"MIK" (space) message & send to 7575

انڈے کا فنڈا …

شدید گرمی میں انڈے کون کھاتا ہے مگر پھر بھی حیرت انگیز طور پر انڈوں کا بازار گرم ہے۔ ہر سال امتحان کے موسم میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ سال بھر کلاس روم میں جن طلباء کو بغیر دُم کا مرغا بننا پڑتا ہے انہی میں سے بیشتر کو امتحانی کاپیوں میں انڈوں سے نوازا جاتا ہے! سیدھی سی بات ہے مرغے تو انڈے دینے سے رہے۔ ایسے میں ممتحن انڈوں سے نواز کر ان ''کلاس رومی‘‘ مرغوں کا ''احساسِ محرومی‘‘ کسی حد تک دور کرتے ہیں!
حکومت کو تو خیر کچھ زیادہ رحم نہیں آتا مگر ہر سال گرمیوں میں انڈے غریبوں پر مہربانی فرماتے ہیں یعنی ان کے دام گرتے ہیں اور غریبوں کے لیے انہیں خریدنا کسی حد تک ممکن ہو جاتا ہے۔ سردیوں میں 120 روپے فی درجن تک کے نرخ پر فروخت ہونے والے انڈے سڑا دینے والی گرمی میں 70 روپے فی درجن تک کے نرخ پر آجاتے ہیں۔ گویا ع
پھرتے ہیں ''ایگ‘‘ خوار، کوئی پوچھتا نہیں!
مگر خیر، انڈے دل چھوٹا نہ کریں‘ اگر دکانوں پر ان کی توقیر نہیں اور کوئی انہیں نہیں پوچھ رہا تو کوئی بات نہیں۔ نیلام گھروں میں تو ان کی ویلیو بڑھتی ہی جارہی ہے۔ ہاں، نیلام گھروں میں جن انڈوں کی عزت افزائی کی جارہی ہے وہ ذرا وکھری ٹائپ کے ہیں۔
برطانیہ میں مرغی کا ایک انڈا حال ہی میں 400 پاؤنڈ میں فروخت ہوا۔ آپ سوچیں گے مرغی کے انڈے میں ایسی کون سی بات تھی کہ کسی نے 400 پاؤنڈ میں خرید لیا۔ کیا اس میں ہاتھی پنپ رہا تھا؟ جی نہیں، ایسی کوئی بات نہیں۔ یہ انڈا عام انڈوں سے ہزاروں گنا زائد قیمت پر اس لیے فروخت ہوا کہ یہ انڈے جیسا دکھائی نہیں دیتا تھا! مرغی کا یہ انڈا ٹیبل ٹینس کی گیند کے سائز کا اور بالکل گول تھا۔ گول ہونے کی بنیاد پر اس کی ایسی بھرپور قیمت مل پائی۔ لمبوترا یعنی عام انڈوں جیسا ہوتا تو کوئی گھاس نہ ڈالتا! اس دنیا کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ ہر اس چیز کی قدر میں اضافہ ہوتا جاتا ہے جو کچھ ہٹ کر واقع ہوئی ہو، دوسروں جیسی دکھائی نہ دیتی ہو۔ یعنی مرغی کے عام انڈے ایک پاؤنڈ کے ڈیڑھ دو درجن خریدیے اور اگر کوئی انڈا ذرا ہٹ کر واقع ہوا ہو یعنی گول ہو تو دینے والے 400 پاؤنڈ میں بھی دے ڈالیں گے! سوال اثر پذیر یا مفید ہونے کا نہیں، وکھری ٹائپ کا ہونے کا ہے!
انڈوں کا معاملہ یوں بھی بہت عجیب ہے۔ شدید بھوک لگی ہو تو پلیٹ میں تلے ہوئے انڈے کو دیکھ کر دل کو سکون ملتا ہے۔ اور اگر یہی انڈا امتحانی کاپی میں دکھائی دے جائے تو دل بیٹھ بیٹھ جاتا ہے! ایسے میں بھوک تو کیا ختم ہونی ہے، بدہضمی البتہ بڑھ جاتی ہے!
خیالات میں تازگی ہو نہ ہو، دکان سے انڈے خریدتے وقت لوگ تازگی کا سوال ضرور اٹھاتے ہیں! اور دکان دار کے لیے بھی لازم سا ہو جاتا ہے کہ چند روایتی، مسالے دار جملے بول کر گاہک کو یقین دلائے کہ انڈے تازہ بہ تازہ، نو بہ نو ہیں! اگر محض شائبہ بھی ہوجائے کہ انڈے تازہ نہیں تو گاہک بدک جاتا ہے اور انڈوں کے بجائے کسی اور چیز سے پیٹ بھرنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ مگر یہ بھی طرفہ تماشا ہے کہ سیکڑوں برس پہلے کا کوئی لاحاصل قسم کا انڈا فروخت کے لیے پیش کیا جائے اور وہ ہزاروں ڈالر میں فروخت ہو!
ہم نے عرض کیا ہے ناں کہ یہ دنیا ہر اس چیز پر مرتی ہے جو ایک جیسی ہزاروں چیزوں سے ہٹ کر دکھائی دے، کچھ الگ سی واقع ہوئی ہو! بس، کچھ الگ سا واقع ہونا ایسا وصف ہے جو ہر معاملے میں قدر و قیمت کو بڑھانے کا ذریعہ بنتا ہے۔ لمبوترے انڈے توڑ کر کھا لیے جاتے ہیں اور گول انڈے انتہائی بلند قیمت پر خرید کر ڈرائنگ روم میں رکھ دیئے جاتے ہیں۔ یہی حال انسانوں کا بھی ہے۔ عام سا، معقول سا انسان کسی کی توجہ نہیں پاتا۔ جو معقولیت کی سرحد سے دور پائے جاتے ہوں، ذرا سے ہٹ کر واقع ہوئے ہوں‘ وہ فی زمانہ ''فنکار‘‘ بن کر نام اور اس سے کہیں زیادہ دام کماتے ہیں! اگر کسی کی آواز دوسرے بہت سے انسانوں کی طرح خاصی مہذّب اور سُریلی واقع ہوئی ہو تو اس میں کون سی انوکھی بات ہے۔ جسے اللہ نے ذرا سی کھردری اور بھدّی سی آواز ''عطا‘‘ فرمائی ہو تو سمجھ لیجیے لاٹری نکل آئی! ایسی آواز پاپ سنگنگ کی دنیا میں اپنے ''درجات‘‘ راتوں رات خود ہی بلند کرلیتی ہے۔ آواز جتنی کھردری، بھدّی اور unorthodox ہوگی، اتنی ہی مقبولیت پائے گی اور کامیاب تصور کی جائے گی!
بات ہو رہی تھی لاحاصل انڈے اور اس کی بھرپور قدر و قیمت کی۔ ڈھائی تین سو سال قبل روئے ارض سے معدوم ہوجانے والے پرندے ''ایلیفنٹ برڈ‘‘ کا ایک انڈا لندن کے ایک نیلام گھر میں رکھا گیا ہے۔ توقع ہے کہ یہ انڈا 76 ہزار ڈالر سے زائد میں نیلام ہوجائے گا۔ ہے ناں حیرت کی بات۔ جو پرندہ اب روئے ارض پر پایا ہی نہیں جاتا اُس کا انڈا قابلِ رشک قیمت پر نیلام ہوگا۔
ایلیفنٹ برڈ نیوزی لینڈ میں پائے جانے والے پرندے کیوی کے خاندان کا تھا‘ یا یوں کہہ لیجیے کہ کیوی اس کی باقیات میں سے ہے! 275 کلو گرام تک کے وزن کا ایلیفنٹ برڈ بھی عام مرغیوں اور شتر مرغ کی طرح اڑ نہیں سکتا تھا۔ اس کے انڈے کا حجم مرغی کے عام انڈے سے تقریباً ڈیڑھ سو گنا ہوتا تھا۔
آپ سوچیں گے جو انڈا پکاکر کھایا نہیں جاسکتا اور جس میں سے چوزہ بھی نکالا نہیں جاسکتا وہ کس کام کا؟ اسے کیوں خریدا جائے؟ اطلاعاً عرض ہے کہ ایسا ہی ایک انڈا ڈیڑھ سال قبل ایک لاکھ ایک ہزار ڈالر میں فروخت ہوا تھا!
پرندے اور دیگر جاندار سوچتے تو ہوں گے کہ انسان بھی کیا عجیب مخلوق واقع ہوا ہے۔ دکان سے ناشتے کے آئٹم خریدتے وقت پوچھا جاتا ہے کہ انڈے تازہ ہیں ناں۔ اگر دکاندار سچ بولے یعنی بتادے کہ انڈوں کی سپلائی دو تین دن پہلے ہوئی تھی تو اچانک انڈوں سے الرجی سی محسوس ہونے لگتی ہے۔ اور یہی انسان خریدنے پر آئے تو ڈھائی تین سو سال پہلے معدوم ہوجانے والے پرندے کا انڈا بھی خرید لے اور سب کو فخر سے دکھاتا، بتاتا پھرے!
تہذیب کے سفر میں انسان اور انڈے ساتھ ساتھ ہیں۔ ان کا ساتھ ختم ہوا ہے‘ نہ ہوگا۔ آج کے انسان کی خوش نصیبی ہے کہ اسے انڈے سے تشبیہ نہیں دی جاتی ورنہ آپ کو یاد ہی ہوگا کہ علامہ اقبالؔ نے بھی نئی تہذیب کے بندوں کو گندے انڈوں سے مماثل قرار دے کر گلی میں پھینک دینے کی سفارش کی تھی! خیر، گزری کہ ان کی سفارش، تجویز یا مشورے پر عمل نہ ہوا ورنہ ہم یہ لکھ رہے ہوتے نہ آپ یہ پڑھ رہے ہوتے! شعراء کی بہت سی خرابیوں میں ایک بڑی خرابی یہ بھی ہے کہ مشورے دیتے وقت یہ بھی نہیں دیکھتے کہ ان کا نتیجہ کیا برآمد ہوسکتا ہے۔
علامہ اقبالؔ نے نئی تہذیب کے جن گندے انڈوں کو اٹھاکر باہر گلی میں پھینکنے کا مشورہ دیا تھا ان میں سے بہت سے اب بھی اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں اور ان کے دم ہی سے تو ''علم و فن‘‘ کے بازار کی رونق برقرار ہے! ایلیفنٹ برڈ کے انڈے کی طرح نئی تہذیب کے گندے انڈے بھی اب تک بھاری بھرکم قیمت پر فروخت اور نیلام ہو رہے ہیں، بلکہ کہیں کہیں تو ان کے حصول کے لیے معاملہ ''مارا ماری‘‘ تک پہنچ جاتا ہے! ہم اور آپ اس ''مقام خاص‘‘ تک نہیں پہنچ سکتے کہ ہم آپ تو نارمل انڈے ہیں! جہاں توقیر صرف ابنارمل چیزوں اور انسانوں کی ہو وہاں نارمل ہونے کو کسی کی بد دعا کا نتیجہ نہیں تو اور کیا سمجھا جائے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں