"MIK" (space) message & send to 7575

ہاضمے کا چُورن!

کرنے کو اور بھی بہت کچھ ہوگا مگر مغل شہنشاہ شاہ جہاں کو پتا نہیں کیا سُوجھی کہ تاج محل بنا ڈالا۔ مگر خیر، اچھا ہی کیا۔ مغلوں نے اور کچھ دیا ہو یا نہ دیا ہو، یادگار عمارتیں ضرور دی ہیں۔ ان عمارتوں کو دیکھ کر آج بھی لوگ دنگ رہ جاتے ہیں۔ لاہور میں شاہی قلعہ، شالامار باغ اور بادشاہی مسجد مغلوں کی عظمت کے درشن کرانے کے لیے کافی ہیں۔
تاج محل کو دنیا والے محبت کی نشانی، دِل کی آنکھ سے ٹپکا ہوا آنسو اور خُدا جانے مزید کیا کیا قرار دیتے ہیں۔ کہتے ہیں جو پہلی بار تاج محل کو دیکھتا ہے، کچھ دیر کے لیے مبہوت سا ہوکر رہ جاتا ہے۔ اور کیوں نہ ہو؟ اِس عمارت کا جادو ہے ہی ایسا کہ سَر چڑھ کر بولتا ہے۔ دن کی بھرپور دھوپ میں یہ عمارت کچھ اور دکھائی دیتی ہے اور چودھویں کے چاند کی روشنی میں اِس عمارت کا شباب کچھ اور ہی ہوتا ہے۔
ابن انشاء نے درست لکھا ہے کہ شاہ جہاں تاج محل بناکر نہ گیا ہوتا تو بھارت میں وزارتِ سیاحت والے کیلینڈر اور بروشرز وغیرہ پر کس چیز کی تصویر چھاپتے!
ساحرؔ لدھیانوی نے تاج محل کو خالص نظریاتی نظر سے دیکھا۔ اِس عمارت کے حُسن کو سراہنے کے بجائے وہ سرمایہ دارانہ نظام کی خرابیاں ٹٹولنے لگے اور پھر اپنے محبوب کو مشورہ دیا کہ ملاقات کے لیے تاج محل مناسب نہیں۔ ملنے کے لیے کوئی اور مقام متعین کیا جانا چاہیے! ساحرؔ کے نزدیک تاج محل مزدوروں کے استحصال اور جبر و تسلّط کی علامت ہے۔ سوال نظر ہی نہیں، نظریے کا بھی ہے۔ لوگ چودھویں کے چاند کو دیکھ کر اُس کے حُسن سے مسحور ہو جاتے ہیں۔ بُھوکا دیکھے تو اُسے چودھویں کا چاند بھی روٹی جیسا دکھائی دے گا!
ساحرؔ بہت بڑے شاعر تھے۔ اُن کی رائے سے اختلاف کرنے کے لیے بھی خاصی ہمت درکار ہے۔ ہم بہت احترام کے ساتھ عرض کریں گے کہ ساحرؔ نے تاج محل کے بارے میں جو رائے دی وہ بہت حد تک ہندو ذہنیت سے متاثر تھی۔ بہت سے ہندو آج تک مغلیہ عہد کی دوسری بہت سی عمارتوں کی آج تک تاج محل کو بھی ہضم نہیں کر پائے ہیں۔ یہ عظیم عمارت آج بھی لاکھوں بلکہ کروڑوں ہندوؤں کے گلے میں ہڈی بن کر پھنسی ہوئی ہے اور ہندو تنگ نظری کے سینے میں خنجر کی طرح گڑی ہوئی ہے۔ ہر پندرہ بیس سال کے بعد انتہا پسند اور تنگ نظر ہندوؤں کے دِلوں میں ہَول سا اُٹھتا ہے اور وہ تھوڑی بہت تیاری کرکے عدالت کا رُخ کرتے ہیں۔ اُن کا دعوٰی یہ ہے کہ جس جگہ تاج محل تعمیر کیا گیا تھا وہاں شیو جی کا مندر تھا۔ اِس دعوے کو ثابت کرنے کے لیے وہ بہت دور کی کوڑیاں لاتے ہیں۔ ماضی کی کتابیں کھنگالتے ہیں اور ایسی ایسی تھیوریز پیش کرتے ہیں کہ اِنسان سُن کر سُنّ رہ جاتا ہے۔
آج کل لکھنؤ کی ایک سول کورٹ میں ہری شنکر جین اور اُن کے ساتھیوں کا دائر کیا ہوا مقدمہ زیر سماعت ہے۔ ہری شنکر جین کا دعویٰ ہے کہ جہاں آج تاج محل ایستادہ ہے وہاں اگریشور ناتھ مہادیو کا مندر اپنی بہار دکھایا کرتا تھا۔ مقدمے کا خلاصہ یہ ہے کہ 1195 عیسوی میں اِس علاقے پر راجا پرماردی دیو کی حکومت تھی۔ 1888ء میں محکمہ آثار قدیمہ نے آگرہ سے ڈیڑھ سو کلو میٹر دور ایک مقام پر کھدائی کی تو ایک بڑی حجری تختی ملی جس پر سنسکرت میں راجا پرماردی دیو کا تذکرہ تھا۔ یہ حجری تختی آج کل لکھنؤ کے عجائب گھر میں رونق افروز ہے۔ اِس حجری تختی پر ایک ویشنو اور ایک شیو مندر کا تذکرہ ہے۔ اور یہ کہ شیو مندر سُلکشنا دیوی کے بیٹے پُروشوتّما نے تعمیر کرایا تھا۔ البتہ یہ واضح نہیں کہ مندر کہاں تعمیر کرایا گیا تھا۔ حجری تختی پر اِتنا ضرور مذکور ہے کہ شیو مندر چاند کی طرح چمکتا تھا۔ بس، اِس ایک جملے سے تنگ نظر ہندوؤں نے یہ نتیجہ اخذ کرلیا کہ شیو مندر کو مُغلوں نے تاج محل کی شکل دے دی۔
6 مئی 2015ء کو وزارتِ داخلہ، وزارتِ ثقافت اور آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کو لکھنؤ کی سول کورٹ میں جواب داخل کرنا ہے۔ اِس جواب کی بنیاد پر طے ہوگا کہ تاج محل جس مقام پر ایستادہ ہے وہاں کبھی کوئی شیو مندر تھا یا نہیں۔
علاقے کی تاریخ بتاتی ہے کہ پرماردی دیو اور اُن کے خاندان کے لوگ کالنجر اور مہوبا کے علاقے پر حکومت کیا کرتے تھے۔ پرماردی دیو نے 1165ء میں راج سنگھاسن سنبھالا تھا۔ وہ پرتھوی راج چوہان کا شدید مخالف تھا اور اُس سے جنگ بھی لڑی تھی۔
1202 عیسوی میں راجا پرماردی دیو کے علاقے پر قطب الدین ایبک نے حملہ کیا اور راجا پرماردی دیو نے کچھ ہی دنوں میں شکست تسلیم کرلی۔
چند انتہا پسند ہندو عدالت میں میدانِ جنگ سجاکر راجا پرماردی دیو اور دوسرے بہت سے حکمرانوں کی شکست کو فتح میں تبدیل کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔
تاج محل کی پوری عمارت خالص اسلامی طرزِ تعمیر کا نمونہ ہے۔ محبت کے اظہار کی اِس عظیم نشانی میں کہیں کوئی ایک گوشہ بھی ایسا نہیں جو ہندو ثقافت کی نمائندگی کرتا ہو یا دیکھنے والے کے ذہن کو کسی اور طرف لے جانے کی کوشش کرتا ہو۔
بابری مسجد کے بارے میں بھی یہی کہا گیا تھا کہ وہ مندر توڑ کر بنائی گئی تھی۔ یہی دعوٰی تاج محل کے بارے میں بھی کیا جاتا ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ اگر اُس دور کے مسلم حکمرانوں نے اپنی کوئی عمارت قائم کرنے کے لیے مندر منتخب کرکے اُسے ڈھایا تھا تو اُس دور کے سارے ہندو کیا چُوڑیاں پہن کر بیٹھے ہوئے تھے؟ اگر کسی بڑے مندر کو گِرانے کا معاملہ ہوا ہوتا تو کیا لاکھوں ہندو کھڑے نہ ہوگئے ہوتے؟ ایسا تو ممکن ہی نہیں کہ کسی علاقے پر قبضہ کرکے وہاں کے معبد گرائے جائیں اور مقامی آبادی کوئی ردعمل ہی ظاہر نہ کرے۔ اور لطف کی بات یہ ہے کہ انتہا پسند ہندو مسلم حکمرانوں پر مندر گراکر مسجد، مزار یا قلعہ بنانے کا الزام تو عائد کرتے ہیں مگر اِس کا ثبوت وہ اُس دور کے ہندوؤں کی کتب سے بھی نہیں دے پاتے۔ جس دور میں مندر گرانے کا دعویٰ کیا جاتا ہے اُس دور کے ہندو علماء کی کتب میں مسلم حکمرانوں کی طرف سے کسی بڑے مندر کو گراکر مسجد یا مزار وغیرہ بنانے کا ذکر تک نہیں ملتا۔
اگر واقعی ایسا ہے تو انتہا پسند ہندو بار بار مغلیہ عہد کی عمارتوں کے بارے میں اُلٹے سیدھے دعوے لے کر کیوں کھڑے ہوجاتے ہیں؟ یہ اُن کے اور اُن جیسے دوسرے کروڑوں ہندوؤں کے لیے ہاضمے کا چُورن ہے! اگر تاج محل نہیں گراسکتے تو چلیے، عدالت میں اُس کے خلاف مقدمہ ہی دائر کردیجیے۔ میڈیا میں کچھ دن نام اُچھلے گا اور ہم خیال افراد کے من کو بھی تھوڑی بہت شانتی اوشیہ ملے گی!
شاہ جہاں نے تاج محل بناکر جمنا کے ایک کنارے کو عظمت بخشی تھی مگر تنگ نظر ہندو شاہ جہاں کی وسیع النظری سے کنارا کرنا چاہتے ہیں۔ دریائے جمنا کی شان بڑھانے والی اِس عظیم عمارت کے وجود سے انکار کرکے بعض تنگ نظر اپنے دل کو سُکون عطا کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بالکل پاکستان جیسا معاملہ ہے۔ جن کے دل انتہائی تنگ ہیں اُنہوں نے آج تک پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کیا۔ جس طرح بہت سے ہندو تاج محل کو تسلیم نہ کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ اُس کا وجود مِٹ گیا بالکل اِسی طرح بہت سے تنگ نظر ہندو پاکستان کو دیکھ کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرلیتے ہیں اور یہ سمجھ کر خوش ہولیتے ہیں کہ اب بِلّی کا وجود نہیں رہا!
عظمت اِس اَمر میں پوشیدہ ہے کہ حقیقت کو تسلیم کیا جائے۔ مغلیہ دور ہندوستان کی سیاسی، علمی اور ثقافتی ساخت کا جُزوِ لاینفک ہے۔ جب تک ہندو ذہن مغلیہ دور کو قبول نہیں کرے گا، ہندوستان کی تاریخ مکمل نہیں ہوگی۔ بابری مسجد کو مٹانے سے تاریخ بدل نہیں گئی۔ اِسی طور تاج محل کو تسلیم نہ کرنے سے بھی تاریخ نہیں بدلے گی۔
یہ زمانہ مقدمے دائر کرنے اور فلمیں بناکر تاریخ بدلنے کا نہیں بلکہ ایک دوسرے کو کھلے دِل سے تسلیم کرکے آگے بڑھنے کا ہے۔ ہندو ذہنیت کو ڈھائی ہزار سال پہلے کی تنگ نظری کے غار سے نکلنا ہوگا۔ ایسا نہ کیا گیا تو شہاب الدین شاہ جہاں کی جگہ شہاب الدین غوری آتے رہیں گے۔ اور شہاب الدین غوری اپنے دشمنوں کو تاج محل جیسے تحائف نہیں دیا کرتے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں