"MIK" (space) message & send to 7575

سُپر چُوہے

حیوانات کے حقوق پر آواز اُٹھانے والوں کی کمی نہیں‘ مگر ہاں، چند جانوروں کو مسلسل نشانہ بنائے جانے پر بھی کوئی آواز نہیں اُٹھاتا۔ حقوقِ حیوانی کے علم برداروں کی سرگرمیاں عموماً کُتّوں، بِلّیوں، گھوڑوں، گدھوں، اُونٹوں وغیرہ تک محدود رہتی ہیں یا پھر اُنہیں سرکس میں درندوں کو مارے جانے والے کوڑے اپنے جسم پر پڑتے محسوس ہوتے ہیں۔ ایک زمانے سے چُوہوں کو تختۂ مشق بنایا جا رہا ہے مگر اُن کے لیے کوئی آواز نہیں اُٹھاتا۔ چُوہوں کو اِس طور نظر انداز کیا جا رہا ہے جیسے پہاڑ کھودنے والے محاورے سے بھی وہ غائب ہو گئے ہوں۔ 
تجربے کرنے میں امریکیوں کا کوئی جواب نہیں۔ اور اُن کے تجربے سہنے اور جھیلنے میں ہمارا کوئی ثانی نہیں۔ ہم چُوہے نہیں مگر پھر بھی ہم پر امریکیوں نے اِتنے تجربے کئے ہیں کہ اب تو اپنے اِنسان ہونے پر بھی شبہ ہونے لگا ہے! اور سچ تو یہ ہے امریکیوں کی پے در پے مہربانیوں کی ''بدولت‘‘ ہی اب ہمارے حکمران طبقے کی سوچ میں چُوہا پن در آیا ہے یعنی ایک دھمکی یا بھپکی سے کانپنے لگتے ہیں۔ 
نیو یارک سے خبر آئی ہے کہ وہاں کی یونیورسٹی آف روچسٹر کے میڈیکل سینٹر میں محققین نے چُوہوں پر قیامت ڈھا دی ہے۔ ویسے قیامت ڈھانے کا کام بنیادی طور پر امریکی محکمہ دفاع کا ہے اور اُن کی طرف سے ڈھائی جانے والی ہر قیامت کمزور اقوام کے لیے ہوتی ہے۔ امریکی بہت سے معاملات میں انتہائی پُرجوش ہیں مگر بھرپور جوش میں بھی اُنہیں اِتنا ضرور یاد رہتا ہے کہ کسی طاقتور سے نہیں ٹکرانا ورنہ لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ قیامت ڈھانے میں بھی امریکیوں کا جواب نہیں۔ اُنہوں نے تیسری دنیا کے کمزور ممالک کے خلاف طاقت کے اِتنے مظاہرے کئے ہیں کہ سوچیے تو دل دہل جاتا ہے۔ 
بات ہو رہی تھی چُوہوں پر ڈھائی جانے والی قیامت کی۔ امریکی سائنس دان اور طِبّی ماہرین چُوہوں پر تجربے کرتے آئے ہیں۔ اعتراض کرنے والوں کی تعداد برائے نام رہی ہے‘ مگر اب تو حد ہو گئی ہے۔ بدبودار ہی سہی مگر چُوہے بھی بہرحال ہیں تو جانور۔ اُن سے روا رکھی جانے والی زیادتی کی بھی کوئی تو حد ہونی چاہیے۔ معاملہ یہ ہے کہ اِنسانی دماغ کے خلیے چُوہوں کے دماغ میں ڈالے گئے ہیں۔ اِس پیوند کاری کی غایت سُنیں گے تو آپ حیران رہ جائیں گے۔ مقصود یہ ہے کہ سُپر چُوہے تیار کئے جائیں۔ 
امریکیوں نے اب تک جتنے بھی تجربے کئے ہیں اُن کا خمیازہ بے چارے چُوہوں ہی کو بھگتنا پڑا ہے۔ امریکی تجربات کی بَھٹّی میں جھونکے جانے والے چُوہے دو ٹانگوں والے ہوں یا چار ٹانگوں والے، اُنہیں اپنی اصلیت سے محروم ہونا پڑا ہے۔ پاکستان جیسے ممالک اِس معاملے میں سب سے قابلِ اعتبار گواہ ہیں۔ اب عام سے چُوہوں کو اُن کی اصلیت سے محروم کر کے سُپر چُوہے بنانے کی ٹھان لی گئی ہے۔ 
امریکہ سُپر پاور ہے اِس لیے ہر معاملے کو سُپر لیول پر دیکھنا چاہتا ہے کہ امریکیوں کی نظر میں اعلیٰ انسان وہی ہے جو محض man نہ ہو بلکہ super-man ہو۔ یہی سبب ہے کہ امریکیوں نے خود کو super-men کے منصب پر فائز رکھنے کے لیے دُنیا بھر کے لوگوں کو sweeper-men کے مقام تک پہنچانے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی۔ 
یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ تجربے کے دوران چُوہوں کے دماغ میں کون سے انسانوں کے خلیے ڈالے گئے ہیں۔ غالب امکان اِس بات کا ہے کہ امریکیوں کے دماغ کے خلیے ہی ڈالے گئے ہوں گے۔ سُپر چُوہے تیار کرنے کے لیے خلیے تیسری دُنیا کے انسانوں کے دماغ سے تو لیے نہیں گئے ہوں گے کیونکہ اُنہیں تو امریکہ والے انسان ہی نہیںسمجھتے۔ 
کسی بھی حیوان پر اِس سے بڑا ظلم کیا ہو سکتا ہے کہ اُس کے دماغ میں امریکیوں کے دماغ کے خلیے ڈالے جائیں۔ ایسی حالت میں وہ چُوہے اب درحقیقت کُتّے بن جائیں گے اور وہ بھی دھوبی کے یعنی گھر کے رہے نہ گھاٹ کے۔ 
ویسے سُپر چُوہے تیار کرنے کی امریکیوں کو کیا ضرورت پیش آ گئی؟ سُپر چُوہے تو اُنہوں نے ہر دور میں متعارف کرائے ہیں۔ امریکہ کے بہت سے سُپر چُوہوں نے چیتے کا سا انداز اختیار کرکے تیسری دُنیا کے غریبوں پر عشروں تک حکومت کی ہے۔ تیسری دُنیا میں امریکی حمایت و تربیت یافتہ سُپر چُوہوں کی کبھی کمی نہیں رہی۔ سچ تو یہ ہے کہ 'غریب کی جورو سب کی بھابی‘ کے مِصداق امریکہ نے ہر دور میں تیسری دُنیا کو اپنی تجربہ گاہ سمجھا ہے۔ امریکی خارجہ پالیسی کی ہر اہم تبدیلی کا پہلا نشانہ تیسری دُنیا کے غریبوں کو بننا پڑتا ہے۔ یہ عمل اِس تواتر سے جاری رہا ہے کہ اب تیسری دُنیا کے انسان کوئی باضابطہ دُم نہ ہوتے ہوئے بھی خود کو چُوہوں کے مقام پر رکھ کر سوچنے لگے ہیں۔
پاکستان کا معاملہ اور مُقدّر بھی کچھ مختلف نہیں رہا۔ امریکہ نے ہمیں بھی چُوہے سمجھ کر مختلف تجربوں کی بَھٹّی سے گزارنے میں کبھی تامّل سے کام نہیں لیا۔ اور اِس سے بڑی اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہم میں سے بہت سے ہیں جو اپنی سرزمین پر شیر کی زندگی ترک کرکے امریکہ میں چُوہوں کی سی زندگی گزارنے کو ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ 
امریکہ کی پرستش کے رُجحان نے بڑے بڑے شیروں کو (شادی سے پہلے بھی) چُوہوں کی سی زندگی بسر کرنے کا راستہ دکھایا ہے۔ بہت سی اُبھرتی ہوئی معیشتوں کے باصلاحیت افراد عزتِ نفس اور توقیر سبھی کچھ بُھلا کر امریکہ میں بسنے کیلئے خاصی نِچلی سطح کی زندگی کو بھی گلے لگا لیتے ہیں۔ جب اچھے خاصے انسان چُوہوں کی سی زندگی بسر کرنے کو تیار ہیں تو چُوہوں کے دماغ میں انسانی دماغ کے خلیوں کی پیوند کاری کا دردِ سَر کیوں پالا جا رہا ہے؟ امریکی ماہرین چاہیں تو مُرعوب ممالک کے باشندوں کے دماغ کا تجزیہ کر کے بھی بہت کچھ معلوم کر سکتے ہیں! اور بیشتر کیسز میں وہ ایسا کر ہی تو لیتے ہیں۔ اب وہ میڈیا کے ذریعے تمام معاملات کو manipulate کر کے اپنی مرضی کا ہر نتیجہ حاصل کر لیتے ہیں۔ 
امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ سُپر چُوہے تیار کرنے کا بنیادی مقصد اُن کے دماغ کے تجزیے سے انسانی بیماریوں کا سُراغ لگانا اور اُن کا تجزیہ کرنا ہے۔ لیجیے، اب امریکی اپنی بیماریوں کے لیے بھی چُوہوں کو موردِ الزام ٹھہرایا کریں گے! یہ کہاں کی شرافت ہے کہ انسانوں کی بیماریوں کی منزل تک پہنچنے کے لیے بھی چُوہوں کو راہ گزر بنایا جائے؟ ایک تو بے چارے چُوہوں کا ننھا مُنّا سا وجود اور پھر اُن پر اِس قدر تجربے۔ یہ تو مَرے کو مارے شاہ مدار والا معاملہ ہوا۔ امریکہ اور یورپ کے ماہرین نے تو جیسے چُوہوں کو ہر تجربے کے لیے تختہ مشق بنا لیا ہے۔ ہم ایک زمانے سے امریکہ کے تیارکردہ شاہ دولہ کے چُوہوں کو جھیل رہے ہیں۔ اور سچ یہ ہے کہ شاہ دولہ کے چُوہوں کا دماغ بھی کچھ نہ کچھ کام کرتا ہو گا، جو امریکہ کے خوانِ نعمت سے مستفید ہوتے ہیں‘ وہ اپنے دماغ نکال کر کسی محفوظ جگہ رکھ دیتے ہیں‘ مبادا اُن کا غیر ضروری یا بے سوچا سمجھا استعمال مشکلات پیدا کر دے، مزے ختم کرا دے! 
سُپر چُوہوں سے متعلق خبر نے ہمارے ہاں کچھ خاص ہلچل نہیں مچائی۔ مچاتی بھی کیسے؟ یہاں تو لوگ اپنے یعنی انسانی حقوق کے لیے آواز اُٹھانے کی زحمت گوارا نہیں کرتے، چُوہوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی بات کون کرے گا، اور کیوں؟ چالیس پچاس سال کے بعد جب ہم اِنسانی حقوق کے حوالے سے باشعور ہو چکے ہوں گے تو حیوانات کے حقوق کی طرف بھی آئیں گے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں