بھرپور کامیابی اور سُکون کے لیے انسان کچھ بھی کرسکتا ہے اور کر گزرتا ہے۔ اور اگر معاملہ ازدواجی زندگی کا ہو تو سمجھ لیجیے کہ انسان کو کچھ نہ کچھ کرکے ہی دم لینا پڑتا ہے۔
دِلّی شہر کو بھارتی دارالحکومت ہونے ہی کا اعزاز حاصل نہیں بلکہ ریاست (صوبے) کا درجہ بھی ملا ہوا ہے۔ دِلّی کے وزیر برائے بہبودِ نسواں سندیپ کمار نے جنم جنم کا سُکھ پانے یعنی گھر کی شانتی بنائے رکھنے کے لیے کچھ ایسا کر دکھایا ہے کہ جس نے بھی سُنا ہے وہ انگشت بہ دنداں پایا گیا ہے۔ سندیپ کمار نے 5 اپریل 2011ء کو ریتو سے پسند کی یعنی محبت کی شادی کی تھی۔ آپ سوچیں گے اِس میں کمال کی بات کون سی ہے۔ بات یہ ہے کہ جناب کہ سندیپ کمار چار سال بعد بھی محبت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ آپ کہیں گے یہ بھی کوئی انوکھی بات نہیں۔ میاں بیوی میں محبت تین چار عشروں تک بھی برقرار رہ سکتی ہے، بشرطِ کہ وہ خود برقرار رہ جائیں!
کمال کی بات محبت کی شادی ہے نہ شادی کے بعد محبت کا برقرار رہنا، بلکہ اصل کمال یہ ہے کہ سندیپ کمار آج بھی دن کا آغاز ریتو جی کے پیر چُھوکر کرتے ہیں! رہ گئے نا آپ بھی انگشت بہ دنداں! آپ سوچیں گے سندیپ کمار نے تو مَردوں کی ناک ہی کٹوادی۔ جی نہیں، ناک صرف کٹوائی نہیں بلکہ جڑ سے نکلوادی! اور اگر وہ بیوی کے پیر چُھونے سے اپنے گھر کی شانتی بنائے رکھنے میں کامیاب رہے ہیں تو ہمارے اور آپ کے معترض ہونے سے کیا ہوتا ہے۔ وہ حقیقی مسرّت کا ''راز‘‘ پاگئے ہیں اور اب اپنی زندگی سے بے حد مطمئن ہیں۔ ؎
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟
ہاں، زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں!
اگر سندیپ کمار بیوی کے پیر چُھوتے ہیں تو اِس میں کوئی نئی یا اچنبھے کی بات نہیں۔ سندیپ نے کوئی نیا دیپ نہیں جلایا۔ ''بیگم پرستی‘‘ کی شمع تو ہر گھر میں جلتی ہے۔ دنیا بھر میں یہی کہانی ہے۔ خوشی سے ہو یا مجبوری میں، سب کا یہی معاملہ ہے۔ بقولِ عدمؔ ؎
کون ہے جس نے مے نہیں چکھی؟
کون جھوٹی قسم اٹھاتا ہے؟
مے کدے سے جو بچ نکلتا ہے
تیری آنکھوں میں ڈوب جاتا ہے!
بیوی کو ہندی میں ''اردھانگنی‘‘ کہا جاتا ہے یعنی آدھا جسم۔ باقی آدھا جسم شوہر کا ہوتا ہے۔ یعنی ایک جان دو قالب نہیں بلکہ دو جان ایک قالب۔ سندیپ کمار نے اپنی اردھانگنی کے سامنے خود کو آدھا انگ سمجھنے سے دست برداری اختیار کی اور حقیقی و ابدی مسرت کا راز پالیا۔ محبت کی شادی کو ابھی محض چار سال گزرے ہیں اور ازدواجی زندگی کے برگد کی چھاؤں تلے سندیپ کمار کو ''نروان‘‘ بھی ''پراپت‘‘ ہوگیا!
اِس دنیا میں اگر کسی کو کچھ ملتا ہے تو جُھکنے پر، نرمی اختیار کرنے پر۔ میر انیسؔ بھی یہی فارمولا بیان کرگئے ہیں ؎
بداصل تکبر کے سُخن کہتے ہیں اکثر
جو صاحبِ جوہر ہیں جُھکے رہتے ہیں اکثر
میر انیسؔ کا سُجھایا ہوا فارمولا سندیپ کمار نے دانتوں سے پکڑلیا۔ اُنہوں نے سوچا جب جُھکنا ہی ٹھہرا تو پھر کیوں نہ بیوی کے سامنے جُھکا جائے۔ اِس جُھکنے میں کامیابی ہی کامیابی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ جو ''صاحبِ حکمت‘‘ ہیں وہ بیوی کے سامنے اکثر جُھکے رہتے ہیں! جوشؔ ملیح آبادی نے بھی کچھ ایسی ہی بات کسی اور تناظر میں کہی تھی ؎
فکر ہی ٹھہری تو دِل کو فکرِ خُوباں کیوں نہ ہو
خاک ہونا ہے تو خاکِ کوئے جاناں کیوں نہ ہو!
ہوسکتا ہے سندیپ کمار نے علامہ اقبالؔ کا یہ شعر بھی سُن رکھا ہو کہ ؎
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
اِس دنیا میں نامعلوم زمانوں سے یہی تو ہوتا آیا ہے۔ ازدواجی زندگی کا سُکھ قائم و دائم رکھنے کے لیے بے چارے شوہر کسی بھی حد تک چلے جاتے ہیں۔ سندیپ کمار جیسے لوگ علامہ کے اِس شعر کی بھی عملی یعنی چلتی پھرتی تعبیر بن کر سامنے آتے ہیں ؎
مِٹادے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہے
کہ دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار ہوتا ہے!
گھر کے سُکھ شانتی کی خاطر اتنا بھی نہ کیا تو پھر کیا جیا! شریف آدمی کے پاس اِس کے سوا کوئی آپشن بھی تو نہیں ہوتا۔ سندیپ کمار نے اچھا کیا کہ ریتو جی کے پیر چُھوکر جان چُھڑالی۔ ایسا نہ کرتے تو وہ روز تارے چُھونے کی فرمائش کیا کرتیں۔
بیویوں کا اپنا ذہن اور اپنی دُنیا ہوتی ہے۔ اگر وہ مَننے پر آئیں تو ایک ذرا سے پیر چُھونے سے بھی مَن جائیں۔ اور اگر طے کرلیں کہ گھاس نہیں ڈالنی تو پھر اگر شوہر اُڑکر بھی دکھادیں تو کہیں گی، ''بس رہنے دو، اِس میں کمال کیا ہے؟ کیڑے مکوڑے بھی تو اُڑتے پھرتے ہیں! اور ہاں، ٹیڑھے کیوں اُڑ رہے تھے؟‘‘
محبت کی شادیاں عام طور پر زیادہ کامیاب نہیں رہتیں۔ پریمی جوڑے شادی کے بندھن میں بندھنے سے قبل ایک دوسرے کی خوبیوں اور خامیوں سے اچھی طرح واقف ہوتے ہیں۔ یعنی دونوں کو اچھی طرح اندازہ ہوتا ہے کہ کب کب صورت حال سے کس طور فائدہ اٹھانا ہے! اِس معاملے میں بھی بیوی ہی زیادہ فائدے میں رہتی ہے۔ محبت کا دامن تھام کر گھر میں قدم رکھنے والی بیوی ہر معاملے میں شوہر کے کَس بَل کر نکال کر دم لیتی ہے۔ محبت کی شادی والا شوہر زندگی کے دیگر تمام دُکھڑوں کو بُھلاکر رُوٹھی ہوئی بیوی کو منانے ہی میں خرچ ہوجاتا ہے ؎
کچھ میں ہی جانتا ہوں جتن میں نے جو کیے
اُن کی جبیں کا کِتنی مَشقّت سے بَل گیا!
سندیپ کمار نے ایک طرف تو اپنے گھر کا ماحول خوشگوار بنا رکھا ہے۔ دوسری طرف قلمدان بھی مضبوط کرلیا ہے۔ تیسری بات یہ کہ اُنہوں نے محبت کی شادی کرنے والوں کو اشاروں ہی اشاروں میں بتادیا ہے کہ دیکھو، شادی کے بعد یہ سب کچھ ہوگا۔ اگر کرسکتے ہو تو ٹھیک ورنہ ساحرؔ لدھیانوی کے فارمولے پر عمل کرو ع
چلو، اِک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں