"MIK" (space) message & send to 7575

وکھری ٹائپ کے نازنین

برازیل کا شُمار اُبھرتی ہوئی معیشتوں میں ہوتا ہے۔ جب ملک اُبھر رہا ہے تو باشندوں کے طور طریقے بھی اُبھرتے ہوئے کیوں نہ ہوں؟ تین دن قبل خبر آئی کہ برازیل کے شہر نووا مُٹُم (Nova Mutum) میں چند حسینائیں جیل کے گارڈز کو دھوکا دے کر اپنے ساتھی سمیت 28 قیدیوں کو لے اُڑیں۔ ثابت ہوا کہ ملک آگے بڑھ رہا ہو تو خواتین بھی ''مردانہ وار‘‘ آگے بڑھتی ہیں! اِس ایک خبر نے ہمیں اِس یقین کی منزل تک پہنچا دیا ہے کہ اُبھرتا ہوا برازیل بہت ترقی کرے گا!
مقصد کے حُصول کے لیے برازیلین حسیناؤں نے وہی طریقہ اپنایا جو دُنیا بھر میں حسینوں اور نازنینوں کا اسٹینڈرڈ طریقہ رہا ہے یعنی اُنہوں نے گارڈز کو لَچّھے دار باتوں میں لگایا۔ گارڈز کو نظر رکھنے کے لیے تعینات کیا جاتا ہے۔ برازیلین گارڈز نے نظر رکھی ضرور مگر صرف جمال پر اِس لیے جلال کی زد میں آگئے! جس طرح ہم کوئٹہ پشین ہوٹلوں کے لَچّھے دار پراٹھوں پر مَرتے ہیں اُسی طرح برازیلین جیل گارڈز اِن حسینوں کی لَچّھے دار باتوں میں آگئے۔ کچھ دیر بَتیانے کے بعد اِن چالباز ماہ جبینوں نے وہی کیا جو انار کلی نے ''مغلِ اعظم‘‘ میں شہزادہ سلیم کے ساتھ کیا تھا۔ انارکلی نے بے ہوشی کی دوا میں بسا ہوا پُھول سُنگھاکر مغلیہ سلطنت کا وقار بچایا تھا۔ اِن نازنینوں نے جیل کے گارڈز کو مشروب پلاکر ''دنیا و مافیہا‘‘ سے بے گانہ کردیا۔
جیل کے گارڈز کو جب ہوش آیا تو اُن کے ہوش ٹھکانے آگئے۔ سب کے سب دَھر لیے گئے۔ تمام گارڈز پر فرائض سے غفلت برتنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ یہ بھی عجیب بات ہے۔ الزام لگنا چاہیے تھا نازنینوں کے ہاتھوں اُلّو بننے کا مگر مقدمہ بنایا جارہا ہے فرائض سے غفلت برتنے کا۔ ''فرائض‘‘ سے اُنہوں نے غفلت کہاں برتی تھی؟ حسین چہرے سامنے ہوں تو نہ چاہتے ہوئے بھی بے وقوف بننا تو ہر جمال پرست کا پیدائشی حق اور فرض ہے! حُسن والے اگر جال بچھانے میں اناڑی پن بھی دکھائیں تو حُسن کی پرکھ رکھنے والے فراخ دِلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حسینوں کو رعایتی نمبر دے کر ''از خود نوٹس‘‘ کے تحت جال میں پھنس جاتے ہیں!
ہم اب تک سمجھ نہیں پائے کہ اِس پورے معاملے میں گارڈز کو کیوں مطعون کیا جارہا ہے۔ اُن ''معصوم‘‘ انسانوں کا کیا قصور؟ حُسن والوں کا تو کام ہی بے وقوف بنانا ہوتا ہے۔ بے وقوف بننے والوں کو ذلیل کرنے سے زیادہ بے وقوف بنانے والوں کو مہارت کی داد دی جانی چاہیے! ویسے بھی ویلنٹائن سیزن چل رہا ہے۔ ساری کی ساری فضاء نشیلی سی ہے۔ ایسے میں اگر نشہ آجائے تو حیرت کیسی؟
جیل کے گارڈز کی قومیت یا وطنیت کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔ قیاس ہے کہ وہ برازیلی ہی ہوں گے۔ مگر لازم تو نہیں کہ وہ برازیل ہی کے ہوں۔ ہمیں پتا نہیں کیوں ایسا لگ رہا ہے کہ گارڈز یا تو پاکستانی تھے یا پھر کسی نہ کسی واسطے سے اُن کا پاکستان سے کوئی تعلق ضرور تھا۔ جس انداز سے اُنہوں نے غفلت برتی ہے اور جس آسانی سے چند حسینوں کی لَچّھے دار باتوں میں آکر بے ہوش ہوگئے وہ تو ہمارے ہاں کے گارڈز ہی کی خاصیت ہے!
ہمارے ہاں حسینوں کو پتا نہیں کیا کیا قرار دیا جاتا رہا ہے۔ کوئی اِنہیں بلا کہتا ہے اور کوئی قہر قرار دیتا ہے۔ کسی کی نظر میں یہ قیامت ہیں۔ کوئی حسینوں کو نہ سہی، اُن کی جوانی کو قیامت سے تعبیر کرتا ہے اور قیمت کا ذکر چِھڑ جانے پر بات کو کسی نہ کسی نازنین کی جوانی تک پہنچاکر دم لیتا ہے! نینوں کو کٹاری اور زُلفوں کو ناگن سے تشبیہ دی جاتی ہے۔
اُردو شاعری حسینوں کے بارے میں بدگمانی پیدا کرنے اور پھیلانے والے اشعار سے بھری پڑی ہے۔ کبھی کبھی تو پوری کلاسیکی اردو شاعری حسینوں کے خلاف پروپیگنڈا مشینری معلوم ہوتی ہے! بیشتر شعراء کا یہ حال رہا ہے کہ جب یہ دیکھتے ہیں کہ مُدعا پورا نہیں ہو رہا اور مَن کی مُراد بر آنے کی کوئی اُمید نہیں تو حسینوں کو لتاڑنے پر تُل جاتے ہیں! اور بعض نے تو کوسنے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ مثلاً ؎
خدا کرے تِرا رنگیں شباب چِھن جائے
تِری شرابِ جوانی خُمار کو ترسے!
ہمارے شُعراء کی اکثریت قول و فعل کے تضاد کا شکار ہے۔ پہلے خود حسینوں کے جال میں پھنسنے کی کوشش کرتے ہیں مگر جب انگور کَھٹّے ثابت ہوتے ہیں تو دوسروں کو نصیحت کرتے پھرتے ہیں کہ حسینوں سے بچ کے رہنا۔
آں جہانی کنور مہندر سنگھ بیدی سحرؔ تو حسینوں کے حوالے سے اِتنے ''ذی حِس‘‘ تھے کہ لڑکپن ہی میں کہہ دیا تھا ؎
سنبھلنا، بچ کے رہنا، دیکھنا، دھوکا نہ کھا جانا
حسینوں نے چُھپایا آستیں میں مار ہوتا ہے!
ہمارا مُشاہدہ (نہ کہ تجربہ) یہ ہے کہ حسینوں نے آستین میں مار (سانپ) چُھپایا ہو یا نہ چُھپایا ہو، ہاں اپنی سینڈلوں میں مار ضرور چُھپائی ہوتی ہے! ہم نہیں جانتے کہ سحرؔ صاحب نے یہ شعر مُشاہدے کی بُنیاد پر کہا تھا یا تجربے کی بُنیاد پر!
شکیلؔ بدایونی مرحوم نے دلیپ کمار اور نرگس کی سُپر ہٹ فلم ''بابل‘‘ میں طلعت محمود کی مدھر آواز میں نصیحت کی تھی ؎
حُسن والوں کو نہ دِل دو، یہ دغا دیتے ہیں
زندگی بھر کے لیے روگ لگا دیتے ہیں
خوب کرتے ہیں یہ بیمارِ محبت کا علاج
درد بڑھتا ہی رہے ایسی دوا دیتے ہیں
اُردو شاعری کی ''عظمت‘‘ کا اندازہ اِس بات سے بھی لگائیے کہ اِس میں تو حسینوں اور مہ جبینوں پر تنقید، طنز و تشنیع اور لعن طعن کے لیے ایک باضابطہ صِنف ''واسوخت‘‘ موجود ہے۔ اُردو کے شعراء بیک وقت دو یا اِس سے زیادہ کشتیوں میں سفر کرنے کے عادی ہیں۔ جن حسینوں پر مرتے ہیں اُنہی پر طنز و تشنیع کے تیر بھی برساتے ہیں تاکہ اُنہیں بھی ساتھ لے مَریں۔ ع
ہم تو ڈوبے ہیں صنم، تم کو بھی لے ڈوبیں گے!
برازیلین حسینوں نے اُردو شاعری میں اپنے حوالے سے پھیلائی جانے والی تمام غلط فہمیوں کو دفن کردیا ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ اپنی فِطرت کی بھی نفی کی ہے۔ اب تک تو ہم نے حسینوں کو بندے پھانستے اور پھنسواتے دیکھا یا سُنا ہے۔ ایسے میں یہ جان کر حیرت کیوں نہ ہوتی کہ برازیلین حسینوں نے 28 قیدیوں کو رہائی دلائی۔ ''ہمتِ مرداں‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے جیل توڑ آپریشن کرنے والے اِن حسینوں کے سینے میں سونے کا دل تھا۔ اِرادہ تو اُنہوں نے جیل سے ایک ساتھی کو نکال لے جانے کا کیا تھا مگر جب جیل میں انتہائی موافق حالات دیکھے تو سوچا سامنے گنگا بہہ رہی ہے تو منہ ہاتھ کیا دھونا، اشنان کرلیا جائے! گارڈز سے چابیاں ہتھیانے کے بعد اُنہوں نے صرف اپنے ساتھی کی بیرک کا دروازہ غیر مُقفّل نہیں کیا بلکہ چند دوسری بیرکس کے دروازے بھی کھول دیئے۔ ع
جو ''جائے، جائے‘‘ کہ ہم دِل کُشادہ رکھتے ہیں!
''اِنسان دوستی‘‘ اِسی کو تو کہتے ہیں۔ اگر کسی اپنے کے ساتھ اوروں کا بھی بھلا ہو جائے تو ہرج ہی کیا ہے۔ اور خاص طور پر ایسی صورت میں کہ اپنے پَلّے سے کچھ بھی نہ جارہا ہو۔ برازیلین حسینوں نے سوچا ہوگا جب جیل تک آنا ہو ہی گیا ہے تو ذرا سخاوت سے کام لیا جائے۔ اچھا ہے حسینوں کے دامن پر لگی ہوئی چند تہمتیں تو مِٹیں گی!
آپ سوچیں گے یہ تو ''حلوائی کی دُکان پر نانا جی کی فاتحہ‘‘ والی بات ہوئی۔ مگر یہ بھی تو سوچیے کہ حلوہ اُنہیں پلیٹ میں رکھ کر پیش نہیں کیا گیا۔ ساتھیوں کو چُھڑانے کے لیے اِن نازنینوں نے جیل کو اپنی محنت سے حلوائی کی دُکان میں تبدیل کیا!
اِس پورے عمل میں اگر چند گارڈز تاریک راہوں میں مارے گئے تو افسوس کیسا؟ یہ مرضی کا سَودا تھا۔ دِل پھینک گارڈز اِن تاریک راہوں پر بہ رضا و رغبت چلے تھے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں