بہت سے لوگ خوش فہمی میں مبتلا ہونے کے باعث کہتے ہیں کہ اللہ ہم سے بہت خوش ہے اس لیے ہم پر کوئی عذاب نہیں آتا۔ وہ اس معاملے میں سمندری طوفانوں کی مثال دیتے نہیں تھکتے جو اکثر ہمارے ساحلوں کی طرف آتے آتے یا تو رُخ بدل لیتے ہیں یا پھر ساحل سے بہت پہلے ہی دم توڑ دیتے ہیں۔ اب اُنہیں کون سمجھائے کہ ایک طرف تو ہم کسی بڑے عذاب کو سہنے کے قابل نہیں رہے اور دوسری طرف یہ بھی انتہائی سچ ہے کہ پینے کے صاف پانی کا حصول بھی ہماری انفرادی ترجیحات میں سب سے اوپر آگیا ہے۔ جب معاملہ یہ ہو تو اللہ کوئی بڑا عذاب کیوں نازل کرے؟ بہت سے چھوٹے چھوٹے عذاب کافی ہیں۔ عذاب کے ذکر پر اُستادِ محترم رئیسؔ امروہوی یاد آگئے جنہوں نے کہا تھا ؎
کہنے لگے کہ ہم کو تباہی کا غم نہیں
میں نے کہا کہ وجہِ تباہی یہی تو ہے!
ہم لوگ ہیں عذابِ الٰہی سے بے خبر
سب سے بڑا عذابِ الٰہی یہی تو ہے!
اہل کراچی کم و بیش ایک سال سے دوسری بہت سی چیزوں کے ساتھ ساتھ پانی کی شدید قلت بھی جھیل رہے ہیں۔ اِن میں ہم بھی شامل ہیں۔ خواہش اور کوشش کے باوجود ہم اِس صورت حال سے ''استثنیٰ‘‘ حاصل نہ کرسکے۔ ہمیں بھی اُتنا ہی پانی مل پاتا ہے جتنا اوروں کو ملتا ہے یعنی بہ قدرِ اشکِ بلبل!
جس اپارٹمنٹ بلڈنگ میں ہم رہتے ہیں اُس میں تین دن کے وقفے سے پانی دیا جاتا رہا ہے۔ نصیر بھائی اِس عمارت میں پانی دینے پر مامور ہیں۔ ہم نے 14 برس کے دوران اُنہیں جب بھی دیکھا ہے، خوش دِلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سلام میں پہل کی ہے مگر مجال ہے جو بھائی نصیر کو کبھی ہمارے ساتھ ترجیحی سُلوک کرنے کا خیال بھی آیا ہو۔ کبھی ذرا سا بھی اضافی پانی خصوصی استحقاق سمجھ کر اُنہوں نے عمارت کی چھت پر رکھی ہماری ٹنکی میں نہیں ڈالا! کبھی کبھی ہم نے اُن کی آنکھوں کو گُھور کر بھی دیکھا ہے، یہ تسلی کرنے کے لیے لوگوں کو پانی دیتے دیتے کہیں اُن کی آنکھوں کا پانی تو نہیں مرگیا! ایسا نہیں ہے کہ نصیر بھائی لوگوں کی نظریں پڑھنے کا ہُنر نہ جانتے ہوں مگر آدمی ذی فہم ہیں، خاموش رہنے کو ترجیح دیتے ہیں!
سات آٹھ ماہ سے کیفیت یہ ہے کہ اپارٹمنٹ بلڈنگ کی یونین کی طرف سے ہمیں دس گیارہ دن میں پانی دیا جارہا ہے۔ خیر، انتظام ایسا ہے کہ ہم گیارہ بارہ دن بھی چلا لیتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا بعض لوگ شادی کی تقریب میں یُوں کھا رہے ہوتے ہیں جیسے اضافی پیٹ ساتھ لائے ہیں۔ بس کچھ ایسی ہی کیفیت پانی کے معاملے میں ہماری ہے۔ اچھی خاصی رقم خرچ کرکے ہم نے بالکونی میں اضافی ٹنکی لگوالی ہے تاکہ مشکل لمحات میں یہ اضافی پانی ہماری اشک شُوئی کرتا رہے۔ مگر صاحب کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ع
میں ہوا کافر تو وہ کافر مسلماں ہو گیا
بس کچھ ایسا ہی معاملہ ہمارے ساتھ بھی ٹھہرا۔ چند روز قبل بلڈنگ کے لیے پانی کی نئی لائن ڈلوالی گئی تاکہ تمام مکینوں کو پانی نسبتاً چھوٹے وقفے سے اور زیادہ مقدار میں ملے۔ پھر یہ ہوا کہ نئی لائن کو ایکٹیو کرانے کے بعد یونین نے دو دن یعنی مسلسل 48 گھنٹوں کے لیے پانی کھول دیا۔ یعنی 7 یا 8 ماہ میں جتنا پانی دیا تھا تقریباً اُتنا ہی دو دن میں دے ڈالا!
اگر کوئی آپ کی شخصیت کا جائزہ لیتے ہوئے موہوم سی اُمید کے ساتھ دستِ سوال دراز کرے کہ اللہ کے نام پر روپیہ دو روپیہ دے دو اور آپ جیب سے سو کا لال، کرارا نوٹ نکال دیں تو اُس کا کیا حال ہوگا؟ اُس پر خوشی کے ساتھ ساتھ حیرت کا بھی پہاڑ ٹوٹ پڑے گا۔ بس کچھ ایسا ہی ہمارے ساتھ بھی ہوا۔ چوبیس گھنٹے پانی کو آتا دیکھ کر ہم پر حیرت کا پہاڑ بھی ٹوٹا اور ہم بہت دیر تک سکتے کی حالت میں بھی رہے۔ دل میں وسوسہ اُٹھا کہ کہیں بلڈنگ کی یونین نے بہت سے مکینوں کو شدید حیرت کی اوور ڈوز دے کر اِس دُنیا سے رُخصت کرنے کا منصوبہ تو نہیں بنایا!
پانی آتا رہا اور لوگ خوشی کے ساتھ ساتھ حیرت میں بھی ڈوب کر بار بار ہاتھ منہ دھوتے، نہاتے رہے۔ اِس بہانے بہت سے مکینوں کی دُعا سلام بھی ہوگئی کیونکہ ایک دن تو ایک دوسرے سے یہ پوچھنے ہی میں گزر گیا کہ آپ کے ہاں بھی پانی چوبیس گھنٹے آرہا ہے!
معاملہ دو دن کا تھا مگر لوگ موقع غنیمت جان کر اپنی عادات بگاڑنے پر تُل گئے۔ جب حیرت اور سکتے کی حالت کا زور ٹوٹا تو لوگوں نے گھریلو سطح پر ''واٹر فیسٹیول‘‘ منانا شروع کردیا۔ خواتین خانہ کی تو ''موجاں‘‘ ہی ہوگئیں۔ دن میں چار چار مرتبہ برتن دھوئے جانے لگے۔ جو لوگ ''ضبط‘‘ کے معاملے میں درجۂ کمال پر فائز ہیں اُنہوں نے دِل کا غبار اور پیٹ کا بوجھ کم کرنے کے لیے ہر پندرہ بیس منٹ کے بعد باتھ روم جانا شروع کردیا! بات بے بات، منہ ہاتھ دھوئے جانے لگے۔ ذرا سا باہر سے ہوکر آئے اور ہاتھ پیر دھونے بیٹھ گئے۔ کھانا کھانے کے بعد جو لوگ عام دنوں میں تسلے میں رکھے ہوئے پانی پر تیمّم کی طرح ہاتھ مارتے تھے اُنہوں نے کھانے کے بعد ہاتھوں پر لگی چِکنائی ہٹانے کے لیے بالٹی بھر پانی بہانا شروع کردیا۔
بچوں کو تو جیسے بیٹھے بٹھائے ڈِزنی لینڈ کی سیر کا موقع مل گیا۔ ٹب میں پانی لیا اور چھپاک چھپاک کرنے لگے۔ شہر میں بارش تو ہوتی نہیں۔ بچوں نے سوچا ایک دوسرے پر جی بھر کے پانی اُچھال کر ہی بارش کا مزا لے لیں!
جن اپارٹمنٹس میں دو دن میں ایک بار پونچھا لگانے کی ''روایت‘‘ تھی وہاں سے ایک دن میں پانچ مرتبہ پونچھا لگانے کی اطلاعات موصول ہونے لگیں!
دن سردی کے ہیں، ایسے میں نہاتے ہوئے بہت ''آلکسی‘‘ آتی ہے۔ مگر موقع ہاتھ آتے ہی لوگوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، دن میں تین بار نہاکر دِل و دِماغ کو تر کر ڈالا۔ کچھ لوگ تو یہ سوچ کر بھی خوب نہاتے رہے کہ مہینوں سے یہ جو پاؤ بالٹی پانی میں نہاتے رہے ہیں اللہ نے اُس ''ضبطِ غم‘‘ کا صِلا دیا ہے! بعض افراد کی شخصیت انتہائی بارونق دکھائی دی۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ مدتوں بعد دل کھول کر، رَج کر نہائے ہیں!
ہم یہ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہتا یعنی پانی کسی وقفے کے بغیر آتا رہتا تو لوگوں کی نفسیاتی حالت کہاں پہنچ کر سُکون کا سانس لیتی۔ وہ تو اچھا ہوا کہ کسی کو بروقت خیال آگیا اور اُس نے یونین کو '' مُخبری‘‘ کردی۔ لوگوں کی عادات کو مزید بگڑنے سے بچانے کے لیے یونین نے 48 گھنٹے بعد پانی بند کردیا تاکہ پانی کی فراہمی کا پرنالہ پھر وہیں بہنے لگے اور لوگ دوبارہ پُرانی ڈگر پر چلنے کے قابل ہوجائیں۔
ہمیں یونین والوں نے سرکاری یا باضابطہ طور پر بتایا تو نہیں مگر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مسلسل دو دن پانی دینا کسی سبب کے بغیر نہیں تھا۔ ہوسکتا ہے کہ شہر کی انتظامیہ یہ دیکھنا چاہتی ہو کہ کوئی بُنیادی سہولت کسی وقفے کے بغیر ملے تو لوگوں کی ذہنی حالت میں کیا کیا تبدیلیاں رُونما ہوسکتی ہیں! جنہیں دیکھنا اور جائزہ لینا تھا اُنہوں نے دیکھ لیا کہ مسلسل دو دن پانی ملنے پر لوگ آپے سے باہر ہوگئے۔ برسوں کی اپنائی ہوئی عادات دو دن میں ''نالی بُرد‘‘ ہونے لگیں۔ یہ تو لوگوں کی اجتماعی نفسیات پر قیامت ڈھانے والی بات ہوئی نا! یعنی طے یہی پایا ہوگا کہ اِس قوم کو سب کچھ حساب کتاب سے دیا جاتا رہے۔ سامنے دریا بہہ رہا ہو سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہو تب بھی پانی حساب سے دو ورنہ اِس قوم کی نفسیات کا بہت کچھ بہہ جائے گا، عادتیں ایسی بگڑیں گی کہ پھر تعویذ گنڈے سے بھی درست نہ ہو پائیں گی! ہماری اپارٹمنٹ بلڈنگ میں کوئی متفق ہو نہ ہو، ہم تو یہی سمجھے کہ مسلسل 48 گھنٹے پانی دینا ''واٹر ٹیسٹ کیس‘‘ تھا تاکہ لوگوں کی نفسیاتی ساخت پر اِس کے اثرات کا جائزہ لے کر دیگر سہولتوں کے حوالے سے بھی بہتر منصوبہ بندی کی جاسکے۔