراللہ خان تہہ دار اور طرح دار شخصیت رکھتے تھے۔ اُن سے ملنے والے کبھی کبھی تو حیران رہ جایا کرتے تھے کہ سیاسی مصروفیات کے باوجود وہ ادب اور دیگر معاملات کے لیے وقت کس طور نکال پاتے ہوں گے۔ اُنہیں اِس بات کا بھی شِدّت سے احساس رہتا تھا کہ تہذیبی روایات کسی بھی مرحلے پر نظر انداز نہ ہوں۔ گفتگو میں سلیقہ اِس قدر تھا کہ اُن کی بات سے مکمل اتفاق نہ کرنے والا بھی ہمہ تن گوش ہوکر اُن کی بات محض اِس لیے سُن لیا کرتا تھا کہ اِس بہانے زبان و بیان کا بلند معیار تو نصیب ہو ہی رہا ہے! 
ایک طرف تو سیاست کی پُرخار وادی اور دوسری طرف شعر گوئی ... اور وہ بھی زبان پر کماحقہ قدرت کے ساتھ۔ یہ دونوں چیزیں ملک کر نوابزادہ مرحوم کی سیاسی بصیرت کو دو آتشہ کرگئیں۔ زبان و ادب کے اعلیٰ ذوق نے اُنہیں گفتگو میں برمحل الفاظ پوری صحت کے ساتھ ادا کرنے کا ذوق اور قرینہ بخشا تھا۔ 
سیاست اور ادب نوازی کا میل کم کم ہوا کرتا ہے۔ اور جب بھی ایسا ہوتا ہے، سیاسی نابغے منصۂ شہود پر آیا کرتے ہیں۔ مولانا کوثر نیازی مرحوم بھی ادب میں مذاقِ سلیم رکھتے تھے مگر اِس سے بھرپور استفادہ کرنے اور سیاست کے حوالے سے جامعیت کے ساتھ سلیم الطبع ہونے پر اُنہوں نے خاطر خواہ توجہ نہ دی۔ شاعر تو مولانا کوثر نیازی بھی تھے اور اُن کی طبع آزمائی خاصی ''شعریت‘‘ کے ساتھ تھی مگر حق یہ ہے کہ نوابزادہ نصراللہ خان نے زبان کی صحت اور خیالات کی رفعت پر زیادہ توجہ دی۔ اِس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اُن کی شخصیت نِکھرتی چلی گئی۔ نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ وہ جب کسی اختلافی نکتے پر اظہارِ خیال کرتے تو بات میں شائستگی اور وزن اِس قدر ہوا کرتا تھا کہ لوگ نہ ماننے پر بھی دل ہی دل میں تو شکست تسلیم کرہی لیا کرتے تھے۔ 
نوابزادہ مرحوم کی شخصیت کا ایک جامع پہلو یہ بھی تھا کہ مرتے دم تک اپنے ''کاز‘‘ سے جُڑے رہے یعنی پوری شائستگی کے ساتھ اختلاف کا حق ادا کرتے رہے۔ 27 ستمبر 2003ء کو اِس دارِ فانی سے کوچ کرتے وقت بھی نوابزادہ نصراللہ خان اتحاد برائے بحالی ٔ جمہوریت (اے آر ڈی) کے سربراہ تھے۔ 87 سال کی عمر میں بھی وہ نہیں چاہتے تھے کہ گھر میں بیٹھ کر صرف تماشا دیکھیں۔ اُنہوں نے عملی سیاست میں آخری سانس تک حصہ لینے کی مثال قائم کی۔ 
آج ہمارے ہاں حزب اختلاف کا کام صرف یہ رہ گیا ہے کہ کسی بھی اختلافی نکتے پر سوچے سمجھے بغیر شور مچایا جائے اور معاملات کو اِس قدر بگاڑا جائے کہ حکومتِ وقت کے لیے بہتر ڈھنگ سے کچھ کرنا ممکن نہ رہے۔ ایسے ماحول میں نوابزادہ نصراللہ خان یاد آتے ہیں جنہوں نے قوم کے دل کی آواز بن کر جمہوریت میں اختلاف کی روایت کو اِس طور نبھایا کہ بات بھی بیان ہوگئی اور شائستگی کا دامن بھی ہاتھ سے نہ چُھوٹا۔ وضع داری اور مُسلّمہ روایات کی پاس داری نے اُن کی شخصیت کو انتہائی دل آویز بنادیا تھا۔ اِس کا یہ نتیجہ برآمد ہوا تھا کہ شدید اختلاف رکھنے والے بھی چاہتے تھے کہ وہ اہم معاملات کے حوالے سے فعال و متحرک رہیں اور اپنے حصے کا کام کرتے رہیں۔ مخالفین سے بھی قبولیت کی سَند پانا سیاست میں ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہوا کرتی۔ اِس حوالے سے بھی نوابزادہ مرحوم آج کی سیاسی نسل کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ جمہوریت میں اختلاف اور حزبِ اختلاف نہ ہو تو بات نہیں بنتی۔ مگر بات بنانے کے لیے نوابزادہ مرحوم کے سے اوصاف بھی درکار ہیں۔ بقول غالبؔ ؎ 
کون ہوتا ہے حریفِ مے مرد افگنِ عشق 
لبِ ساقی پہ مُکرّر ہے صلا میرے بعد!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں