کل ہم مرزا کے گھر پہنچے تو وہ قبر میں پاؤں لٹکانے کی عُمر میں پاؤں پلنگ پر رکھے مُنہ لٹکائے بیٹھے تھے۔ چند لمحات کے بعد باضابطہ گفتگو شروع ہوئی تو معلوم ہوا کہ مرزا کو اِس بات کا دُکھ ہے کہ برطانیہ میں کیوں پیدا نہیں ہوئے! ہم نے برطانیہ کے مقدّر پر رشک محسوس کرتے ہوئے مرزا سے اِس دُکھ کا سبب پوچھا تو کہنے لگے : ''معاشرہ ہو تو ایسا کہ زندگی کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کرنے پر آمادہ رہتا ہے۔ برطانوی باشندے جس انداز سے زندگی بسر کر رہے ہیں وہ قابل رشک ہے۔ محنت کشوں کو تمام بنیادی حقوق اور سہولتیں میسر ہیں۔‘‘
ہم نے مرزا کے سلسلۂ کلام کو لگام دینے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ہاں بھی تو کام کرنے والوں کو تمام مزے میسر ہیں۔ دفاتر پر نظر دوڑائیے تو لوگ کام کے نام پر آرام فرمانے کی کوشش کرتے ہوئے ملتے ہیں۔ فیلڈ میں نکل جائیے تو جنہیں محنت کرنی ہے وہ ایک طرف بیٹھ کر دِل کی بھڑاس نکال رہے ہوتے ہیں۔ ایسے میں کون ہے جس پر کام کو بوجھ ہے؟ اور جب کام کا کوئی بوجھ ہی نہیں تو پھر کیا پاکستان اور کیا برطانیہ، سبھی ایک صف میں کھڑے ہیں۔
مرزا کا استدلال تھا کہ پاکستان میں لوگ ورک پلیس یعنی کام کے مقام پر جو سُکون چاہتے ہیں وہ برطانیہ میں باضابطہ فراہم کیا جارہا ہے۔ کہنے لگے : ''ایک برطانوی کمپنی نے اپنے ملازمین کو قیلولے کی سہولت فراہم کی ہے تاکہ کام کا معیار بلند ہو۔ ملازمین کے لیے دفاتر میں ایک طرف جگہ مختص کرکے گول ڈبّے بنادیئے گئے ہیں۔ ملازمین کھانے کے بعد اِن ڈبّوں میں سَر دے کر سو جاتے ہیں۔ ڈبّوں میں الارم لگا ہوا ہے جو اِنہیں مقررہ وقت پر بیدار کردیتا ہے اور وہ تازہ دم ہوکر پھر کام کرنے لگتے ہیں۔ اگر ہمارے ہاں بھی ایسا ہی نظام آجائے تو مزا آجائے۔‘‘
ہم مرزا کی یہ خواہش سُن کر حیران رہ گئے۔ مرزا کم و بیش 30 سال سرکاری نوکری کرکے ریٹائر ہوئے ہیں۔ اِن تین عشروں میں اُنہوں نے (دفتری اوقات میں) جتنا آرام کیا ہے اُتنا آرام تو بے چارے برطانوی باشندوں کو دس عشروں میں بھی نصیب نہیں ہوسکتا! ہمارا تو خیال یہ ہے کہ مرزا اگر اپنے دفتری آرام کا کچھ حصہ بہت پہلے آؤٹ سورس کردیتے تو برطانیہ کے دفتری بابوؤں کو بھی اندازہ ہو جاتا کہ پُرسُکون زندگی کیا ہوتی ہے!
اور ایک مرزا پر کیا موقوف ہے، یہاں تو سبھی کام کے دوران آرام کے کے نظریے پر کاربند رہے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ سرکاری دفاتر اِس نظریے کے بانی و سرخیل تھے۔ اب خیر سے پرائیویٹ سیکٹر کے ملازمین بھی کام کے نام پر آرام کے عادی ہوچکے ہیں۔ آپ سوچیں گے اگر واقعی ایسا ہے تو دفاتر میں کام کون کرتا ہے؟ ہر دفتر میں چند ایک ''سیاسی یتیم‘‘ ضرور ہوتے ہیں جن کا کوئی والی وارث نہیں ہوتا۔ کسی کی سرپرستی سے محروم یہ ''سیاسی یتیم‘‘ پورے دفتر یا
ادارے کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اُٹھائے پھرتے ہیں اور جو مل جائے اُس پر اللہ کا شکر ادا کرتے رہتے ہیں۔ اقوالِ زرّیں پر مبنی تمام ایس ایم ایس اِنہی بے نواؤں کی فضیلت بیان کرتے ہیں!
ہم نے مرزا کو سمجھانے کی کوشش کی کہ ہمارے ہاں قیلولے کے لیے برطانوی کمپنی کی طرح باضابطہ مقام اور ڈبّے کی سہولت مختص کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہمارے ہاں لوگ اِن تکلّفات کے عادی نہیں۔ علامہ اقبالؔ کہہ گئے ہیں ع
اپنی دُنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
اِس نصیحت، ہدایت یا مشورے کو لوگوں نے حکم سمجھ کر گلے لگایا ہے اور اب وہ دفاتر یا دیگر ورک پلیسز میں جہاں تہاں آرام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ کمال یہ ہے کہ لوگ دفتر پہنچ کر پہلی چائے پینے کے بعد بعد صبح کے گیارہ بجے ہی عالمِ مَدہوشی میں قیلولہ فرمانے لگتے ہیں۔ ہم نے مرزا کو یاد دلایا کہ کئی بار ہم اُن سے ملنے دفتر گئے تو وہ صبح گیارہ بجے بھی قیلولہ فرماتے ملے! مرزا کا جواب تھا : ''بات یہ ہے کہ جب ہمارے ہاں صبح کے گیارہ بجتے ہیں تو کہیں نہ کہیں دن کے دو ڈھائی بھی تو بج رہے ہوتے ہیں۔ ایسے میں اپنے ہاں صبح گیارہ بجے قیلولہ کرنا عالمی برادری سے یکجہتی کے اظہار کی ایک صورت ہے!‘‘
آپ سوچ رہے ہوں گے صبح کے اوقات میں دفتر کا کام شروع کرنے کے بجائے قیلولہ کرنا تو انتہائی غیر ذمہ دارانہ رویّہ ہے۔ آپ کی سوچ درست ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ مرزا جیسے لوگ سرکاری دفاتر میں صبح کے وقت قیلولہ نہ کریں تو پھر کب کریں؟ آپ پھر سوچیں گے کہ قیلولہ تو دن کے کھانے کے بعد ہوتا ہے۔ آپ کی سوچ پھر درست ہے۔ مگر مصیبت یہ ہے کہ بیشتر سرکاری ملازمین دفاتر میں قیلولہ کیسے کرسکتے ہیں؟ دوپہر کا کھانا تو وہ گھر میں کھاتے ہیں! اب چونکہ حقیقی قیلولہ یعنی قیلولہ نمبر ٹو گھر میں وقوع پذیر ہوتا ہے اِس لیے ناگزیر ہے کہ قیلولہ نمبر ون دفتر میں کیا جائے!
مرزا کہتے ہیں کہ دفاتر میں جو لوگ یک طرفہ کارروائی کرتے ہوئے آرام کرتے ہیں اُن کے ضمیر پر خواہ مخواہ بوجھ پڑتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ حکومت ایسے قوانین وضع کرے کہ قیلولے کے لیے سہولتیں فراہم کرنا اداروں کی ذمہ داری ہو۔ ہم نے مرزا کے رُو بہ رُو صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ اِس ملک کو کام کی ضرورت ہے، آرام کی نہیں۔ اگر کسی کو قیلولہ فرمانے کا شوق ہے تو گھر پر رات کے کھانے کے بعد دو ڈھائی بجے تک دوستوں میں بیٹھنے سے پہلے نصف گھنٹہ قیلولے کا شوق پُورا کرلے۔
مرزا کا مُنہ بن گیا۔ کہنے لگے : ''تم جیسے لوگوں کو کیا معلوم کہ دفاتر میں لوگ کام کریں تو بہت عجیب دکھائی دیتے ہیں! اور سچ یہ ہے کہ کام وام کچھ اِتنا ہوتا نہیں۔ ایسے میں اگر کوئی آرام نہ کرے تو کیا کرے؟ بیٹھے بیٹھے وقت ضائع کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ کچھ دیر آرام کرکے دِل و دِماغ کو توانائی بخشی جائے۔ اِس صورت میں شام کو گھر والوں اور اُس کے بعد رات دیر گئے تک دوستوں کے ساتھ وقت اچھا گزرتا ہے!‘‘
ہم نے عرض کیا کہ جب مُراد پوری ہو رہی ہے تو دفاتر میں قیلولے کے لیے گول ڈبّوں کا اہتمام کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ ایسا ہوا تو دفتری کام کام کاج کا ڈبّا گول ہوجائے گا!
ہماری بات سُن کر مرزا نے حسبِ روایت زیرِ لب کچھ کہا اور پھر مُسکراتے ہوئے بولے: ''تم جیسے کبھی سمجھ نہیں پائیں گے کہ دفتری اوقات میں آرام کرنے سے زندگی پر کس قدر خوش گوار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ تم جیسوں کے نصیب میں تو بس لفّاظی رہ گئی ہے۔ رات رات بھر نیوز ڈیسک جہان بھر کی خبروں سے سَر ٹکرانے والے کیا جانیں کہ دفتر میں آرام اور بالخصوص قیلولے کا کیا مزا ہے!‘‘
مرزا کی بات سن کر ہم شدید ''احساسِ محرومی‘‘ کے ساتھ مہر بہ لب ہوگئے۔