"MIK" (space) message & send to 7575

میٹر گھوم چُکا ہے، مگر …

ہمارے ہاں بجلی نے روٹھی ہوئی محبوبہ کا مزاج پایا ہے۔ بات بات پرٹھنکنا اور مُنہ پُھلاکر چُھپ جانا ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ لوگ اِس کی دید کو ترستے رہتے ہیں اور بجلی صاحبہ ہیں کہ سات پردوں سے نکلنے کا نام نہیں لیتیں۔ مگر خیر، یہ لیلیٰ ایسی سنگ دِل بھی نہیں۔ آپ نے سُنا ہوگا کہ لیلیٰ کا ایک کُتّا بھی ہوا کرتا تھا اور مجنوں اُس کُتّے کو بھی چاہتا تھا۔ بجلی نے بھی شاید یہ سوچ رکھا ہے کہ وہ مِلے نہ مِلے، اگر اُس کے دیوانوں کو اُس کے کُتّے مل جائیں تو وہ اُسی پر اکتفا کرلیں گے۔ یہی سوچ کر وہ اپنے کُتّوں یعنی بِلوں کو باقاعدگی سے بھیجتی رہتی ہے تاکہ اُس کے دیوانوں کو کچھ تو آس رہے اور وہ یہی سوچ کر خوش رہیں کہ بِل آرہے ہیں تو کبھی نہ کبھی بجلی بھی آہی جائے گی۔ مگر لیلائے بجلی کے دیوانے محض اُس کے بِل سے بہلنے والے نہیں۔ وہ اِس لیلیٰ کے مزاج کو سمجھ چکے ہیں۔ 
گھر میں لگے بجلی کے میٹر کو مسلسل رُکی ہوئی حالت میں دیکھ کر عام آدمی کے دماغ کا میٹر گھوم چکا ہے۔ کم از کم میڈیا والے تو یہی دعویٰ کر رہے ہیں۔ بجلی کا میٹر گھومے۔ یہ میٹر گھومتا ہے تو سب کچھ رواں ہوجاتا ہے۔ اور جب یہ بند ہو تو زندگی تھم سی جاتی ہے۔ مگر شاید حکومت نے طے کر رکھا ہے کہ چلنے کے معاملے میں بجلی کے میٹر کو استثنٰی دیئے رہنا ہے۔ ایک بس یہ میٹر بند ہے اور باقی تو سارے ہی میٹر ہوش رُبا رفتار سے گھوم رہے ہیں۔ سب سے تیز تو کرپشن اور اقرباء پروری کا میٹر گھوم رہا ہے۔ اِس میٹر کی رفتار دیکھ کر قوم کا سَر کچھ یُوں گھوم رہا ہے کہ وہ چکراکر گرتی ہے، اُٹھتی ہے اور پھر گر جاتی ہے۔ 
بجلی کے بحران نے قوم پر ایسا وختا ڈالا ہوا ہے کہ کِھسکنے کا نام نہیں لے رہا۔ جھٹکا اب بجلی میں کم اور اُس کے بِل میں زیادہ ہے۔ جس بجلی کو خرچ کرنے کی سعادت نصیب نہ ہوئی ہو اُس بجلی کے بِل جب بڑھ بڑھ کر گلے ملتے ہیں تو شہری بلبلا اُٹھتے ہیں۔ پہلے تو وہ روہانسے ہوکر بجلی کے بِلوں کو تکتے ہیں اور پھر شدید اشتعال کی حالت میں اپنی ہی راہ کی دیوار بن جاتے ہیں یعنی سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ 
آج کل بجلی کے تاروں کے سِوا ہر چیز میں کرنٹ ہے۔ سب سے زیادہ کرنٹ پایا جاتا ہے کرنٹ افیئرز میں۔ اور یہ خاصا اَن فیئر اور خُرّانٹ کرنٹ ہے کہ بِلا ضرورت بھی جھٹکے دیتا ہے۔ اور لطف بالائے لطف یہ کہ لوگ بھی یہ جھٹکے بخوشی برداشت کرتے رہتے ہیں۔ 
سیاست کے لاشے میں کسی نہ کسی طرح کچھ رُوح پُھونکی گئی ہے تو عوام میں بھی کچھ جان آئی ہے۔ جہاں کل تک سَنّاٹا تھا وہاں اب ہنگامہ ہے۔ سیاست کی تیزا تیزی کا نشہ ایسا چڑھا ہے کہ اُتارے نہیں اُتر رہا۔ اُترے کیسے؟ بیسیوں کروڑ روپے خرچ ہوئے ہیں عوام کو مخمور کرنے میں!
مملکتِ خداداد میں اب ایسا کیا ہے جو ٹھکانے پر ہے؟ کون سا معاملہ ہے جو ذہن کی حدود میں سماتا ہے یعنی سمجھ میں آتا ہے؟ زندگی اُسی طرح گزر رہی ہے یا گزاری جارہی ہے جس طرح کنڈا لگاکر بجلی چُرائی جاتی ہے۔ ہر طرح کی اُصول پسندی، رواداری اور وضع داری سے زندگی کا کنکشن کٹ گیا ہے۔ ایسے میں اُن تمام پاکستانیوں کے دماغ کا میٹر کیوں نہ گھومے گا جو تسلیم شدہ اُصولوں کے مطابق زندگی بسر کرنے پر یقین رکھتے ہیں؟ 
مگر کیا واقعی عوام کا میٹر گھوم چکا ہے؟ اگر واقعی ایسا ہے تو اِسے انقلاب سمجھیے۔ مگر کیوں؟ انقلاب تو خون خرابے کے بغیر درشن نہیں دیتا۔ آپ کہیں گے خون خرابہ ہو تو رہا ہے۔ ٹھیک ہے خون خرابہ ہو رہا ہے مگر یہ ساری ہنگامہ آرائی انقلاب ہرگز نہیں اور دہشت گردی یقیناً ہے۔ دہشت گردی کو ہم انقلاب کے کھاتے میں کیسے ڈال دیں؟ ایسا کرنا تو اُصولوں کے منافی اور بے اُصولی پر مبنی ہوگا۔ آپ سوچیں گے اب کیسے اُصول اور کہاں کے اُصول؟ مگر جناب، بے اُصولی کی بنیاد پر آنے والی تبدیلی کو انقلاب کیوں کہیے؟ انقلاب تو نام ہی اُصولی یعنی اُصولوں پر مبنی تبدیلیوں کا ہے۔ 
عوام کے دماغ کا میٹر گھوم ضرور چکا ہے مگر دھوکا مت کھائیے۔ یہ ''از خود نوٹس‘‘ کے تحت نہیں گھوما بلکہ اِسے گھمایا گیا ہے۔ اُصولوں کی لڑائی کے نام پر عوام کو قربانی کا بکرا بنایا جارہا ہے۔ لڑائی کل بھی بڑوں کی تھی اور آج بھی بڑوں ہی کی ہے۔ اِس آگ کا ایندھن بننے پر بھی وہ بہت خوش ہیں جن کا اِس لڑائی سے کوئی بنیادی تعلق نہیں۔ میڈیا کو اِس لڑائی کے اصل میدان میں تبدیل کیا گیا ہے۔ اِس میدان میں سب اپنے اپنے گھوڑوں پر سوار کمالات کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ میڈیا نے صرف میدان کا نہیں، ہتھیار کا بھی کردار ادا کیا ہے۔ اِس بار میڈیا والوں نے بھی تقسیم ہوکر ''اُدھر تم، اِدھر ہم‘‘ والی کیفیت پیدا کردی ہے۔ 
احتجاج کے نام پر عوام کو سڑکوں پر لایا تو جاچکا ہے مگر مشکل یہ ہے کہ اِس بار جن کو بوتل سے نکالنے کے بعد یار لوگ بھول بھال گئے ہیں کہ بوتل کہاں رکھ چھوڑی ہے! اننگز ذرا لمبی ہوگئی ہے۔ جو میدان میں ہیں اُنہیں بھی کچھ اندازہ نہیں کہ کب کس طرح سے کھیلنا ہے۔ تماشائی بھی یہ دیکھنے اور جاننے کو بے تاب ہیں کہ یہ اننگز ختم کیسے ہوگی۔ عوام کو چارج کرنے والے اب کے کچھ ایسی 
باتیں کرگئے ہیں کہ خود اُن کے لیے بھی بوریا بستر لپیٹنا محال سا ہوگیا ہے۔ ساحرؔ نے کہا تھا ؎ 
وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن 
اُسے اِک خوبصورت موڑ دیکر چھوڑنا اچھا 
یاروں نے احتجاج کے افسانے کو ایسا آغاز دیا ہے کہ اب انجام دکھائی تو کیا، سُجھائی بھی نہیں دے رہا۔ دھرنوں کے شُرکاء ایسے مست و بے خود ہیں کہ اُنہیں اِس افسانے کے آغاز سے غرض ہے نہ انجام سے۔ اُن کے لیے تو یہی کافی ہے کہ جذبات کے اظہار کا رنگا رنگ اور سُریلا طریقہ وضع کیا گیا ہے۔ سبھی چاہتے ہیں کہ ع 
بڑھتی رہے یہ روشنی، چلتا رہے یہ کارواں
کرپشن، اقربا پروری، نا اہلی، فرض ناشناسی، نا انصافی، بے حِسی، بے دِلی اور دوسری بہت سی قباحتوں کے میٹر دن رات گھوم رہے ہیں۔ اِن کے مقابل عوام کے دماغ کا میٹر بھی گھوم رہا ہے مگر معاملہ صرف اشتعال تک محدود ہے۔ عقلِ سلیم، اولوالعزمی اور عمل پسندی کا میٹر بھی تو گھومنا چاہیے۔ ایک بس دماغ کا میٹر گھومنے اور اشتعال کی کیفیت کے پیدا ہوجانے سے کیا ہوگا؟ یہ تو ایسا ہی معاملہ ہے جیسے کسی گڑھے میں پھنسا ہوا گاڑی کا پہیّہ گھومتا رہے۔ احتجاج کیسا ہی ولولہ انگیز اور دِلکش ہو، اُس سے کہیں آگے جاکر عوام کو دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود کو بدلنا بھی تو ہے۔ ایسا ہوگا تب ہی تو عمل پسندی کا میٹر گھومے گا۔ اور معاملات کے بے نتیجہ رہنے کی سُوئی اٹکے گی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں