فی زمانہ تعلیم اور تعلیم یافتہ لوگوں کے ہاتھوں مختلف شعبوں کا جو حشر ہم نے دیکھا‘ اُس کے پیش نظر جی تو چاہتا ہے کہ ہم اپنے تعلیم یافتہ ہونے سے انکار کر دیں‘ مگر پھر خیال آتا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ اِس انکار کے سامنے آتے ہی ٹی وی چینلز والے ہمیں ''تجزیہ کار‘‘ بنانے پر تُل جائیں۔ ایسی کڑی سزا سے بچنے کے لیے یہ اعتراف کر لینا ہی مناسب ہے کہ ہاں! تھوڑی بہت تعلیم ہم نے بھی پائی ہے۔
یہ اعتراف کرنے میں کچھ ہرج نہیں کہ ہم آج تک تعلیمی پالیسی اور اُس کے اہداف سمجھ نہیں پائے۔ بعض صاحبانِ نظر کا کہنا ہے کہ ہماری حکومتیں تعلیم کا معیار تو بلند نہیں کر سکیں مگر ہاں ''تعلیمی اہداف‘‘ کے معاملے میں کامیاب رہی ہیں یعنی مختلف ادوار میں نئی نسل کا جو تیاپانچا کرنا تھا وہ بخوبی کیا گیا!
ملک کو جس تعلیم کی ضرورت ہے اُس کے درشن آج تک نہیں ہوئے۔ کوشش کی جاتی رہی کہ جو کچھ سِکھانا ناگزیر ہے اُس کے سِوا سب کچھ سِکھایا جائے! اِسی کا یہ نتیجہ برآمد ہوا ہے کہ تھوڑی بہت یعنی رسمی سی تعلیم پانے والے لِکھنے جیسے خاصے مطالعہ طلب شعبے میں قدم جما لیتے ہیں اور جو بہت پڑھ جاتے ہیں وہ کسی کام کے نہیں رہتے اور آنے والی نسلوں کو یہ ''ہنر‘‘ سکھانے پر مامور کر دیئے جاتے ہیں!
نئی نسل کو قدم قدم پر تِھرکنے اور مٹکنے میں مصروف پا کر ہم سوچتے ہیں کہ آخر سکول اور کالج کی سطح پر یہ کیا سِکھایا جا رہا ہے۔ کیا اب نوجوانوں کا کام صرف ناچنا گانا رہ گیا ہے؟ پھر جب ہم نئی نسل کو گانے بجانے کے شعبے میں تیزی سے آگے بڑھتا ہوا دیکھتے ہیں تو اپنی رائے سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ جب ماحول میں عزت صرف ناچنے گانے والوں کو مل رہی ہے تو نئی نسل کو بھاری بھرم کتابیں سَر پر لادنے کی ضرورت ہے؟ اِس نقطۂ نظر سے سوچیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ آج کی نسل عصری تقاضوں کو زیادہ سمجھتی ہے یعنی قابل رشک حد تک پریکٹیکل ہے۔ ہم اقدار کا رونا روتے رہتے ہیں اور وہ ''مِقدار‘‘ کو ذہن میں رکھ کر سوچتی ہے!
بھارتی ریاست اُتر پردیش کے ضلع اعظم گڑھ سے ایک ایسی خبر آئی ہے جس نے ہم پر واضح کر دیا کہ تعلیم ہمیشہ ''عصری تقاضوں‘‘ سے ہم آہنگ رہنی چاہیے تاکہ بچے جو کچھ پڑھیں وہ عملی زندگی میں اُن کا حقیقی سہارا بنے اور وہ کسی اور سے مدد لینے کا سوچے بغیر اپنے پیروں پر کھڑے ہو کر زندگی بسر کریں۔
یو پی کے ضلع اعظم گڑھ نے کئی عظیم ہستیاں پیدا کی ہیں۔ اِن میں شُعراء بھی ہیں اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات بھی۔ کیفیؔ اعظمی اور ڈاکٹر ساغرؔ اعظمی جیسے شعراء بھی اعظم گڑھ نے دیئے۔ تعلیم اور تنقید کی بات کیجیے تو پروفیسر انجم اعظمی بھی اعظم گڑھ کا تحفہ ہیں اور کیفیؔ اعظمی کی صاحب زادی شبانہ اعظمی کے فن کے بارے میں کچھ کہنا تو سُورج کو چراغ دِکھانا ہی ہے۔
ضلع اعظم گڑھ میں ایک ایسے سکول کا سُراغ ملا ہے‘ جہاں بچوں کو ماحول کے مطابق اور جدید دور کے تقاضوں کی روشنی میں تعلیم دی جاتی رہی ہے۔ رتنا پبلک سکول کی پرنسپل کا نام شیلا ہے اور اُس کا شوہر راجیو اِس سکول کا مینجر ہے۔ یہ سکول راجیو نے کچھ اِس طرح manage کیا ہے کہ دُنیا حیران رہ گئی ہے۔ راجیو کو ضلع اعظم گڑھ یا پھر پورے اُتر پردیش کی عمومی فضاء کا علم ہے اِس لیے اُس نے سکول میں بچوں کو پریکٹیکل لائف کے تمام ہُنر سِکھانے کا اہتمام کیا۔ ویلڈنگ، کارپینٹری، ٹیلرنگ، بیکنگ اور دوسرے بہت سے ہُنر سِکھانے والے اداروں کی کمی نہیں۔ اصل سوال تو بچوں میں بہتر زندگی بسر کرنے کی جرأت پیدا کرنے کا ہے۔
راجیو نے بہت سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کیا کہ ضلع اعظم گڑھ کی نئی نسل کو بدمعاشی اور داداگیری کے ماحول سے بطریق احسن نمٹنے کا ہُنر سکھایا جائے۔ راجیو نے سوچا ہم موہن داس کرم چند گاندھی کے دور میں جی نہیں رہے کہ عدم تشدد کا پرچم لہرائیں اور گولیاں کھا کے دُنیا سے رُخصت ہوں۔ مثلاً مشہور ہے کہ لوہے کو لوہا کاٹتا ہے۔ یہ بات گاندھی جی نے نہیں سُنی تھی ورنہ عدم تشدد کے ٹریک سے اُتر کر لوہے کو لوہے سے کاٹنا شروع کرتے اور آزادی پاتے ہی قیدِ ہستی سے بھی آزادی نہ پاتے۔
راجیو نے اپنے سکول میں بچوں کو بدمعاشی کے طور طریقے سکھانے کا اہتمام کیا ہے۔ اُنہیں انتہائی ناشائستہ گفتگو بھی سِکھائی جاتی ہے۔ بچوں کے ذہنوں میں یہ بات بھی ٹھونسی جاتی ہے کہ ایمان داری اچھا وصف ہے مگر محض کتابوں اور قصوں کہانیوں کی حد تک۔ عملی زندگی میں بے ایمانی ہی کام آنے والی چیز ہے۔ رتنا پبلک سکول میں بچوں کو دھونس دھمکی دینا اور اکڑ کر بات کرنا بھی سِکھایا جاتا ہے تاکہ ''فارغ التحصیل‘‘ ہو کر وہ عملی زندگی میں ناکامی کی ٹھوکریں نہ کھائیں اور بھرپور کامیابی کے ساتھ زندگی بسر کریں۔
سکول اچھا خاصا چل رہا تھا کہ خدا جانے کس حاسد کی نظر لگ گئی۔ کسی نے چینلز والوں کو بتا دیا کہ ''جگمگاتے‘‘ میں ایک سکول بدمعاشی کا ''نور‘‘ بکھیر رہا ہے! مُخبری کی دیر تھی، چینلز کی گاڑیاں تان توبڑے سمیت رتنا پبلک سکول پہنچ گئیں۔ راجیو نے سکول میں چینلز کا خیر مقدم کیا۔ جب چینل والوں نے اُس سے سکول میں بدمعاشی اور ناشائستہ زبان سکھانے کی تصدیق چاہی تو اُس نے فخر سے سینہ پُھلاتے ہوئے بتایا کہ اُس کا سکول نئی نسل کو بہتر زندگی بسر کرنے کے لیے درکار ''ہنر‘‘ سِکھانے میں پیش پیش رہا ہے۔ جب اُس سے پوچھا گیا کہ کیا اُسے کبھی محسوس نہیں ہوا کہ وہ کچھ غلط کر رہا ہے تو اُس نے کہا۔ ''بچوں کو گالیاں سکھانا، دھمکانے کی تربیت دینا کہاں سے غلط ہے؟ ہم وہی تو سِکھا رہے ہیں جو معاشرے میں ہو رہا ہے۔ ہم چاہتے ہیں بچے جب سکول سے نکلیں تو اُن کے پاس وہی کرنسی ہو جو بازار میں چلتی ہے۔ ہم اگر گالی دینا اور دھمکانا سِِکھا رہے ہیں تو اِس میں بُرا کیا ہے؟ ہر طرف یہی تو ہو رہا ہے۔‘‘
ایک چینل نے اِس گفتگو پر مبنی وڈیو چلائی تو ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ متعلقہ اتھارٹیز کے کان کھڑے ہوئے۔ یہ سب کچھ سرکار کی ناک کے نیچے ہو رہا تھا اور اُسی کو کچھ خبر نہ تھی۔ سکول کی پرنسپل شیلا نے بتایا کہ 2002ء سے تیسری تا دسویں جماعت کے بچوں کو مُغلّظات بکنا، دھمکیاں دینا اور بدمعاشی کے ذریعے کام نکالنا سِکھایا جاتا رہا ہے۔
راجیو قول و فعل کے تضاد کا شکار نہیں۔ سکول میں بچوں کو جو کچھ سِکھاتا ہے اُس کا پریکٹیکل اُس نے میڈیا والوں پر بھی کیا۔ جب اُسے بتایا کہ اُس کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے تو اُس نے کہا: ''میں کسی سے ڈرتا ورتا نہیں ہوں۔ میڈیا والوں کو بھی ٹھیک کر دوں گا۔‘‘
ریاستی سرکار کہتی ہے کہ وہ سکول کی رجسٹریشن منسوخ کر دے گی۔ سوال یہ ہے کہ 2002 سے اب تک بے خبری کیوں رہی؟
قابلِ غور بات یہ ہے کہ اِتنی طویل مُدت کے دوران اِس سکول میں پڑھنے والے بچوں کے والدین کی طرف سے بھی کوئی شکایت نہیں آئی۔ راجیو کے خلاف کارروائی ہو تو یہ کہتے ہوئے جان چُھڑائی جا سکتی ہے کہ جب والدین اور بچوں ہی کو پریشانی لاحق نہیں تو ریاستی مشینری کیوں ہلکان ہوئی جا رہی ہے؟
ہمارے ہاں جس طرح کا ماحول پنپ رہا ہے اُس کے پیش نظر بہت جلد ہمارے ہاں بھی رتنا پبلک سکول جیسے تعلیمی اداروں کے اُبھرنے کا خدشہ ظاہر کیا جا سکتا ہے۔ چھوٹا موٹا ہُنر سیکھنے سے کیا ہوتا ہے؟ جب سیکھنا ہی ہے تو زمانے میں پنپنے کا سب سے بڑا ہُنر سیکھا جائے! یا شاید اب ہم ایسے کسی سکول کے کچھ خاص ضرورت مند نہیں رہے!