اسرائیل اور فرانس ایک ہوئے ہیں اور انوکھی بات بتائی ہے۔ دونوں ممالک کے ماہرین نے سیکڑوں رضاکاروں پر تحقیق کے بعد ''انکشاف‘‘ کیا ہے کہ محبت کا ہارمون آکسیٹوکن اِنسان کو جُھوٹ بولنے پر مائل کرتا ہے۔ اسرائیلی اور فرانسیسی ماہرین کا کہنا ہے کہ عام طور پر لوگ کسی کے فائدے یا اپنے تحفظ کے لیے جھوٹ بول کر بُرا محسوس نہیں کرتے۔ ساتھ ہی ماہرین نے یہ متضاد بات بھی کہی ہے کہ جب کسی کے سامنے محض اپنے مفاد کی بات ہو تو یہ ہارمون عمل نہیں کرتا۔ یہ تو ہوئی محبت اور جُھوٹ کی بات۔ اب آئیے جُھوٹ اور سچ کی کشمکش کی طرف۔ ایک اور تحقیق میں برطانوی ماہرین نے مشورہ دیا ہے کہ جب جُھوٹ اور سچ کے درمیان فرق معلوم کرنا ہو تو فِطری ردعمل پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ کسی بھی معاملے میں فطری ردعمل دراصل لاشعور کی حرکت پذیری کا نام ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ جو لوگ بہت غور کرکے نتائج اخذ کرتے ہیں وہ عموماً کامیاب نہیں ہوتے اور اُن کی مشکلات بھی بڑھ جاتی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی کا جُھوٹ پکڑنے کے لیے اُس کی شخصیت کا جائزہ لینا، اُس کے نظریں جُھکالینے کا مشاہدہ کرنا، نروس ہونے پر نظر رکھنا اور پریشانی کو بھانپنا ہمیں محض 50 فیصد تک کامیاب کرسکتا ہے۔ باقی 50 فیصد کے لیے ہمیں اپنے لاشعور ہی پر بھروسہ کرنا پڑے گا۔
جُھوٹ اور سچ کے فرق کو بھانپ لینے کے حوالے سے ماہرین نے لنگور کا حوالہ دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ لنگور میں جُھوٹ پکڑنے کی حیرت انگیز صلاحیت پائی جاتی ہے۔ مزید یہ کہ ارتقائی عمل میں کسی جاندار کی بقاء کا مدار بہت حد تک اِس بات پر ہے کہ وہ جُھوٹ کا اندازہ کتنی تیزی سے لگاتا ہے اور یہ کہ اِس صلاحیت ہی پر اُس کی تولیدی صلاحیت کی کامیابی کا بھی بہت حد تک مدار ہے۔
محبت کا ہارمون جُھوٹ بولنے کی ''تحریک‘‘ دیتا ہے، یہ جاننے کے لیے ماہرین کی آراء کا انتظار کرنے والے احمق ہی گردانے جائیں گے۔ آپ ہی غور کیجیے، اگر کبھی آپ کسی کے بارے میں سچ بول دیں تو کیا ہوتا ہے؟ سیدھی سی بات ہے، نفرت پیدا ہوتی ہے! اپنے بارے میں کھرا سچ سُن کر کون آپ سے محبت کرے گا؟ ہوسکتا ہے ایسے احمق بھی پائے جاتے ہیں مگر ہمیں آج تک دکھائی نہیں دیئے۔ آپ نے دیکھا کہ سچ سے نفرت پیدا ہوتی ہے، لہٰذا جُھوٹ سے محبت ہی پیدا ہوگی! ہم نے کوئی راکٹ سائنس بیان نہیں کی، یہ دو اور دو چار کی طرح بالکل سیدھی اور سامنے کی بات ہے۔
محنت کے ہارمون کا نام آپ جانتے ہیں؟ ارے بھئی، ''آکسیٹوکن‘‘۔ اب غور کیجیے کہ اِس نام میں ''ٹوکن‘‘ موجود ہے۔ جب محبت کے ہارمون ہی میں ٹوکن موجود ہے تو پھر فی زمانہ محبت ٹوکن والے پینٹ جیسی کیوں ثابت نہ ہو! اور جناب، محبت کے ہارمون پر تحقیق اسرائیل کے ماہرین کر رہے ہوں تو آپ جُھوٹ کے سِوا کِس چیز کی توقع کرسکتے ہیں؟ نفرت کے ہارمون اور اُس کے ممکنہ تباہ کُن اثرات و نتائج کے بارے میں تحقیق فلسطینی ماہرین پر قرض سمجھی جائے۔ وہی بتا سکتے ہیں کہ نفرت کے ہارمون سے سچ بولنے کی تحریک کِس حد تک پیدا ہوتی ہے اور یہ تحریک صہیونی ریاست کو کس حد تک سیخ پا کرتی ہے!
اپنے تحفظ کے لیے جُھوٹ بولنے کو بُرا نہ سمجھنے میں کون سی بُرائی ہے؟ یہ تو اِنسانی فطرت ہے۔ ہر اِنسان اپنا بھلا چاہتا ہے۔ کیا ماہرین اپنا بھلا نہیں چاہتے؟ جن موضوعات پر عشروں بلکہ صدیوں سے تحقیق کی جارہی ہے اُنہیں یہ مزید پامال کرتے ہیں اور اپنے مفاد یا تحقیق کو درست ثابت کرنے کے لیے اِس قدر جُھوٹ بولتے ہیں کہ اگر تحقیق پر مبنی خبروں کو جمع کرکے کتابی شکل میں شائع کیا جائے تو ہم جیسے لوگ مزاح لکھنے کے نام پر قلم تھام کر محض ٹامک ٹوئیاں مارتے رہیں اور میلہ محققین لُوٹ کر چلتے بنیں!
محبت کا سَچ سے بھی تعلق ضرور بنتا ہے، یعنی محبت کی موت سے! ایک دوسرے پر جان نچھاور کرنے والے جب سچ کی راہ پر گامزن ہرتے ہیں، ہر سنگِ میل پر دونوں ایک دوسرے کا سَر پھوڑتے جاتے ہیں اور محبت کی ساری رنگینیاں تھوڑی سی مُسافت پر دَم توڑ دیتی ہیں! ماہرین کی یہ رائے تھوڑی سی غلط ہے کہ محبت میں جُھوٹ بولنے کو لوگ بُرا نہیں سمجھتے۔ بات صرف اِتنی سی ہے کہ جُھوٹ کر محبت میں اُلّو سیدھا کرنے والے اپنے دِل پر تھوڑا سا بوجھ ضرور محسوس کرتے ہیں مگر وہ اِتنے اُلّو نہیں ہوتے کہ ضمیر کی خَلِش پر فلمی انداز سے جذباتی ہوجائیں اور آن کی آن میں ساری سَچّائی بیان کرکے کسی آئندہ محبت کا دووازہ اپنے اوپر بند کرلیں!
برطانوی ماہرین نے جُھوٹ پکڑنے کا جو طریقہ سُجھایا ہے وہ اِتنا خطرناک ہے کہ اِس پر عمل کرنے سے محبت کرنے والوں کی بسی بسائی دُنیائیں پلک جھپکتے میں اُجڑ سکتی ہیں۔ اگر فِطری ردعمل کے ذریعے کِسی کا جُھوٹ پکڑنے کی کوشش کی جائے تو محبت کی ٹرین کسی متروک ٹریک پر کھڑی ہوجاتی ہے! جُھوٹ پکڑنے کے لیے برطانوی ماہرین کا سُجھایا ہوا طریقہ فرانس اور اسرائیل کے ماہرین کو بغلول ثابت کرکے اُن کی تحقیق کا بوریا بستر گول کرسکتا ہے!
برطانوی ماہرین کا یہ ''انکشاف‘‘ بھی ہمارے فہم سے بالا ہے کہ لنگور میں جُھوٹ پکڑنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ ذرا سی کامن سینس رکھنے والا کوئی بھی شخص اندازہ لگا سکتا ہے کہ جُھوٹ پکڑنے کی صلاحیت سے لنگور کو کیا ملا؟ وہ آج بھی درختوں کے درمیان زقندیں لگاتا پھر رہا ہے! جُھوٹ پکڑنے کی صلاحیت کِس کام کی اگر وہ کسی کو دو ٹانگوں پر کھڑا ہونے کے قابل بھی نہ بناسکے!
اچھا ہے کہ اِنسانوں میں جُھوٹ پکڑنے یا بھانپنے کی صلاحیت برائے نام پائی جاتی ہے۔ اِس صلاحیت کے فقدان یا کمیابی ہی سے دُنیا کے دھندے چل رہے ہیں۔ جُھوٹ کا افسون پُھونکیے تو لوگ سب کچھ جانتے ہوئے بھی مسحور ہونے کا تیار رہتے ہیں۔ اور سچ کا معاملہ تو ہے کہ ع
اِک ذرا چھیڑیے، پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے!
اگر یہ لنگورانہ صِفت یعنی جُھوٹ پکڑنے کی صلاحیت عام ہوتی تو لوگ ہمارے کالموں میں چُھپا، بلکہ بسا ہوا ''سچ‘‘ بھانپ کر ہماری گردن ناپنے کے درپے رہتے!
بتانا ہمارا کام تھا جو ہم نے کردیا۔ اُمید ہے کہ اہلِ پاکستان برطانوی ماہرین کی ''سازش‘‘ ناکام بنائیں گے یعنی لنگوروں سے موازنہ ٹالنے کے لیے ہر جُھوٹ کو سَچ سمجھ کر حسین اور مسحور کن خوابوں کی وادیوں میں گُل گشت کرتے رہیں گے!