سارا جھگڑا حواس کا ہے۔ حواسِ خمسہ نے انسان کو رات دن عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ایک قیامت ہے کہ اِن حواس کے باعث برپا رہتی ہے۔ اِنسان دیکھتا، سُنتا، سُونگھتا، چکھتا اور چُھوتا ہے تو مشکلات سے دوچار رہتا ہے۔ حواسِ خمسہ کے اشتراک سے پنپنے والی چھٹی حِس بھی کم دُکھ نہیں دیتی۔ خواہ مخواہ کچھ کا کچھ دکھائی دیتا ہے، سیدھی سی بات میں بھی نظریۂ سازش کار فرما محسوس ہوتا ہے!
دیکھنے کا بھی عجیب ہی معاملہ ہے۔ دیکھیے اور سوچیے، سوچیے اور پریشانی سے دوچار رہیے۔ اقبالؔ نے کہا تھا ؎
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
محوِ حیرت ہوں کہ دُنیا کیا سے کیا ہوجائے گی
دیکھنا کیا ہے؟ آنکھوں کا قصور! آنکھوں کا قصور دِل کو اُلجھن میں مبتلا کرتا ہے۔ یعنی ع
آنکھوں کا تھا قصور، چُھری دِل پہ چل گئی!
دیکھنے پر بھی کچھ بیان کرنے کی طاقت نہ ہو تو دِل ہی دِل میں اُلجھن کا شکار رہیے اور دِل پر قیامت ڈھاتے رہیے۔ ایسے میں عقل کیا کہتی ہے؟ یہی کہ کچھ مت دیکھیے۔ اگر دیکھنے سے پریشانی کا گراف بلند ہوتا ہو تو کامن سینس کا تقاضا ہے کہ کچھ نہ دیکھا جائے۔
ہماری حکومتیں عشروں سے یہی ایک کام تو مستقل مزاجی اور عمدگی سے کرتی آئی ہیں۔ عوام کے مسائل کو دیکھ دیکھ کر اُلجھنے سے کہیں بہتر ہے کہ کچھ نہ دیکھیے اور سُکھ کے سانس لیتے رہیے۔ ہمارے ہاں کی سیاسی کامن سینس تو یہی ہے۔ مگر ستم یہ ہے کہ سندھ کے وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ نے کامن سینس کا مظاہرہ کیا تو ہنگامہ برپا ہوگیا۔ اخبارات چیخ اُٹھے۔ ایک لمحے کو تو ایسا لگا جیسے کوئی قیامت برپا ہوگئی ہے۔ میڈیا والوں نے بات کا بتنگڑ بنادیا۔ رائی کا دانہ کیا ہاتھ آیا، اُسے پربت میں تبدیل کردیا۔ بات اِتنی سی تھی کہ شاہ سائیں سندھ کے دُور افتادہ (سرحدی) علاقوں میں خوراک کی قلت کا جائزہ لینے کی خاطر نگر پارکر پہنچے تو قحط زدہ لوگوں کو دیکھ کر اُلجھن میں مبتلا ہونے پر اُنہوں نے کچھ دیر سو رہنے کو ترجیح دی۔ شاہ سائیں نے ذرا سی نیند کیا لی، اعتراضات اور تنقید کے گولے داغنے والے بیدار ہوگئے!
ہر زمانے میں چند رجحان ساز شخصیات ہوتی ہیں۔ ایسی شخصیات تیار کرنا معاشرے کے بس کی بات نہیں۔ یہ تو اللہ کا کرم ہے کہ وہ چند ایک شخصیات ہماری جھولی میں ڈال دیتا ہے اور معاشرے کو چند نئے رجحانات مل جاتے ہیں۔ اِن رجحانات کی مدد سے لوگ تھوڑی سی ''آف بیٹ‘‘ زندگی بسر کرنے کے قابل ہوپاتے ہیں ورنہ لکیر کے فقیر ہی رہیں۔ سید قائم علی شاہ یعنی شاہ سائیں اِس لیے ہمارے فیورٹ ہیں کہ اُنہوں نے دو ٹکے کی سیاست کو موتیوں میں تولے جانے والے رجحانات بخشے ہیں!
شاہ سائیں کو دیکھ کر ٹھنڈک کا احساس ہوتا ہے۔ جیسے کسی کو تپتی دوپہر میں گھنے درخت کا سایا نصیب ہوجائے، شدید گرمی میں گلاس بھر سَردائی پینے کو مِل جائے۔ شاہ سائیں بہت ٹھنڈے چلتے ہیں۔ پورا ملک ہر معاملے میں جوش و جذبے کا مظاہرہ کرتا پھر رہا ہے۔ ایسے میں شاہ سائیں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ جوش و جذبے کے بغیر جینا کیا ہوتا ہے! اور صاحب، جوش و جذبہ دکھاکر کرنا بھی کیا ہے؟ پورا ملک یہی تو کرتا آیا ہے۔ اُس نے کیا پالیا جو شاہ سائیں کچھ حاصل کرلیں گے؟ اور اِس عمر میں اب شاہ سائیں کو حاصل بھی کیا کرنا ہے؟
شاہ سائیں پریشان ہوتے ہیں نہ کسی کو پریشان کرتے ہیں۔ جو لوگ ہر معاملے میں بدگمانی کو راہ دیتے ہیں وہ شاہ سائیں کے پُرسکون انداز کو بھی سیاست سمجھ کر کچھ کا کچھ سوچتے رہتے ہیں۔ ہم تو بس یہی کہیں گے کہ ایسا کروگے تو کون آئے گا!
شاہ سائیں ہر بحران کو انتہائی قابلِ رشک ملائمت سے ختم کرتے ہیں۔ یہ ہُنر اب کسی کسی میں پایا جاتا ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ ایسے اب دو چار لوگ ہی رہ گئے ہیں۔ مگر اب ''اہلِ ہُنر‘‘ کی قدر کرنے کا چلن ہی کہاں ہے؟ صحرائے تھر کے مختلف علاقوں میں جب قحط کی سی صورت حال نے سَر اُٹھایا تو شاہ سائیں نے بہت ملائمت سے معاملات نمٹائے۔ قحط زدہ علاقوں میں جاکر اگر شاہ سائیں نے تھوڑی سی نیند لے لی تو یہ نہ سمجھا جائے کہ اُنہیں لوگوں کی پریشانی کا احساس نہیں تھا۔ اِس کا اصل سبب یقیناً یہ تھا کہ وہ بہت نرم دِل کے انسان ہیں، کسی کی تکلیف اُن سے دیکھی نہیں جاتی۔ اب اگر وہ مصیبت زدہ افراد کو دیکھ کر بھی کچھ نہ کر پاتے تو لوگ مزید تنقید کرتے کہ بس دیکھتے رہتے ہیں، کرتے کچھ نہیں۔ میڈیا والوں کو پھر بہانہ مل جاتا بات کا بتنگڑ بنانے کا۔ اور عوام بھی خوب مزے لیتے۔ لوگوں کو بھی کسی صورت قرار نہیں۔ ہر معاملے میں تنقید کا کوئی نہ کوئی پہلو تلاش کر ہی لیتے ہیں۔
ہم تو شاہ سائیں کو داد دیں گے کہ وہ بہت سے معاملات میں رُجحان ساز ہیں۔ شور شرابے اور ہنگامہ آرائی کے بغیر اُنہوں نے پانچ سال وزارتِ اعلیٰ چلائی۔ اب پھر وہ اُسی راہ پر گامزن ہیں۔ سَر پر آسمان بھی ٹوٹ پڑے تو وہ ''زمیں جنبد، نہ جنبد گل محمد‘‘ کے مصداق ٹس سے مس نہیں ہوتے یعنی اپنی جگہ ڈٹے رہتے ہیں۔ ایسی ''اولوالعزمی‘‘ اب کہاں پائی جاتی ہے؟ ہر بحران کا شیشہ اُن کی پُرسکون شخصیت سے ٹکراکر کِرچی کِرچی ہو جاتا ہے۔ کوئی مخالفت کی رَو میں بہتے ہوئے اناب شناپ بک دیتا ہے تب بھی شاہ سائیں جذباتی ہوئے بغیر ٹھنڈے اور میٹھے لہجے میں جواب دے کر اُس کے دِل و دِماغ کی ٹیوب سے جوش و جذبے کی ساری ہوا نکال دیتے ہیں۔
اب ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے اُسے دیکھ کر آنکھیں بند کرلینے ہی میں آنکھوں کے ساتھ ساتھ دِل و دِماغ کی بھی بھلائی ہے۔ کوئی کب تک کیا کیا دیکھے اور کُڑھتا رہے؟ آنکھیں تھک جائیں گی مگر تماشے ختم ہوں گے نہ دُکھڑے دم توڑیں گے۔ جن معاشروں میں ہر طرف اُلجھنیں ہوں وہاں نظّارگی سے جان چُھڑاکر بے عملی کے بستر پر سو رہنا ہی دانائی کی علامت ہے۔ پاکستانی معاشرے میں ایک ذی ہوش سیاست دان کو وہی کچھ کرنا چاہیے جو شاہ سائیں نے نگر پارکر میں کیا۔ ماحول کا تو کام ہی اُلجھنیں پیدا کرنا اور دیکھنے والوں کو پریشان کرتے رہنا ہے۔ اگر کوئی سیاست دان اپنے ماحول کو دیکھ کر رنجیدہ اور آبدیدہ ہوتا رہے تو سیاست کیا خاک کرے گا! سیاست دانوں پر قومی خزانے میں نقب لگانے اور سرکاری وسائل کی لُوٹ مار کا الزام عائد کرنے والوں کو سوچنا چاہیے کہ خوابِ خرگوش کے مزے لُوٹنا حقیقی لُوٹ مار سے بہرحال بہتر ہے!