"MIK" (space) message & send to 7575

دو ٹانگوں والے گدھے

محنت کرنے والوں کو احترام کی نظر سے دیکھنا اور اُنہیں محنت کا کماحقہ صِلہ دینا اب اِس دنیا کا رواج نہیں مگر کرناٹک (بھارت) کے ایک سیاست دان نے گدھوں کو مان سَمّان دے کر دُنیا کو حیران کردیا ہے۔ وٹھل ناگ راج نے ایک بس اسٹاپ پر گدھوں کو پھولوں کے ہاروں سے لاد دیا۔ اُن کا کہنا ہے کہ گدھے، گائے، بھینسیں، کُتّے وغیرہ محنت بھی کرتے ہیں اور وفادار بھی ثابت ہوتے ہیں مگر اُنہیں کوئی احترام کی نظر سے نہیں دیکھتا۔ لازم ہے کہ اُن کی محنت کا اعتراف کیا جائے اور اُنہیں جائز مقام دیا جائے۔ 
وٹھل ناگ راج مبارک باد کے قابل ہیں کہ اُنہیں جانوروں کے احترام کا خیال آگیا۔ حقیقت یہ ہے کہ جو احترام وہ جانوروں کو دینا چاہتے ہیں اُتنا احترام تو اب بھارت میں بہت سے انسانوں کو بھی میسر نہیں! نچلی ذات کے کروڑوں ہندو ایک زمانے سے پست درجے کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ حیوانی سطح پر زندگی بسر کر رہے ہیں کیونکہ حیوانی سطح اُن کی سطح سے بہر حال بلند ہے! ہمیں ڈر ہے کہ نچلی ذات کے ہندو گدھوں، گایوں اور بھینسوں کا ایسا ''سَتکار‘‘ دیکھ کر مزید احساسِ کمتری کا شکار نہ ہوجائیں۔ بہر حال، جہاں انسانی حقوق خاصے دب کر رہ گئے ہیں وہاں کم از کم حیوانی حقوق ہی کا غلغلہ بلند ہو رہے تو بُرا کیا ہے! ہوسکتا ہے یہ سب کچھ دیکھ کر بھارت کے حکمرانوں کو کچھ غیرت آجائے، اُن کے سینے میں بھی دِل دھڑکنا شروع کردے اور وہ کچلے ہوئے لوگوں (بالخصوص اقلیتوں) کو تھوڑا بہت ''سَمّانِت‘‘ کرنے کا سوچ لیں! 
توبہ توبہ۔ آپ بھی سوچیں گے کہ ہم یہ کیا انہونی سوچنے لگے۔ بہت سے پس ماندہ معاشروں کی طرح اب بھارت میں بھی انسان اور حیوان کے درمیان فرق بہت کم رہ گیا ہے۔ کروڑوں انسان حیوانی سطح پر زندگی بسر کر رہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اس معاملے میں بہت سوں نے حیوانات کو بھی بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ہوسکتا ہے بہت سے جانور یہ سوچ کر شرم سے ڈوب مرتے ہوں کہ کل کو کہیں کوئی طعنہ نہ مارے کہ وہ بھی اب انسانی سطح پر جی رہے ہیں! 
جہاں طبقاتی فرق نمایاں ہو وہاں بہت سے حیوانات خاصے بلند درجے کی زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں اور اُنہیں دیکھ کر انسان بھی شرمندہ ہوجاتے ہیں۔ یہی بات مشہور مصنف جارج آرویل نے اپنے معرکہ آرا ناول ''اینِمل فارم‘‘ میں یُوں بیان کی ہے: ''سب جانور برابر ہیں اور کچھ جانور زیادہ برابر ہیں!‘‘ 
ہوسکتا ہے کوئی صاحب انسان اور حیوان کا فرق بتانے کے لیے یہ مثال پیش کریں کہ حیوانات گھاس کھاتے ہیں۔ آپ ذرا اپنے ماحول پر ایک طائرانہ نظر تو ڈالیے۔ جو انسان بہت محنت کرتے ہیں وہ بھی عملاً گھاس ہی تو کھاتے ہیں۔ اور جناب! گھاس کو بھی حقیر مت سمجھیے۔ اِس کا سماجی درجہ بھی اب خاصا بلند ہے۔ بہت سے لوگ گھاس کھانے پر ہر وقت آمادہ رہتے ہیں تب ہی تو بات بے بات شِکوہ کرتے ہیں کہ ہمیں تو کوئی گھاس ہی نہیں ڈالتا! ایک صاحب ہم سے گفتگو کے دوران کئی بار یہی شِکوہ کرچکے تھے کہ کوئی اُنہیں گھاس نہیں ڈالتا۔ ایک دن ملاقات کے لیے آئے تو ہم نے پوچھا کہ کیا کھائیے گا۔ بولے: جو آپ چاہیں۔ ہم نے کہا:
لُوسن کی گَڈّی سے شوق فرمائیے گا؟ یہ سُن کر اُنہوں ہمیں ایسی آدم خور نظروں سے گُھورا کہ آنکھوں کے پانی کی طرح ہماری رگوں کا خُون بھی خُشک ہوگیا! چند لمحات کے بعد (ہمارے) حواس بحال ہوئے تو بولے: ''کیا گھاس چَر گئے ہیں آپ؟‘‘ 
ہمیں یہ ڈر ہے کہ اگر اگلی بار جب وٹھل ناگ راج حیوانات کی تکریم کے لیے کوئی تقریب کریں تو ایسا نہ ہو کہ خاصی نچلی سطح پر زندگی بسر کرنے والے انسان بھی قطار بند ہوکر کھڑے ہوں! یہ تو نا انصافی ہی ہوگی کہ حیوانات کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے جائیں اور انسانوں کے گلے میں محرومی، ناکامی اور ذِلّت ہی کا طوق پڑا رہے! مگر سوال یہ ہے کہ وٹھل ناگ راج جی کروڑوں ہار لائیں گے کہاں سے؟ 
انسان اور حیوان کے درمیان فرق مٹ جانے کا رونا بھارت تک محدود نہیں۔ رہن سہن اور معمولات کے اعتبار سے اب دنیا بھر میں اربوں افراد خالص حیوانی سطح پر زندگی بسر کر رہے ہیں۔ پاکستان ہی کی مثال لیجیے۔ ہمارے ہاں کروڑوں افراد نے وہ معمولات اپنا رکھے ہیں جو حیوانات کے ہیں۔ صبح اٹھنا، کھا پی کر فارغ ہونا، کام پر جانا، شام کو گھر واپس آنا، کھانا پینا، پھر حیوانات ہی طرح کسی ہوٹل کے باہر یا چبوترے پر بیٹھ کر باتوں کی جُگالی کرنا اور آخر میں لمبی تان کر سو جانا۔ اگلی صبح پھر یہی سب کچھ ؎ 
بھلا اب حرج کیا ہے سطحِ حیوانی پہ جینے میں 
نہ ہوں آسانیاں تو زندگی دشوار ہوجائے 
کچھ لوگ دَھڑلّے سے دعویٰ کرتے ہیں کہ انسان ذہین ہے۔ یہ دعویٰ بھی اب باطل قرار پاچکا ہے۔ حیوانی معمولات ایسی شدت سے اپنالیے گئے ہیں کہ ذہن معدوم ہوچلا ہے۔ جانور بظاہر بے ذہنی کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں۔ ہم نے اِس معاملے میں بھی اُنہیں مات دینے کی قسم کھا رکھی ہے۔ بہت سے لوگ ایسی لگی بندھی زندگی بسر کرتے ہیں کہ حیوانات بھی شاید اُنہیں دیکھ کر اپنے معمولات میں کچھ تبدیل کرنا پسند کریں۔ سوال یہ نہیں کہ حیوانات خود کو انسانوں سے الگ یا نمایاں کرنا چاہتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ آج کے انسانوں جیسا قرار دیا جانا حیوانات کے لیے ڈوب مرنے کا مقام بھی ہوسکتا ہے! 
بات ہو رہی تھی گدھوں کی۔ گدھوں نے محنت کا ایسا معیار قائم کیا ہے کہ اب انسانوں میں بھی جو بہت محنت کرتا ہے وہ گدھا کہلاتا ہے! اور غور کیجیے تو ہمارے ماحول میں بھی ایسے کچھ لوگ ہیں جنہیں گدھوں ہی سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔ مثلاً جو وقت کی پابندی کرے وہ گدھا۔ جو اپنا کام پوری دیانت سے انجام دے وہ گدھا۔ جو ''بے فضول‘‘ کی ہانکتا نہ پھرے وہ گدھا۔ جو دوسروں کے حقوق پر ڈاکا نہ ڈالے وہ گدھا۔ جو ہر حال میں صبر سے کام لے اور شُکر کا اظہار کرے وہ گدھا۔ جو ناجائز طریقوں سے کمانے پر یقین نہ رکھے وہ گدھا۔ جو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے دوسروں کو بُرا نہ چاہے وہ گدھا۔ جو ذرا سی کامیابی ملنے پر گھر والوں سے الگ ہوکر زندگی بسر نہ کرے وہ گدھا۔ 
خصوصیات کے تناظر میں غور کیجیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ چار ٹانگوں والے یعنی جَدّی پُشتی گدھے اب اقلیت میں ہیں! ہمارے بھی وٹھل ناگ راج کا سا جذبہ درکار ہے۔ جب چار ٹانگوں والے گدھوں کو نوازا جاسکتا ہے تو دو ٹانگوں والے گدھوں نے کون سا پاپ کیا ہے کہ اُن کی تکریم کا نہ سوچا جائے ع 
اِن کو بھی پوچھتے رہو تو کیا گناہ ہو
محاورہ مشہور ہے کہ ایسے غائب ہونا جیسے گدھے کے سَر سے سینگ۔ ٹھیک ہی تو ہے، جب گدھے دن رات کام کریں گے تو سینگ کہاں رہیں گے، گِھس گِھساکر ختم ہو ہی جائیں گے۔ اور بقول ابن انشا شوہر تو وہ جانور ہے کہ مادہ کی خدمت کرتے کرتے کُھر گِھس چکے ہیں اور دُم جھڑ چکی ہے! 
رات دن محنت کے نتیجے میں جن کے سینگ غائب ہوچکے ہیں، کُھر گِھس گئے ہیں اور دُم جھڑ چکی ہے وہ یعنی دو ٹانگوں والے گدھے ہرگز بد دل نہ ہوں۔ قدرت اُنہیں ہمیشہ unsung heros نہیں رہنے دے گی۔ وہ وقت بھی آئے گا جب سماج کو اُن کی محنت، دیانت اور محرومی کا خیال آئے گا اور وٹھل ناگ راج کی طرح کوئی اُٹھ کر اُن کے گلے میں بھی ہار ڈالے گا، احترام کی نظر سے دیکھے گا۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا تب تک تو وہ ہیں اور گھاس خوری ہے! ع 
جیسے گزر سکے یہ شبِ غم گزار دے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں