"MIK" (space) message & send to 7575

دُکھ بھلانے کا آسان نسخہ!

دُنیا اگر چاہے تو دیکھ اور پَرکھ سکتی ہے کہ پاکستانیوں سے زیادہ کوئی بھی ''مساوات پسند‘‘ نہیں۔ ہم ہر معاملے میں ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے اور ایک جیسا ہوکر چلنے کے قائل ہیں۔
کسی بھی واقعے پر جو ردعمل عمومی سطح پر ظاہر کیا جاتا ہے وہی کسی بھی قوم کی عمومی فکر کا عکاس ہوا کرتا ہے۔ ہمارے ہاں کسی بھی معاملے میں فوری اور عمومی ردعمل ہی سے کوئی بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ ہمیں سب سے زیادہ فکر ''مساوات‘‘ کی لاحق رہتی ہے۔ اگر امریکہ میں بجلی چلی جائے تو لوگ توانائی کے محکمے والوں کو فون کرکے شکایت درج کراتے ہیں۔ جاپان میں بجلی چلی جائے تو لوگ سب سے پہلے گھر میں فیوز چیک کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں معاملہ یہ ہے کہ بجلی چلی جائے تو لوگ فوراً گھر سے باہر نکل کر دیکھتے ہیں کہ صرف اُن کی بجلی گئی ہے یا پُورے علاقے کی۔ اور اگر پُورے علاقے کی بجلی غائب ہو تو سُکون کا سانس لیتے ہوئے گھر میں واپس آجاتے ہیں! اگر کسی ایک گھر کی بجلی گئی ہو تو اُس کے مکین شدید پریشانی سے دوچار رہتے ہیں۔ پریشانی اپنی بجلی کے جانے سے زیادہ اِس بات کی ہوتی ہے کہ دوسروں کی بجلی کیوں آرہی ہے!
ایک صاحب نے ایس ایم ایس بھیجا کہ جہنّم میں کئی بڑے بڑے کنویں تھے۔ ہر کنویں پر پہرے دار بیٹھا تھا۔ پہرے دار بٹھانے کا مقصد یہ تھا کہ عذاب سہنے والوں میں سے اگر کوئی کسی طور اوپر آکر کنویں سے نکل بھاگنا چاہے تو اُسے روک دیا جائے، واپس کنویں میں پھینک دیا جائے۔ ہر کنواں کسی نہ کسی ملک سے منسوب تھا۔ ایک کنویں پر ''پاکستان‘‘ لکھا تھا اور اُس پر کوئی پہرے دار متعین نہ تھا۔ پوچھا گیا کہ ایسا کیوں ہے؟ کیا اِس کنویں میں کوئی عذاب نہیں سہہ رہا؟ جواب ملا: ''عذاب سہنے والے تو اِس کنویں میں خیر سے بہت ہیں۔ پہرے دار بٹھانے کی ضرورت اِس لیے نہیں کہ اگر کوئی اوپر آنے لگتا ہے تو باقی لوگ اُس کی ٹانگ کھینچ لیتے ہیں! ایسے میں ڈیوٹی لگاکر ایک بندے کی خدمات کیوں ضائع کی جائیں!‘‘
دُنیا بھر میں یہ ہوتا ہے کہ جب کسی کو کچھ ملتا ہے تو لوگ سوچتے ہیں کہ کاش اُنہیں بھی مل جائے اور پھر یہ سوچ یا خواہش تحریک کی شکل اختیار کرتی جاتی ہے اور وہ بھی محنت کے ذریعے اُس چیز کا حصول یقینی بنانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ کامیابی کا ''معلوم ترین‘‘ طریقہ یہی ہے۔ ہمارے ہاں چونکہ ہر معاملے میں کچھ نہ کچھ نیا اور انوکھا کرنے کا جذبہ پایا جاتا ہے اِس لیے کامیابی کے معاملے میں بھی انوکھے اُصول پائے جاتے ہیں۔ کسی کے پاس کچھ دیکھ کر پہلے تو یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ کاش وہ چیز ہمیں بھی مل جائے۔ معاملہ خواہش تک رہتا ہے یعنی کوشش تو کی نہیں جاتی۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ چیز حاصل نہیں ہو پاتی۔ یہ کیفیت اِنسان کے دِل و دِماغ کو ہلاکر رکھ دیتی ہے۔ اگلے مرحلے میں خواہش بدل جاتی ہے۔ اب خواہش یہ نہیں ہوتی کہ وہ چیز حاصل ہو بلکہ تمنّا یہ ہوتی ہے کہ وہ چیز کسی اور کے پاس بھی دکھائی نہ دے۔ ع
تو اگر میری نہیں ہوتی تو اُس کی بھی نہ ہو
محنت دنیا بھر میں کی جاتی ہے اور جس سے محبت کی جاتی ہے اُسے زندگی کا حصہ بنانے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔ بات بن گئی تو ٹھیک ورنہ اپنی اپنی راہ لی جاتی ہے۔ دیکھا آپ نے؟ دُنیا والوں نے کتنا سیدھا سا اُصول اپنا رکھا ہے؟ یعنی جس سے محبت کی جائے اُس کا حصول ممکن نہ ہو تو کوئی بات نہیں۔ ع
تو نہیں اور سہی، اور نہیں اور سہی
ہم چونکہ سادگی کے قائل نہیں بلکہ اُس کے ساتھ پُرکاری کا دُم چَھلّا لازمی طور پر لگاتے ہیں اِس لیے محبت کو بھی ہم نے عبرت ناک معاملات کی فہرست میں ڈال رکھا ہے۔ محبت کے معاملے میں ون وے ٹریفک کا اُصول اپنایا جاتا ہے۔ جس سے محبت کی جاتی ہے اُسے تو اندازہ بھی نہیں ہوتا کہ اُس سے محبت کی جارہی ہے۔ جب دل پر قابو نہیں رہتا تو رشتہ مانگا جاتا ہے۔ اب اگر رشتہ مل گیا تو کیا کہنے۔ اور اگر انکار ہوا تو سمجھ لیجیے کہ بَتّیاں گُل ... اور اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ یہ اندھیرا صرف ایک فریق کے لیے نہیں ہوتا۔ جو محبت میں ناکامی سے دوچار ہو وہ تو خیر برباد ہوگا ہی مگر وہ بربادی تنہا نہیں چاہتا۔ رشتے سے اِنکار پر وہ لڑکی کے چہرے ہی کو بگاڑ دینے پر تُل جاتا ہے تاکہ اُسے کوئی اور بھی نہ اپناسکے! جو لڑکے محبت میں ناکام ہونے پر تیزاب پھینک کر لڑکی کے چہرے کو بدنما بنانے پر تُل جاتے ہیں وہ اپنی اِس حرکت سے یہ ثابت کر رہے ہوتے ہیں کہ وہ صرف چہرے پر مَر رہے تھے، محبّت وحبّت دُور دُور تک نہیں تھی! جب معاملہ صرف صُورت پر مرنے کا ہو تو ''سیرت‘‘ کے غار سے ایسی ہی ''روشنی‘‘ پُھوٹا کرتی ہے!
تیزاب پھینکنے کی ذہنیت محض لڑکیوں کے چہروں تک محدود نہیں۔ ہم ہر معاملے میں اِس ''نظریے‘‘ کے قائل ہیں کہ اگر ''سنگ دِل محبوب‘‘ آسانی سے قدموں میں نہ آئے تو محبوب کو اِس قابل چھوڑا ہی نہ جائے کہ وہ کسی اور کی زندگی میں رونق میلہ لگاسکے! اگر کوئی خوشی ہماری نہیں ہوسکتی تو پھر وہ کسی اور بھی نہیں ہوسکتی۔ یہ کیا بات ہوئی کہ ہم ترستے رہ جائیں اور خوشیوں کی پَریاں ہمارے پڑوس کے آنگن میں اُتریں اور جُھوم جُھوم کر ناچیں گائیں! یہ تو سراسر ناانصافی ہے، ظلم ہے۔ اور ایسا ''ظلم‘‘ کسی صورت برداشت نہیں کیا جاسکتا!
معاشرے کی عمومی روش یہ ہے کہ لوگوں کو اپنی کامیابی سے زیادہ اِس بات کی فکر لاحق رہتی ہے کہ دوسرے کامیاب ہو پائیں گے یا نہیں۔ اور اِس سے بھی بڑھ کر یہ کہ کہیں کامیاب تو نہیں ہوجائیں گے ناں! اپنی ناکامی کے گمان سے کہیں زیادہ توجہ یہ جاننے پر صرف کی جاتی ہے کہ دوسروں کی ناکامی تو یقینی ہے ناں! بس اِس کا یقین ہوتے ہی دِل کو یک گونہ قرار سا آجاتا ہے۔ چار پانچ دوست مل کر کسی ترقی یافتہ ملک کے ویزے کے لیے درخواست دیں اور اگر سب کی درخواستیں مسترد کردی جائیں تو کسی کو دُکھ نہیں ہوتا! دِل کے ایک کونے میں یہ سُکون بسا رہتا ہے کہ چلو، کسی کا بھی کام نہ ہوا! اگر کسی ایک کو ویزا مل جائے تو اُسے ہاتھ سے جاتا دیکھ کر سب کا دِل کُڑھتا ہے کہ اب وہ ''ہم‘‘ میں سے نہیں رہا! دوسروں کی ناکامی دیکھ کر اپنی ناکامی کے دُکھ کی شِدّت گھٹ سی جاتی ہے۔ قُدرت نے ہمارے دُکھ اور پریشانیاں کم کرنے کا کیسا اچھا اور سادہ ''میکینزم‘‘ رکھا ہے! دُنیا والے کیسے ''بے عقلے‘‘ ہیں کہ ہم سے کچھ ''سیکھنے‘‘ کی کوشش ہی نہیں کرتے!
پریشانی اور دُکھ دور کرنے کے لیے دُنیا والے کیا کیا جتن کرتے ہیں۔ اصلاحِ نفس کی تحریک پیدا کی جاتی ہے، نَفسی اُمور کے ماہرین سے مشورے لیے جاتے ہیں، مشوروں پر عمل کے ذریعے فِکر اور مزاج کی خامیاں اور کمزوریاں دور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ہم اِن ''تکلّفات‘‘ میں کیوں پڑیں؟ اپنی اصلاح کرنے بیٹھیے تو پتا نہیں کیا کیا داؤ پر لگانا پڑتا ہے۔ آسان سا حل یہ ہے کہ اپنے ماحول پر نظر دوڑائیے، دوسروں کو بغور دیکھیے اور اگر وہ بھی ہماری ہی طرح پریشانی سے دوچار ہیں تو پھر ہمارے دِل کو قرار آ ہی جانا چاہیے! ہر طرف دُکھ دیکھ کر دِل پُرسکون سا ہوجاتا ہے کہ ہم تنہا نہیں، ''شمعِ کُلفت‘‘ کے پروانے ہر طرف ہیں! دوسروں کو بھی اپنی ہی طرح پریشان پاکر دِل کی کلی (''بے فضول‘‘ میں) کِھل کِھل جاتی ہے ع
جیسے ویرانے میں چُپکے سے بہار آجائے!
کاش دُنیا والے دُکھوں اور پریشانیوں کو گھٹانے کے انوکھے نسخے سوچنے کے بجائے ہم سے ''مستفید‘‘ ہوں اور ہماری ہی طرح ہاتھ پیر ہلائے بغیر پُرسکون اور ''ٹھنڈی ٹھار‘‘ زندگی بسر کرنے پر مائل ہوں۔ چار دن کی زندگی میں سو طرح کے تجربات کرنے کی ضرورت کیا ہے؟ چند سانسیں ملی ہیں۔ رات دن محنت کیے جائیے تو اِن سانسوں کو انجوائے کب کیجیے گا!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں