"MIK" (space) message & send to 7575

’’تحقیق و ترقی‘‘ کا پھندا

ماہرین نے ایک ایسے عنصر کا سراغ لگایا ہے جو انسانی ذہن کی صلاحیتوں کو اچانک کئی گنا کردیتا ہے اور اس میں ایسے شعبے کا رجحان پیدا کردیتا ہے جو پہلے کسی بھی طرح اس کی ترجیحات میں شامل ہی نہ رہا ہو۔
امریکی ریاست کولو راڈو کی لیف ایرسیک گزشتہ دنوں ایک حادثے کا شکار ہوئی تو اس کی زندگی کا رخ پلٹ گیا۔ ہوا یہ کہ طویل عرصہ قبل ایک حادثے کے باعث اس کی یادداشت چلی گئی تھی اور وہ گزری ہوئی زندگی مکمل طور پر بھول چکی تھی۔ کئی برس بعد گزشتہ دنوں کام کے دوران وہ لاپروائی کے باعث ایک گہرے گڑھے میں جا گری۔ سر پر چوٹ لگی تو صرف یادداشت ہی واپس نہیں آئی بلکہ ذہنی صلاحیت میں کئی گنا اضافہ بھی ہوگیا! ماہرین نے تجزیہ کیا تو معلوم ہوا کہ اس کا ذہن سیونٹ سنڈروم سے ''ہمکنار‘‘ ہوگیا ہے۔ یہ عنصر انسان کے ذہن کو پَر لگا دیتا ہے یعنی ذہن محض کام نہیں کرتا بلکہ اُڑان بھرنے لگتا ہے!
کہاں تو لیف ایرسیک غائب دماغ تھی اور کہاں اس پر ذہانت کے دروازے کھل گئے! (امریکہ میں) قدرت جو چاہے کرسکتی ہے۔ یہ خبر جب مرزا تنقید بیگ نے سُنی تو معمول اور مزاج کے مطابق امریکیوں کی ''شان‘‘ میں چند ناگفتہ بہ قسم کے الفاظ ادا کیے۔ اس کے بعد امریکی معاشرے کو ''خراج عقیدت‘‘ پیش کیا۔ اس ''رسمی کارروائی‘‘ سے فارغ ہوکر مرزا نے کہا: ''بے وقوف بنانے کا دھندا ویسے تو پوری دنیا میں اچھا جارہا ہے اور لوگ بہتی گنگا میں اشنان فرما رہے ہیں مگر امریکہ میں اس دھندے کو چار کیا آٹھ چاند لگے ہوئے ہیں۔ امریکیوں نے یہ طے کر رکھا ہے کہ بے وقوف بنانے والی جتنی بھی باتیں ہیں انہیں نمک مرچ لگاکر مارکیٹ میں پیش کریں گے تاکہ دنیا کا بیڑا غرق ہوکر رہے!‘‘
ہم نے دست بستہ عرض کیا کہ اس میں بے وقوف بنانے والی بات کون سی ہے۔ ہم نے خود فلموں میں دیکھا ہے کہ سر پر چوٹ لگے تو یادداشت واپس آجاتی ہے اور زندگی زیادہ جوش و خروش سے گزرنے لگتی ہے۔
مرزا بولے : ''ہم بھی یہی کہنا چاہتے ہیں۔ ایسا تو فلموں میں ہوتا ہے۔ امریکیوں نے ایک خاتون کو مثال بناکر دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ ثابت یہ کرنا چاہتے ہیں کہ کبھی کبھی سَر پر چوٹ لگنے سے ذہانت میں کئی گنا بلکہ قابل رشک حد تک اضافہ ہو جاتا ہے۔ ایسی کوئی بھی بات کرتے وقت یہ بھی نہیں سوچا جاتا کہ قدرت کی طرف سے بخشی گئی معمولی ذہانت کو بروئے کار نہ لایا جائے تو انسان گڑھے میں گرتا ہے! گویا امریکی یہ کہنا چاہتے ہیں کہ قدرت نے ذہن میں بہت کچھ مقفّل حالت میں رکھا ہے۔ اب اگر ذہانت کا خزانہ غیر مقفّل کرنا ہے یا activate کرنا ہے تو کسی گہرے گڑھے میں سَر کے بل کود جائیے!‘‘
اِس پر ہمارا موقف یہ تھا کہ کبھی کبھی کوئی حادثہ انسان کے ذہن کو ایڑ لگا دیتا ہے۔ ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ کسی نے حادثے کا شکار ہونے کے بعد اسپتال میں آنکھ کھولی تو خود کو ایک نئی اور بہتر دنیا میں پایا۔
مرزا تنک کر بولے : ''میاں! یہ سب کچھ فلموں میں ہوتا ہے۔ ہم نے تو اب تک یہی دیکھا ہے کہ کوئی گڑھے میںلڑھکا یا چھت سے گِرا تو پھر اس کے چراغوں میں روشنی نہ رہی! ہمارے ہاں تو اب تک کائنات کے اصول پوری دیانت سے کام کر رہے ہیں۔ گِرنے کا جو بھی نتیجہ برآمد ہوسکتا ہے وہی ہوتا ہے۔ اب یہ طے کرنا باقی رہتا ہے کہ امریکیوں نے کوئی اور کائنات بنا رکھی ہے یا امریکہ کسی اور کائنات کا حصہ ہے کہ وہاں جو ہوتا ہے انوکھا ہوتا ہے۔‘‘
کہنے کو امریکہ کے نام سے چڑ ہے مگر مزاجاً مرزا بھی امریکی ہی واقع ہوئے ہیں۔ انہیں سمجھانا بھی سَر پھوڑنے جیسا ہی عمل ہے! ہم نے ایک بار پھر خاصے احترام کے ساتھ عرض کیا کہ امریکہ میں ہر شعبہ تحقیق سے ہمکنار ہے۔ زندگی کے ہر پہلو پر جان لڑاکر تحقیق کی جاتی ہے اور جب نتیجہ سامنے آتا ہے تو دنیا حیران رہ جاتی ہے۔
مرزا نے ذرّہ بھر تاخیر کے بغیر جواب دیا: ''اسی بات کا تو رونا ہے۔ امریکہ میں ہر شعبہ تحقیق سے ہمکنار نہیں بلکہ اس کی زد میں ہے! امریکیوں کا 'طریق واردات‘ یہی ہے کہ ہر معاملے کو تحقیق کے متعفّن پانیوں میں غرق کردو! زندگی کی کون سی دل نشیں حقیقت ہے جسے امریکیوں نے تحقیق کی سُولی پر لٹکانے سے گریز کیا ہے؟ ہر معاملے کو تحقیق کے گڑھے میں گِرانا اور عجیب و غریب نتائج اخذ کرکے دنیا کو متاثر کرنا امریکیوں کا وتیرہ ہے۔ یہی طریق واردات امریکیوں نے خارجہ پالیسی اور عسکری امور میں بھی اپنایا ہے۔ امریکی خارجہ پالیسی کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ کسی بھی کمزور ملک کو کسی نہ کسی طرح گھیر کر تباہی کے گڑھے میں دھکیل دو اور پھر دنیا والوں کو یہ باور کراؤ کہ گڑھے میں گِرنے سے اُس ملک یا قوم کا ذہن تیز ہوگیا ہے، ذہانت کئی گنا ہوگئی ہے! افغانستان تو خیر کچرے کا ڈھیر ہی تھا مگر عراق تو اچھا خاصا ملک تھا۔ 'اصلاح‘ کے نام پر اس ملک کو بھی گڑھے میں دھکیل دیا گیا اور اب جبکہ ملک عملاً تین حصوں میں بٹ چکا ہے، امریکی پالیسی میکرز یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ عراق درست راہ پر اب گامزن ہے! کیا خوب درست راہ ہے کہ عراقی معیشت کا بیڑا غرق ہوچکا ہے، سیاست میں توازن کا ٹھکانہ نہیں، نسلی و مسلکی مخاصمت ومنافرت منطقی انتہا کو چُھو رہی ہے اور کچھ پتا نہیں کہ ملک کی سالمیت برقرار رہ پائے گی یا نہیں۔ 'ذہن تیز‘ کرنے ہی کے نام پر لیبیا، شام اور یمن کی بھی مِٹّی پلید کی گئی ہے۔ تباہی کے گڑھے میں گرے ہوئے یہ تینوں ممالک اب کون سی اعلیٰ ذہانت کا مظاہرہ کرتے ہیں، یہ دیکھنا باقی ہے!‘‘
ہم مرزا کو کبھی قائل نہیں کرسکے کہ یہ زمانہ ہر شعبے میں ندرت تلاش کرنے کا ہے۔ ''تحقیق و ترقی‘‘ کا شعبہ زندگی کے ہر پہلو کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ لوگ بلی یا کتا پالنے کے لیے بھی ماہرین کے پاس جاتے ہیں، باضابطہ رائے طلب کرتے ہیں۔ یہ زمانے کا چلن ہے۔ امریکہ، یورپ اور دیگر ترقی یافتہ خطوں میں کوئی بھی شعبہ تحقیق کی دسترس سے باہر نہیں۔
مرزا کا استدلال ہے کہ ایسی تحقیق کس کام کی جس کا مقصد ہی دنیا کو بے وقوف بناکر اپنا اُلّو سیدھا کرنا ہو۔ وہ ''تحقیق و ترقی‘‘ کو پھندا سمجھتے ہیں جو ہر کمزور قوم کے گلے میں ڈالا جاتا ہے اور اس پھندے کو گلے تک پہنچانے کے لیے میڈیا کا بانس استعمال کیا جاتا ہے! مرزا کا موقف یہ ہے کہ جسے ہم ''تحقیق و ترقی‘‘ کی روایت سمجھ کر خوش ہوتے ہیں وہ دراصل امریکی ایجنڈا ہے۔ جسے تحقیق کے نتائج قرار دے کر ہمارے سامنے پیش کیا جاتا ہے وہ دراصل زمینی اور بنیادی حقائق کو مسخ کرنے کی کاوش کے سِوا کچھ نہیں۔ ویسے تو امریکی ہر معاملے میں تحقیق کا ہار اپنے گلے میں ڈالے پھرتے ہیں مگر جب اپنے مفاد کے لیے فوری طور پر کچھ کرنا ہو تو کیسی تحقیق اور کہاں کی تحقیق؟ سارا علم و فن بالائے طاق رکھ کر شب خون مارا جاتا ہے اور تمام زمینی حقائق کی بساط لپیٹ دی جاتی ہے! مرزا کا کہنا ہے کہ امریکیوں کے کہنے پر جسے ہم ''تحقیق و ترقی‘‘ سمجھ کر خوش ہوتے ہیں وہ امریکی مفادات کے تابع تحقیق ہے اور امریکیوں کا معیارِ زندگی بلند کرنے والی ترقی!
ہم شاید مرزا کو کبھی قائل نہ کرسکیں گے کہ بازار میں جس کا نام اور مال چل رہا ہو سب کچھ اُسی کا ہوتا ہے۔ بقول کیفیؔ اعظمی ؎
کیسے بازار کا دستور تمہیں سمجھاؤں؟
بِک گیا جو وہ خریدار نہیں ہوسکتا!
ہم بھی فروخت شدہ مال ہیں۔ ایسے میں ہم جیسی اقوام کے پاس امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ اقوام کی ہر بات کو درست سمجھنے کے سِوا کون سا آپشن رہ گیا ہے! طاقتور کی بات کو درست مان لینے میں بھلائی ہے۔ بصورتِ دیگر وہ منوا ہی لیتا ہے۔ جو بے علمی اور بے عملی کے گڑھے میں گرے ہوئے ہوں انہیں نہ چاہتے ہوئے بھی ماننا پڑتا ہے کہ ترقی یافتہ ملک میں کوئی گڑھے میں جا گرے تو ذہن کے چودہ طبق روشن بھی ہوسکتے ہیں! یہ نصیب تو ہمارا ہے کہ کوئی گڑھے میں گرے تو اس کے چراغوں میں روشنی نہیں رہتی! مگر صاحب، ہمارے ہاں اور کون سے چراغوں میں روشنی بچی ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں