محنت کرنے والوں کو اس دنیا میں بھرپور صلہ کب ملتا ہے؟ ہم ٹھہرے غیر ترقی یافتہ اور ''غیر مہذب‘‘ معاشرے جہاں محنت کش کو اس کی محنت کا پورا صلہ نہیں دیا جاتا مگر سچ یہ ہے کہ دنیا کے بہترین اصولوں اور قوانین سے آراستہ ترقی یافتہ معاشروں میں بھی ہاتھ سے کام کرنے والوں کا درجہ خاصا نیچا ہے۔ وہاں بھی مزے تو وائٹ کالر جاب کرنے والوں ہی کے ہیں۔ فرق وہاں بھی ہے مگر بدنام صرف ہم ہیں۔
برصغیر کے طول و عرض میں محنت کشوں اور کسانوں کا مقدر کم و بیش ایک سا ہے۔ ہمارے کسان ہوں یا پڑوسی ممالک کے، سب کے نصیب میں بے یقینی اور پریشانی ہی لکھی ہوئی ہے۔ بھارت سے کسانوں کے بارے میں انتہائی افسوس ناک خبریں آرہی ہیں۔ اتر پردیش، مہا راشٹر اور ہریانہ میں اس سال بھی سیکڑوں کسانوں نے موت کو گلے لگایا ہے۔ فصل خراب ہوجائے یا بہتر دام نہ ملیں تو بھارتی کسان کے پاس موت کو گلے لگانے کے سِوا چارہ نہیں رہتا۔ وہ قرض لے کر زمین جوتتا ہے۔ اگر فصل خراب ہوئی تو سمجھ لیجیے نصیب خرابی سے دوچار ہوگیا۔ قوانین سخت ہیں۔ بینک سے لیا ہوا معمولی سا قرضہ نہ اتارنا بھی کسان کا جینا حرام کردیتا ہے۔
دہلی میں عجیب قصہ ہوا۔ کسانوں نے اپنے حالات کی خرابی پر احتجاج کیا۔ لوگ جمع ہوئے۔ میڈیا والے بھی آگئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ڈی ایس این جیز کی لائن لگ گئی۔ کسانوں کا تو احتجاج تھا، لوگوں کو رونق میلہ ہاتھ لگ گیا۔ ایک کسان اونچے درخت پر چڑھ گیا۔ اس نے دھمکی دی کہ اگر اس کے مطالبات تسلیم نہ کئے گئے تو وہ جان دے دے گا۔ لوگ سمجھے یہ بھی حکومت یا انتظامیہ کو بلیک میل کرنے کا کوئی طریقہ ہے۔ کون اس طور مرتا ہے؟ سب کا یہ خیال تھا کہ کسان نے پی رکھی ہے یعنی نشا اترے گا تو یہ بھی ''شعلے‘‘ والے ویرو کی طرح اتر آئے گا۔ مگر جناب، کسان تو ہوش و حواس میں تھا اور اِسی حالت میں اس نے اونچے درخت کی بلند ترین شاخ پر پہنچ کر گلے میں پھندا ڈالا اور جُھول گیا!
کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ کسان تو واقعی ریالٹی شو والا منظر پیدا کردے گا۔ لوگ ایک لمحے تو حیران ہی رہ گئے۔ پھر شور اٹھا، ہاہا کار مچ گیا۔ دوڑو، پکڑو کی صدائیں بلند ہوئیں۔ مگر کسان کو کوئی کیسے پکڑتا؟ وہ زمین پر تو تھا نہیں کہ دوڑے اور پکڑلیا۔ سوال درخت پر چڑھنے کا تھا۔ کچھ لوگ درخت پر چڑھنے کی کوشش کرنے لگے۔ مگر یہ کوشش لاحاصل ثابت ہوئی۔ لوگ دیکھتے اور میڈیا والے رننگ کمنٹری کرتے رہ گئے۔ احتجاج کے لیے کسان نے راستہ ہی ایسا منتخب کیا تھا جس پر چل کر اسے پکڑنا ہر ایک کے بس کا معاملہ نہ تھا۔ جتنی دیر میں لوگ کسان کو اتارنے کا انتظام کرتے وہ بہت دور، بلکہ بہت بلندی پر جاچکا تھا! بے چارہ سب کی آنکھوں کی سامنے دم توڑ گیا۔
چمکتے دمکتے بھارت میں ایک اور کسان کی المناک موت۔ تحقیق و ترقی کی دوڑ میں مغرب کو منہ دینے کی باتیں کرنے والے اور مریخ کی تسخیر کے دعوے کرنے والوں کے منہ پر کسانوں کی خود کشی زنّاٹے دار تھپڑ نہیں تو اور کیا ہے؟ جھونپڑیوں میں رہنے والوں کے حالات سدھرنے کا نام نہیں لے رہا اور سرکار کو ستاروں پر کمند ڈالنے کی پڑی ہوئی ہے۔ یہ تضاد دن بہ دن گہراتا جارہا ہے۔
درخت پر خود کو پھندا لگانے والے کسان کی موت نے دہلی سرکار کے لیے سمسیا کھڑی کردی۔ کسان تو چلا گیا مگر دہلی سرکار کو بھی تنقید کی سُولی پر لٹکا گیا۔ ہر طرف طعن و تشنیع کا بازار گرم ہوا کہ یہ کیسی سرکار ہے جو ایک کسان کو خود کشی سے نہ روک پائی۔
کسان کی خود کشی کے بعد بھرپور تنقید کے نتیجے میں وہی ہوا جو ہمارے خطے میں ہوا کرتا ہے۔ پولیس والوں اور درختوں کی شامت آگئی! پولیس کی درجنوں ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں جو دہلی میں درختوں کی خاک چھانتی پھر رہی ہیں! مطلب یہ کہ اب درختوں کی نگرانی کی جارہی ہے کہ کہیں کوئی اور کسان پھندا لگاکر مزید الجھنیں پیدا نہ کردے!
یہ بھی خوب رہی۔ کسانوں کے حالات خراب ہیں۔ اُن کی زندگی میں دکھ ہی دکھ ہیں۔ ان کے دکھ دور کرنے کی سنجیدہ کوشش کرنے کے بجائے درختوں کی نگرانی فرمائی جارہی ہے!
کسانوں اور محنت کشوں کا حال ہمارے ہاں بھی کچھ زیادہ قابلِ رشک نہیں۔ ان کے شب و روز مشکلات سے دوچار ہوتے جارہے ہیں۔ ع
ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات
مگر بھارت کے کسان زیادہ ''باہمت‘‘ نکلے ہیں کہ موت کو گلے لگاکر اپنے دکھ کم کر رہے ہیں!
ایک طرف تو یہ عالم ہے کہ کسان موت کا آپشن اختیار کرکے زندگی کے سارے دکھوں کو یک بارگی ختم کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں اور دوسری طرف منتخب ایوانوں میں من پسند موضوعات پر بحث ہو رہی ہے۔ معمولی نکات پر دن دن بھر بحث ہوتی رہتی ہے اور ایوان چلانے والے چیخ چیخ کر ارکان کو یاد دلاتے رہتے ہیں کہ چند اصولوں کی پاس داری ناگزیر ہے۔ مگر ع
کون سنتا ہے فغانِ درویش؟
دوسرے بہت سے معاملات کی طرح حالات کی چکی میں پسنے والوں کے حوالے سے رویّے کے معاملے میں بھی ہم اور بھارت ایک ہی پیج پر ہیں۔ کسانوں کی خود کشی پر بھارت میں کسی کے کانوں پر جُوں نہیں رینگی۔ ہمارے ہاں بھی تو کسانوں اور محنت کشوں کے انتہائی پریشان کن حالات اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے لوگوں کے لیے کسی تحریک کا سبب نہیں بنتے۔ کسی کو خیال نہیں آتا کہ محنت کشوں کے شب و روز کس طور گزرتے ہوں گے۔ کوئی نہیں سوچتا کہ زندگی کے جبر نے کس غریب کا کیا حال کیا ہے۔
بھارت ہو یا پاکستان، کسانوں کے حالات درست کرنے پر توجہ دینے کے بجائے درختوں کی نگرانی کا آپشن اپنالیا گیا ہے۔ تصور کرلیا گیا ہے کہ درختوں پر نہیں چڑھ سکیں گے تو کسان موت کو گلے نہیں لگا سکیں گے۔ اگر ایسا ہے تو پھر درختوں کی نگرانی سے بھی جان چھڑالی جائے۔ پولیس فورس کو جا بجا درختوں کی نگرانی پر مامور کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ درختوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے! اگر چند درخت جان سے ہاتھ دھوکر کسانوں کے لیے زندگی کو یقینی بناسکیں تو اِس سے اچھی بات کیا ہوگی؟
جب سے امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوا ہے، ہماری پولیس بھی وہی طریقے اختیار کرتی آرہی ہے جو بھارت میں کسانوں کو خود کشی سے روکنے کے لیے استعمال کئے جارہے ہیں۔ حالات پر قابو پانے کے لیے کنٹینر لگاکر سڑکیں بند کردیجیے! اِس سے آسان طریقہ کیا ہوسکتا ہے؟ درختوں کی نگرانی ہو یا کنٹینر لگاکر سڑک بند کرنا، سوچ تو ایک ہی ہے۔ یعنی یہ کہ کوئی مستقل اور پائیدار حل تلاش کرنے کے بجائے چوہدری شجاعت حسین والے ''مٹی پاؤ‘‘ فارمولے پر عمل کرتے رہیے۔ کچھ اور ہو نہ ہو، حکومت کو چند لمحوں کے لیے راحت تو مل ہی جاتی ہے۔ حکومتیں یہی تو چاہتی ہیں۔ معاملات تھوڑی دیر کے لیے دب جائیں، بس۔ بعد میں دیکھی جائے گی۔ خود کشی پیدا کرنے والے حالات کی راہ روکنے کے بجائے آسان ترین اور انتہائی کم خرچ آپشن یہ ہے کہ درختوں کی نگرانی کی جائے۔ یہ نگرانی جاری رہنی چاہیے۔ اس کام سے فرصت ملی تو کبھی کسانوں اور مزدوروں کے حالات بہتر بنانے کے بارے میں بھی سوچ ہی لیا جائے گا۔ جلدی کاہے کی ہے، دنیا کون سی ختم ہوئی جارہی ہے۔ تب تک کے لیے ہم کسانوں اور محنت کشوں کی ڈھارس بندھادیں۔ ؔ
وقت اچھا بھی آئے گا ناصرؔ!
غم نہ کر، زندگی پڑی ہے ابھی