اہل سیاست کی یہ ادا بہت پسند ہے کہ اگر کچھ کرنے کی ٹھان لیں تو ہر قیمت پر کرکے دم لیتے ہیں۔ قیمت کا سوچیں اُن کے دشمن۔ کون سی اُنہیں قیمت ادا کرنا ہوتی ہے! بیشتر سیاسی یاروں نے ''تخت یا تختہ‘‘ والا مزاج پایا ہے۔ یعنی خود نہ کھیل پائیں تو کسی کو کھیلنے بھی نہیں دیں گے۔
سیاست کے اسٹیج پر ''منہ کی کھانے والے‘‘ یوں تو بہت ہیں بلکہ ایک ڈھونڈو تو ہزار ملتے ہیں مگر جو بات شیخ رشید میں ہے وہ کسی اور میں دکھائی نہیں دیتی۔ خواجہ الطاف حسین حالیؔ کی زبانی کہیں تو ؎
ہم جس پہ مر رہے ہیں وہ ہے بات ہی کچھ اور
عالم میں تجھ سے لاکھ سہی، تو مگر کہاں!
حالات کی خرابی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ شیخ رشید جیسے سیاسی مہربان نہ ہوں تو انسان ہنسنا بھول کر، تفکرات کے دریا میں غرق ہوجائے۔ شیخ رشید اور اُن جیسے احباب کا دم غنیمت ہے۔ وہ حالات کی تلخی میں پائے جانے والے زہر کا اپنے بیانات کے ذریعے تریاق پیدا کرنے کے ماہر ہیں۔
جو لوگ پنجابی فلمیں دیکھنا محض اِس لیے ترک کرچکے ہیں کہ ''معیاری‘‘ بڑھکیں سُننے کو نہیں ملتیں وہ ہرگز دل چھوٹا نہ کریں اور شیخ صاحب کی تقریروں کو آزما دیکھیں! ہم پورے یقین اور ذمہ داری سے کہہ سکتے ہیں کہ شیخ صاحب اُنہیں مایوس نہیں کریں گے۔ اُنہوں نے مایوس کرنا سیکھا ہی نہیں۔ جلسوں میں شریک ہوکر اُن کی باتوں پر سَر دُھننے والے گواہ ہیں۔
آج کل شیخ صاحب بھرپور موڈ میں ہیں۔ اُن کے زور بیان کا ستارا خاصی بلندی پر ہے۔ مٹی میں ہاتھ ڈالتے ہیں تو وہ سونا بن جاتی ہے یعنی معمولی بات بھی کہتے ہیں تو بڑھک معلوم ہوتی ہے! عمران خان کے جلسوں میں شیخ رشید کا جوش و خروش قابل دید بھی ہے اور قابل داد بھی۔ اُنہوں نے اپنی جاندار اور شاندار تقریروں سے اہل وطن کی بہت سی مشکلات دور کردی ہیں۔ آج کل کی بے ڈھنگی اور بور پنجابی فلمیں دیکھ دیکھ کر بیزاری کی چادر اوڑھے ہوئے لوگ چاہیں تو اُن کی تقریروں سے سلطان راہی اور مظہر شاہ والی بڑھک بھی کشید کرسکتے ہیں اور موڈ خراب ہو تو مزاح کی مطلوبہ خوراک بھی نچوڑی جاسکتی ہے۔ شیخ صاحب کی تقریریں بچت بازار کی سی ہوتی ہیں جن میں ہر شخص کے مزاج کی چیزیں پائی جاتی ہیں! اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ شیخ صاحب کی شعلہ بیانی کے بازار سے لوگ کچھ نہ کچھ بلا ضرورت بھی خرید لیتے ہیں!
تین چار دن سے شیخ صاحب کے فن خطابت کا ستارا ہی نہیں، پارہ بھی خاصی بلندی پر ہے۔ وزیر وہ ریلوے کے رہے ہیں مگر تقریروں میں طیاروں والی اسپیڈ پائی جاتی ہے! اُن کی بہت سی باتیں سُننے والوں کے سَر سے گزر رہی ہیں۔ شیخ صاحب کے صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹتا جارہا ہے اور اِس کے نتیجے میں وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ جلسوں کے شرکاء یا گھر بیٹھے اُن کی باتوں سے محظوظ ہونے والوں کے ساتھ ساتھ خود حکومت کے لیے بھی آزمائش سے کم نہیں! ساہیوال میں تحریک انصاف کے جلسے میں شیخ صاحب بپھر گئے۔ اِس میں بھی قصور حکومت کا ہے جو اُن کی باتوں پر ٹس سے مس نہیں ہو رہی۔ اور عوام بھی کم ذمہ دار نہیں جو اُن کی طرف سے بار بار ''دعوتِ عمل‘‘ ملنے پر بھی جمہوریت کی عزت پر ہاتھ ڈالنے سے گریزاں ہیں! حکومت اور عوام کی بے حِسی کے باعث پیدا ہونے والے شدید غصے کی حالت میں شیخ صاحب نے فرمایا کہ ''اگر عمران خان کو گرفتار کیا گیا تو پورے ملک میں آگ لگادوں گا!‘‘ (اِتنا کہنے کا یارا تو خود عمران خان میں بھی نہ تھا!) اور یہ کہ ''میں خود کش سیاست دان ہوں، تابوت کاندھوں پر لیے پھرتا ہوں، ہتھکڑی زیور ہے اور جیل سُسرال!‘‘
ہم میں اتنا حوصلہ نہیں کہ شیخ صاحب کی تقریریں براہِ راست سُنیں اور اُن کی تاب بھی لاسکیں اِس لیے اخبارات میں شائع ہونے والے اُن کے فرمودات پر گزارا ہے۔ سُورج کو فلٹر کی مدد ہی سے دیکھا جاسکتا ہے! اور سچ تو یہ ہے کہ اخبارات میں شیخ صاحب کی تقریروں کی رپورٹ پڑھ کر بھی ہمارے حواس مختل ہونے لگتے ہیں۔ ساہیوال میں کے جلسے میں شیخ صاحب نے اپنے آپ کو پاکستانی سیاست کا انسائیکلو پیڈیا بھی قرار دیا۔ ہم ذرا نیند میں تھے اِس لیے انسائیکلو پیڈیا کو کچھ اور ہی پڑھ گئے۔ اور پھر دیر تک غلط سمجھنے کا ماتم کرتے رہے۔ اِسی تقریر میں شیخ صاحب نے ایک نیا فارمولا بھی عنایت کیا۔ یہ کہ ''اگر گھی سیدھی اُنگلی سے نہ نکلے تو اُنگلی ٹیڑھی کیجیے۔ اور ایسا کرنے سے بھی کام نہ بنے تو کنستر ہی کاٹ ڈالیے!‘‘ یعنی گھی اگر میرا نہیں بنتا نہ بنے، تیرا بھی نہیں بننے دوں گا!
ہم نے شیخ صاحب کی شعلہ بیانی کا تذکرہ جب مرزا تنقید بیگ سے کیا تو ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گئے۔ ہم نے سبب پوچھا تو مزید سرد آہ کھینچ کر بولے۔ ''کسی زمانے میں ہم بھی ایسے ہی شعلہ ہوا کرتے تھے۔ مگر پھر وقت کی آندھی (یعنی بھابی صاحبہ) نے شعلہ بیانی کا چراغ بجھادیا۔ اب تو ہم ہیں اور ٹھنڈا ٹھار لہجہ ہے۔‘‘
مرزا کا استدلال ہے کہ شیخ صاحب کی ساری شوخی اور گرم گفتاری اِس لیے ہے کہ موصوف اب تک گرہستی کے وبال سے دوچار نہیں ہوئے۔ مزید فرمایا۔ ''ایک بار شادی ہوجائے، گھر بس جائے تو پھر دیکھیں گے کہ شیخ صاحب کون سے جلسے میں جاتے ہیں اور کون سی حکومت کو للکارتے ہیں۔ جب گھر کی ذمہ داری سَر پر پڑے گی تو لگ پتا جائے گا۔ فی الحال تو زندگی مزے میں گزر رہی ہے۔ کوئی روکنے والی ہے نہ ٹوکنے والی۔ یہ تو گھر والیوں ہی کا دم ہے کہ لاکھوں بلکہ کروڑوں کو اپنی اوقات میں رکھا ہے یعنی 'خود کش‘ سیاست دان بننے سے روک لیا ہے!
مرزا کی بات میں دم ہے۔ جو لوگ خود کو سیاست کی دنیا میں سٹیک ہولڈرز سمجھتے ہیں در حقیقت ان کا تو کچھ بھی داؤ پر نہیں لگا ہوا۔ جب لُٹانے کے لیے کچھ ہے ہی نہیں تو پھر کوئی بھی خطرہ مول لینے میں کیسا خطرہ! شیخ صاحب نے خود کش سیاست دان ہونے کے دعوے کے ساتھ اپنے کاندھوں پر جس تابوت کا ذکر کیا ہے، گھر والیاں اُسی تابوت میں اپنے اپنے گھر والوں کو بند کرکے اُنہیں یومیہ بنیاد پر سانس روکنے کی مشق کراتی ہیں!
عمران خان ہوں یا شیخ رشید دونوں ہی کسی بھاگ بھری کو قوم کی بھابی بنانے کے مقام سے بہت دور کھڑے اوروں کے دُکھ بھرے ازدواجی سفر کا نظارا کر رہے ہیں۔ ایسی حالت میں اُنہیں کیا معلوم کہ حکومت چلانے سے کہیں بڑا دردِ سَر گھر چلانا ہے۔ یہ تو وہ ذمہ داری ہے جسے نبھاتے نبھاتے اِنسان کا دِماغ چل جاتا ہے۔ اور جب گھر داری میں دِماغ چل جائے تو جلسوں میں شعلہ بیانی، خیال و خواب کا معاملہ ہوکر رہ جاتی ہے۔ مجمع کو دیکھ کر آواز بیٹھنے لگتی ہے! جب تک گھر خالی ہے، ''خود کش‘‘ سیاست دان ہونے کا دعویٰ ہے۔ اگر گھر داری کا ٹوکرا سَر پر آن پڑا تو عمران خان نیا پاکستان اور شیخ صاحب ''خود کش‘‘ سیاست کو بھول بھال جائیں گے۔ صبح اُٹھ کر بیوی سے ٹاکرا ہوگا تو معلوم ہوسکے گا کہ دن کیسے گزرتا ہے۔ روز یہی کہتے ہوئے اللہ کا شکر ادا کیا کریں گے کہ ؎
آج کا دن بھی خیر سے گزرا
سَر سے پا تک بدن سلامت ہے!