امریکہ سے ایک خالص گوری قوّال پارٹی ایک بار پھر ایک ماہ کے دورے پر آئی ہوئی ہے۔ پارٹی کا نام بھی ایسا ہے کہ اُس پر فِدا و فنا ہوجانے کو جی چاہتا ہے۔ جی ہاں، ''فنا فی اللہ‘‘ نام کی امریکی قوّال پارٹی نے دُھوم مچائی ہوئی ہے۔ کئی مقامات پر ایسی شاندار پرفارمنس دی ہے کہ لوگ حیران ہیں ،گوروں کو آخر ہوا کیا ہے!
گوروں کو کیا ہونا ہے؟ اُن کے ہاتھوں جو ہونا ہے وہ ہم جیسوں کا ہونا ہے۔ اُنہیں تو اپنے مفادات کے راگ الاپنے ہیں اور جب یہ راگ راگنیاں مظلوموں اور مجبوروں کی طبع نازک پر کچھ گراں گزرنے لگیں تو قوّال پارٹیاں بھیج کر تھوڑا بہت ''منورنجن‘‘ بھی کردینا ہے!
واحد سپر پاور کوئی بھی کام بے سوچے سمجھے نہیں کرتی۔ امریکی قوّال پارٹی کا نام بھی بہت دانش مندی سے رکھا گیا ہے۔ اُدھر سے فنا فی اللہ ہونے کا دعویٰ کیا جارہا ہے اور اِدھر یارانِ وطن فنا فی الامریکہ ہونے کو بے تاب و تیار رہتے ہیں۔ گویا ع
دونوں طرف ہی جاں پہ ہے اب تو بنی ہوئی!
امریکہ کے معاملے میں ہم نے خود کو پتا نہیں کیا کیا ثابت کیا ہے۔ امریکی بھی یہ دیکھ اور سوچ کر حیران تو ہوتے ہی ہوں گے کہ جس ملک کی ہم نے ایک زمانے سے ہر معاملے میں ''واٹ‘‘ لگا رکھی ہے اُسی کے لوگ ہماری سرزمین کو چُومنے چاٹنے کے لیے کیسے بے تاب رہتے ہیں!
امریکیوں کی چالاکی، دانش مندی یا سفارتی ہُنر مندی یہ ہے کہ آگ لگانے کے بعد پانی بھی دیتے جاتے ہیں، زخم لگانے کے بعد تھوڑا بہت مرہم دے کر پُچکارتے بھی جاتے ہیں تاکہ اگلی خوراک تک ہدف کے ذہن سے سارا کچرا نکل جائے۔ ع
ہاں، زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں!
مرزا تنقید بیگ کو محافلِ سماع اٹینڈ کرنے کا بہت شوق ہے۔ گو کہ اُنہیں اِس کے لیے کہیں باہر جانے کی ضرورت نہیں کیونکہ گھر میں بھی بیگم سے ہر وقت قوّالی ہوتی رہتی ہے! جب ہم نے امریکی قوّال پارٹی ''فنا فی اللہ‘‘ کا ذکر کیا تو کہنے لگے: ''ایسا لگتا ہے یہ امریکی ہمیں فنا فی اللہ کرکے دم لیں گے۔ اُنہوں نے پہلے ہی اِتنی راگنیاں الاپ رکھی ہیں کہ ہم اُنہیں سُن اور جھیل کر اَدھ موئے ہوئے جاتے ہیں۔ اب الگ سے باضابطہ قوّال پارٹی بھیجنے کی کیا ضرورت آن پڑی ہے؟ امریکہ کے ہاتھوں ہم پر تو پہلے ہی 'حال‘ آیا ہوا ہے!‘‘
''فنا فی اللہ‘‘ گروپ کے سربراہ طاہر فریدی (جیفری سیموئل ڈینس لیون) ہیں۔ اس گروپ میں آمنہ چشتی (جیسیکا لین رپر)، جہانگیر بابا (چارلس ڈیوڈ اسپنر)، لالی قلندر (دیو آنند ریوبن)، علی شان (آندرے ونسنٹ پریس) اور سلیم چشتی (پاسکل ہڈسن) بھی شامل ہیں۔ طاہر فریدی کا کہنا ہے کہ ہمارے گروپ میں ہندو مسلم عیسائی سبھی شامل ہیں۔ یہ گروپ اب تک پاکستان کے پندرہ دورے کرچکا ہے۔ قوّالی کی تربیت اُنہوں نے راحت فتح علی خان سے حاصل کی ہے۔
امریکہ کی کامیابی یہ ہے کہ وہ ایک زمانے سے اپنے مفادات کو ہر معاملے پر مقدم رکھ کر کمزور اقوام کو کمزور تر اور اُن کی معیشت و معاشرت کو تاراج کر رہا ہے اور اِس بھرپور کامیابی پر تالیاں بھی اُنہی سے بجوا رہا ہے! ایسی ہوتی ہے سپر پاورز کی قوّالی۔ تباہی کی سرگم پر تالیاں بھی وہی پیٹتے ہیں جو اُس سرگم کا نشانہ بنتے ہیں۔ بات سیدھی سی ہے۔ جب کوئی بھی جنگ براہِ راست اور بیک وقت دو محاذوں پر لڑی جاتی ہے تو کامیابی کا مزا دو آتشہ ہو جاتا ہے۔ امریکہ نے نرم اور سخت دونوں ہی طرح کی قوت سے بھرپور کام لیا ہے۔ ایک طرف جنگی مشین ہے اور دوسری طرف پروپیگنڈا مشینری۔ امریکی مقاصد سِکّوں کی طرح ہوتے ہیں جن کے دو رُخ ہوتے ہیں۔ ایک طرف تو ذہنوں کو مُسخّر اور دوسری طرف جسموں کو تباہ کرنا ہے۔ اور صاحب! جب ذہن مُسخّر ہوگئے تو جسم کو تباہ کرنے کی کچھ خاص ضرورت کب باقی رہتی ہے؟ اب یہ ذہنوں کی تسخیر نہیں تو پھر کیا ہے کہ ایک زمانے سے سب جانتے ہیں کہ ہماری مجموعی تباہی میں سب سے بڑا ہاتھ امریکہ کا ہے اور پھر بھی ہم میں سے بیشتر امریکی سرزمین پر قدم رکھنے کے لیے بے تاب رہتے ہیں!
امریکی پالیسی میکرز نے ہر دور میں زخم کے ساتھ ساتھ تھوڑا مرہم دینے کا بھی اہتمام کیا ہے۔ جب کہیں امریکی جارحیت بڑھ جاتی ہے تو تھوڑی بہت پُچکار بھی سامنے آتی ہے۔ مظلوموں سے ہمدردی کا اظہار بھی کیا جاتا ہے اور اُن کی مدد بھی کی جاتی ہے۔ مدد اِتنی کہ وہ دوبارہ ظلم سہنے کے قابل ہوسکیں! جن سے طویل عرصے تک تفریح لینی ہو اُنہیں آسانی سے کیسے نظر انداز کردیا جائے؟
کمزور اقوام کی نئی نسل کو مرعوب کرنا کچھ زیادہ مشکل نہیں ہوتا۔ پروپیگنڈا مشینری ذرا جاندار ہونی چاہیے۔ اور جب سبھی کچھ خالص علمی اور فَنّی سطح پر طے کیا جائے تو خاطر خواہ نتائج کیوں برآمد نہ ہوں؟ امریکہ ہر معاملے میں علم اور فن کی بلند ترین سطح پر ہے۔ پھر بھلا کمزور اقوام کی نئی نسل کے ذہن مُسخّر کرنے کے معاملے میں وہ کیونکر پیچھے رہ سکتا ہے؟ پاکستان کی مثال بہت واضح ہے۔ امریکہ کو تمام خرابیوں کی جڑ سمجھنے والے بھی اس کی آغوش میں سمانے کو بے قرار رہتے ہیں!
جو امریکہ ہماری ہر پالیسی کی مِٹّی پلید کرتا ہے، معیشت کا تیاپانچا کرتا ہے، علاقائی سطح پر ہمارے بین الریاستی تعلقات پر اثر انداز ہوتا ہے، ہمیں پڑوسیوں سے اشتراکِ عمل کے معاملے میں ایک خاص حد سے بڑھنے نہیں دیتا اور جو کسی بھی دوسرے طاقتور ملک کی طرف ہمارے بڑھتے قدم روکنے میں ذرا تاخیر سے کام نہیں لیتا وہی امریکہ ہماری پیٹھ تھپتھپاکر کبھی شاباش دیتا ہے اور کبھی گِرنے سے بچانے کے نام پر امداد سے نوازتا ہے۔ جب امریکیوں کو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستانی جاں بہ لب ہیں اور امریکی پالیسیوں سے انتہائی مُتنفّر ہونے کے قریب ہیں تو امریکی امداد کے چراغوں کی مدد سے پاکستان کی تاریکیاں کچھ ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ باصلاحیت پاکستانی نوجوانوں کے لیے امریکی دوروں کا اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ وہ امریکہ کی پُرنور فضاؤں میں کچھ وقت گزار کر اپنے اندر کی تاریکیوں کو کسی حد تک دور کرسکیں اور جب وطن واپس آئیں تو اُن کے ذہن میں ایک ایسا امریکہ ہو جو روشن خیال بھی ہے، روادار بھی ہے، ترقی یافتہ بھی ہے اور دوسروں کو ترقی یافتہ دیکھنے کا خواہش مند بھی۔
ویسے سچّی بات تو یہ ہے کہ ہمیں فنا فی اللہ گروپ کو اپنے ہاں پرفارم کرتا دیکھ کر حیرت ہوئی۔ امریکہ کو اب اِتنا اہتمام کرنے کی ضرورت کیا ہے؟ ہم پاکستانی تو ویسے ہی اُس کے ذہنی غلام ہیں۔ ہماری ذہنی ساخت میں امریکہ پرستی اِس قدر راسخ ہوچکی ہے کہ اب امریکیوں کو یہاں آکر تالیاں پیٹنے، ہارمونیم پر انگلیاں پھیرنے، ڈھول سے ردھم پیدا کرنے اور حلق پھاڑنے کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ امریکی پالیسیوں کے ہاتھوں ہمارا یہ حال ہوا ہے کہ ہماری دل بستگی کے لیے امریکہ کی طرف سے کیا جانے والا ہر اہتمام اب واضح تاخیر کی نذر ہوچکا ہے۔ ؎
بیمارِ غم کو موت کی آتی ہیں ہچکیاں
چھوڑو یہ اہتمام، بڑی دیر ہو گئی!
جن اقوام کو زمانے میں پنپنا ہوتا ہے وہ صرف آگے اور اُوپر دیکھتی ہیں۔ اُنہیں بظاہر اِس بات سے کچھ غرض نہیں ہوتی کہ کون اُن کے پیروں تلے کچلا جارہا ہے اور کون پیچھے رہ گیا ہے۔ ہاں، جنہیں جی بھر کے لُوٹا گیا ہو اُن کے اشتعال سے بچنے کے لیے تھوڑا بہت خیرات کی شکل میں دینے کا اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ مظلوموں اور محکوموں کے دل و نظر کو دھوکا دیا جاسکے۔ امریکہ بھی اِس معاملے میں چُوکتا نہیں۔ ہمیں 1950 ء کے عشرے کی بالی وڈ مووی ''بھائی بھائی‘‘ کے لیے آں جہانی گیتا دت کے گائے ہوئے گیت کے بول یاد آ رہے ہیں ؎
بابو جی! دھیرے چلنا
پیار میں ذرا سنبھلنا
بڑے دھوکے ہیں اِس راہ میں
امریکہ پرستی کی راہ پر چلنے والوں کو بھی محتاط رہنا چاہیے۔ قوّالیوں اور امدادی پروگراموں کے فریب میں نہ آجانا۔ اِس راہ میں بھی بڑے دھوکے ہیں!