"MIK" (space) message & send to 7575

کام تو چل ہی رہا ہے!

دُنیا بھر میں لوگ اپنی اولاد کو اچھی تعلیم سے بہرہ مند کرنے کے لیے خدا جانے کیا کیا جتن کرتے ہیں۔ بہت سے تو ایسے ہیں جو بچوں کی بہتر تعلیم کے لیے اپنی کئی خواہشوں کا گلا گھونٹ دیتے ہیں۔ اُن کی خواہش بس اِس قدر رہ جاتی ہے کہ اُن کی اولاد خوش رہے، بہتر زندگی بسر کرے۔ مگر افسوس کہ اب نئی تحقیق نے اُن کی ساری محنت پر پانی پھیر دیا ہے۔
برطانوی ماہرین تعلیم نے خوشی خوشی بتایا ہے کہ اچھی تعلیم کا لازمی نتیجہ خوش و خرم زندگی نہیں ہوا کرتی۔ ہیلتھ سروے آف انگلینڈ کا 2010ء اور 2011ء کا ڈیٹا کھنگال کر یونیورسٹی آف واروک کی ایک ٹیم نے ''انکشاف‘‘ کیا ہے کہ کمتر معیار کی یعنی عمومی سی تعلیم پانے والوں کی زندگی میں رنجشیں بہت ہوتی ہیں مگر اب تک کسی بھی طور یہ ثابت نہیں کیا جاسکا کہ جو لوگ اچھی یا بہتر تعلیم پاتے ہیں وہ لازمی طور پر ہر طرح کی رنجشوں سے پاک زندگی اور خوش و خرم زندگی بسر کرتے ہیں۔
واروک اینڈ ایڈنبرگ مینٹل ویل بیئنگ اسکیل کی بنیاد پر مرتب کی جانے والی رپورٹ میں پروفیسر سارہ اسٹوارٹ براؤن نے یہ ''حیرت انگیز‘‘ انکشاف کیا ہے کہ کسی بھی مشہور ادارے سے بہتر تعلیم پانے والوں کی زندگی میں استحکام، توازن اور مسرت کا پایا جانا لازم نہیں۔ سارہ اسٹوارٹ براؤن نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ برطانیہ میں آج بھی وہ لوگ زیادہ معیاری یعنی رنجشوں سے پاک اور خوشیوں سے چھلکتی ہوئی زندگی بسر کر رہے ہیں جن کا تعلق معاشی و معاشرتی اعتبار سے قدرے پس ماندہ اقلیتی برادریوں سے ہے۔ اِن میں افریقی نسل سے تعلق رکھنے والوں اور جزائر غرب الہند (ویسٹ انڈیز) کے باشندوں کے علاوہ پاکستان اور بھارت سمیت جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شامل ہیں۔
ہمیں حیرت ہے کہ جو راز ہم نے صدیوں پہلے پالیا تھا وہ مغربی دُنیا کے ماہرین کے ذہنوں کے افق پر اب طُلوع ہوا ہے۔ اور اگر کوئی صدیوں والی بات نہ مانے تو پاکستان کے 68 برس کا کچّا چٹّھا ہی دیکھ لے۔ اور پھر اگر وہ (اپنے) دانتوں تلے (اپنی) انگلیاں نہ داب لے تو ہمارا ذِمّہ۔ کیا پاکستان اِس بات کی جیتی جاگتی مثال نہیں کہ تعلیم کا پُرمسرّت زندگی سے کوئی تعلق نہیں؟ اور سچ تو یہ ہے کہ ہم نے ثابت کردیا ہے کہ پُرمسرّت زندگی کے لیے باضابطہ اور مربوط تعلیم سے دور رہنا ناگزیر ہے!
علم، دانش، حکمت، آگہی، شعور ... یہ وہ عِلّتیں ہیں جنہیں ہم عشروں پہلے اپنی زندگی سے ''دیس نکالا‘‘ دے چکے ہیں۔ اور اب، ظاہر ہے، خیر سے آرام ہی آرام ہے اور راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ رہے نام اللہ کا۔
سوچنے والوں کا پُرمسرّت زندگی سے کم ہی تعلق رہا ہے۔ یہ ''سوچاں نئیں تے موجاں ای موجاں‘‘ والا معاملہ ہے۔ نریش کمار شادؔ بھارت کے معروف شاعر تھے۔ اُن کی زندگی میں شادمانی کم تھی اِس لیے اُنہوں نے تخلّص کے ذریعے دِل کے ارمانوں کو مکمل طور پر آنسوؤں میں بہنے سے روک لیا۔ یا اگر بہہ بھی گئے تھے تو اِس حقیقت پر پردہ ڈال دیا! نریش کمار شادؔ نے ایک شعر میں پوری زندگی کا فلسفہ یُوں سمویا ہے کہ جو شے کی حقیقت کو دیکھنے والی آنکھ رکھتا ہو وہ داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ وہ کہتے ہیں ؎
اے ہم نشیں! اذیّتِ فرزانگی نہ پوچھ
جس میں ذرا بھی عقل تھی، دیوانہ ہوگیا!
حقیقی مسرّت کا راز یا فارمولا کیا ہے؟ یہی کہ زیادہ مت سوچو۔ جو سوچتا رہ جاتا ہے وہ بس سوچتا رہ جاتا ہے۔ اِس دنیا میں مزے اُنہی لوگوں کے ہیں جن کا سوچنے سے کچھ خاص تعلّق نہیں۔ ہم نے اب تک یہی دیکھا ہے کہ جس نے کچھ سوچنے، سمجھنے، سیکھنے اور باضابطہ زندگی بسر کرنے کی کوشش کی وہ تاریک راہوں میں مارا گیا۔ ہر شعبہ اِس بات کا گواہ ہے کہ اچھی تعلیم و تربیت پانے والے حقیقی مسرّت سے دور، بلکہ محروم رہتے ہیں‘ اور جو لوگ کچھ سیکھنے اور سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے اُن کی زندگی میں خوشیاں ناچتی اور پھدکتی پھرتی ہیں۔
کون سا شعبہ ہے جس نے باضابطہ سیکھنے یعنی رسمی تعلیم و تربیت پانے والوں کو ناکام ثابت نہیں کیا؟ تعلیم ہی کی مثال لیجیے۔ جو بہتر رسمی تعلیم پاتے ہیں اُن کی کامیابی کی حد یہ ہے کہ مزید تعلیم دینے کے قابل رہ جاتے ہیں! اور جو تعلیم پانے کی زحمت گوارا نہیں کرتے وہ تیزی سے کامیابی کی نئی بلندیوں کو چھوتے رہتے ہیں۔
ذرا موسیقی اور بالخصوص گلوکاری کی دنیا پر نظر دوڑائیے۔ باضابطہ سیکھنے والے بے سُرے ہوکر گمنامی کے گڑھے میں گِر جاتے ہیں اور شوقیہ گانے والے بھلے ہی ڈھنگ سے دو سُر نہ لگا پائیں مگر شہرت اور دولت اُنہی کے قدم چُومتی رہتی ہیں! نثار بزمی مرحوم نے ہمیں بتایا تھا کہ احمد رُشدی مرحوم کے فن میں چند خامیاں تھیں۔ کئی بار کہا کہ تھوڑی توجہ دو، کچھ سیکھ لو مگر وہ راضی نہ ہوئے اور بس گاتے ہی رہے۔ ہم سمجھتے ہیں انہوں نے اچھا کیا کہ بزمی صاحب کا کہا نہ مانا۔ جو تھوڑا بہت فن اُن کے پاس تھا وہ اگر سیکھنے کے عمل میں ضائع ہو جاتا تو ذمہ دار کون ہوتا! بزمی صاحب تو اِتنے بڑے موسیقار تھے کہ اُن کی طرف انگلی اُٹھانا بھی احمد رشدی کے لیے ممکن نہ ہوتا! اِس سے یہ اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے کہ احمد رشدی اپنے شعبے اور اِس ملک کے مزاج کو کس حد تک سمجھتے تھے یعنی ''ماہرِ عمرانیات‘‘ بھی تھے!
یہی حال اداکاری کا ہے۔ جو اداکاری کی باضابطہ تربیت پاتے ہیں وہ بالعموم اداکاری کے ''اسرار و رموز‘‘ سِکھانے ہی کے قابل رہ جاتے ہیں! اور اگر اداکاری میں دانشوری کی آمیزش ہوجائے تو اچھے خاصے ضیاء محی الدین کو بھی محض انتظامی افسر بناکر دَم لیتی ہے!
اداکاری ہو یا شوبز کا کوئی اور شعبہ، کامیاب وہی رہتے ہیں جو تعلیم میں کچّے رہے ہوں یعنی اپنا ذہن ''اپلائی‘‘ کرنے کی بیماری میں مبتلا نہ ہوں۔ جو کچھ ڈائریکٹر نے کہہ دیا بس وہی کچھ کرنے پر کامیابی ملتی ہے۔
کرکٹ ایک ایسا شعبہ ہے جس میں کسی سے باضابطہ تربیت نہ پانے والے زیادہ کامیاب رہے ہیں۔ جو کرکٹ کی مستند ترین کتابوں کے مطابق کھیلتے ہیں یعنی کتابی و نصابی کرکٹ کے ماہر ہوتے ہیں اُنہیں ناکامی بہت جلد book کرلیتی ہے! گلیوں میں اور سڑکوں پر اپنی مرضی اور رجحان کے مطابق کھیل کر قومی ٹیم میں آنے والے کرکٹ میں گلی ڈنڈے کا ''فلیور‘‘ شامل کرکے داد ہی نہیں مال بھی پاتے ہیں!
دور کیوں جائیے، لکھنے ہی کو شعبے کو لیجیے۔ ہمارا مشاہدہ ہے کہ تجارتی نقطۂ نگاہ سے وہی لوگ زیادہ اور اچھا لکھ پاتے ہیں جو کہیں سے لکھنے کی باضابطہ تعلیم یا تربیت نہیں پاتے۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ اگر کوئی کامیاب رائٹر کسی کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے لکھنے کی باضابطہ تربیت پانے پر مائل ہو تو اُس کی تحریر سے ''حسن‘‘ اور ''تاثیر‘‘ دونوں کا بوریا بستر گول ہو جاتا ہے! ہماری (یعنی ہماری اپنی) کالم نگاری اور شاعری بھی اب تک باضابطہ تربیت نہ پانے والے فارمولے کے تحت جیسے تیسے چلتی آرہی ہے۔ جو برائے نام تاثیر پائی جاتی ہے اُس سے محروم ہونے کے خوف ہی سے ہم نے اب تک کہیں زانوئے تلمّذ تہہ کرنے کی کوشش نہیں کی! جو کچھ ذہنوں میں آتا ہے لِکھ کر پڑھنے اور سُننے والوں کے سامنے دَھر دیتے ہیں۔ اب اُنہیں جو ملے وہ اُن کا نصیب!
بعض حالات میں پڑھے لکھے بے چارے بے موت مارے جاتے ہیں۔ اُن کی ساری خوشیاں تعلیم یافتہ ہونے کی نذر ہوجاتی ہیں۔ کسی محکمے یا ادارے میں اگر سفارشی اور نا اہل بھرے ہوں تو کام چند پڑھے لکھوں ہی کو کرنا پڑتا ہے۔ یعنی ع
اُس کو چُھٹّی نہ ملی جس کو سبق یاد ہوا!
پورے معاشرے میں پڑھے لکھوں کی قدر بھلے ہی نہ ہو، نااہلوں سے بھرے ہوئے دفاتر میں چند پڑھے لکھے بہت کام کے ہوتے ہیں۔ سارا کام اُنہی سے لیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے ایسے میں اُن کی زندگی ہر طرح کی خوشیوں سے محروم رہ جاتی ہے۔ ہمارا خیال ہے پروفیسر سارہ اسٹوارٹ براؤن اور اُن کے ساتھیوں کی تحقیق اِسی نُکتے کی بُنیاد پر ہے!
صد شکر کہ ہم ایسی کسی تحقیق کے پھیر میں نہیں پڑتے۔ کام تو چل ہی رہا ہے، پھر کیا ہے!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں