روایت سی چل پڑی ہے کہ ہر معاملے میں کوئی نہ کوئی مثال ضرور دی جائے۔ کبھی کبھی کوئی مثال بالکل درست اور بروقت بھی ثابت ہوتی ہے۔ مگر عام طور پر مثال کا اور مثال دینے والے کا بھونڈا پن ذرا سی دیر میں عیاں ہوکر رہتا ہے۔
جنہیں سیاست کے علاوہ کچھ نہیں آتا وہ ہر معاملے کو سیاست کی نذر کرکے دم لیتے ہیں۔ اور سیاست دانوں کی حرکات و سکنات پر نظر رکھنے والے ان کی ہر بات کو عوام تک پہنچانا اپنی زندگی کا بنیادی مقصد سمجھ بیٹھے ہیں۔ ہمارے میڈیا کے بھائی بند اس معاملے میں پیش پیش ہیں۔ ہر بات بتانے والی نہیں ہوتی مگر اب تو وہی بات لازمی طور پر بتائی جاتی ہے جو بتانے والی نہ ہو۔ چینل کے لیے ریٹنگ اور اخبار کے لیے ریڈنگ ایسی ہی باتوں کی مرہون منت ہے!
منتخب ایوانوں کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ ان میں معمول کی کارروائی کے دوران بھی جو کچھ کہا اور سُنا جاتا ہے اُسے سینسر کئے بغیر پیش کرنے سے بچوں کے اخلاق بگڑنے کا خطرہ برقرار رہتا ہے! عوامی مفادات پر بحث کے دوران ہر نکتہ انفرادی یا پارٹی مفادات کے گرد گھوم رہا ہوتا ہے۔ عوام جب کارروائی کی تفصیل پڑھتے ہیں تو حیران رہ جاتے ہیں کہ مفادِ عامہ کے نام پر کیا کیا بٹورا جارہا ہے، کس کس طرح جیبیں بھری جارہی ہیں۔
عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے ایوان میں پہنچنے کے بعد جس تیزی اور خوبصورتی سے اپنے ووٹرز کو بھول جاتے ہیں اُس کی داد نہ ہماری نظر میں تو زیادتی سے کم نہیں! ووٹرز کو بھول جانا ہی کچھ کم نہیں مگر ستم بالائے ستم یہ ہے کہ جس قوم کو منتخب ایوان کے مسند نشین بھول بھال جاتے ہیں اُسی کو مطعون بھی کرتے رہتے ہیں۔ اور ہمارے میڈیا کے ''پیر بھائی‘‘ بھی عوامی نمائندوں کے فرمودات ٹانکتے وقت مثال معاشرے سے دیتے ہیں۔ ع
وہی قتل بھی کرے ہے، وہی لے ثواب الٹا!
جب بھی کسی منتخب ایوان میں کسی بھی بات پر ہنگامہ آرائی ہوتی ہے اور دھماچوکڑی مچتی ہے، کہا یہ جاتا ہے کہ ایوان مچھلی بازار کا منظر پیش کر رہا تھا۔ یہ کیا بات ہوئی؟ مچھلی بازار تو ہم کئی بار گئے ہیں۔ وہاں تو کوئی بے ہنگم بات نہیں پائی جاتی۔ مچھلی بازار میں کانٹے مچھلیوں میں پائے جاتے ہیں، دکانداروں کی زبان میں نہیں! اور مچھلی میں پائے جانے والے کانٹے بھی اصولوں اور ضوابط کے تحت ہوتے ہیں۔ ایسا نہیں ہوتا کہ مچھلی میں کانٹے ہی کانٹے ہوں، گوشت نہ ہو۔ اور اگر بات بدبو کی ہو تو عرض ہے کہ مچھلی بازار میں پائی جانے والی بُو ناگوار ضرور ہوتی ہے مگر ہمارے منتخب ایوانوں کی ''خوشبو‘‘ کی طرح مشکوک ہرگز نہیں ہوتی! منتخب ایوانوں کے سیشن میں ارکان بہترین خوشبوئیں لگاکر شریک ہوتے ہیں مگر یہ خوشبوئیں مل کر معاملات میں پائے جانے والے شکوک کا تعفّن دور نہیں کر پاتیں!
اگر مچھلی بازار میں ہر طرف انتہائی ناگوار بُو کا راج ہوتا ہے تو ذرا غور فرمایا جائے کہ جنہیں ہم بہت چاؤ سے منتخب کرکے ایوان ہائے اقتدار میں بھیجتے ہیں وہ ہمارے لیے کون سا کسی خوشبودار مچھلی کا اہتمام کرتے ہیں؟ اگر کوئی خبر پڑھنے کے بعد کسی منتخب ایوان کو مچھلی بازار سجھ کر اس کا رخ کرے تو ہم یہ خدشہ ابھی سے ظاہر کئے دیتے ہیں کہ وہاں اُسے مچھلیاں تو نہیں ملیں گی، ہاں مگر مچھوں سے ضرور ٹاکرا ہوسکتا ہے! اور اگر دو چار مچھلیاں دکھائی دے بھی گئیں تو وہ اتنی بڑی ہوں گی کہ انہیں کھانے کے خیال سے زیادہ یہ فکر لاحق ہوگی کہ اُن کے جبڑوں کا لقمۂ تر بننے سے کیونکر بچا جائے!
جو حال سندھ کا ہے وہی حال سندھ اسمبلی کا بھی ہے۔ وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ کے مزاج میں ایسی ٹھنڈک ہے کہ برف بھی دیکھے تو اندر سے تپ اٹھے اور دُھواں دینے لگے! یہ وزیر اعلیٰ کی شخصی خصوصیت ہی کا ''اعجاز‘‘ ہے کہ اب سندھ اسمبلی میں بھی سب کچھ ''ٹھنڈا ٹھار‘‘ چل رہا ہے۔ عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے پر بات کرنے کی گنجائش کہاں سے پیدا ہو کہ ہر سیشن میں ارکان باہمی لڑائی کی سطح سے بلند نہیں ہو پاتے۔
صوبائی اسمبلی سمیت سندھ بھر میں دیہی اور شہری کا جھگڑا بے مثال بلندی پر محوِ پرواز ہے۔ صوبائی حکومت کے لیے قدم قدم پر مشکلات پیدا کی جارہی ہیں اور فیصلہ سازی کے عمل میں مینڈیٹ کو نظر انداز کرنے کی روش بھی ایسی نہیں کہ غور سے دیکھنے پر کسی کو نظر نہ آئے۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی بھی ایسے اقدامات پر تُلی رہتی ہے جن کے نتیجے میں حریفوں کو محض جواب نہیں ملتا بلکہ مزید بہت کچھ کرنے کی ''تحریک‘‘ بھی عطا ہوتی ہے! ایسے میں سندھ اسمبلی کے فلور پر کسی بھی معقول بات کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے؟ مگر پھر بھی معزز ارکان کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنے اپنے حلقۂ انتخاب کے باشندوں کی خدمت بجا لانے کے لیے ایوان تک آئے ہیں۔ وہ عوام کی کتنی خدمت بجا لائے ہیں، یہ تو دنیا جانتی ہے!
گزشتہ دنوں سندھ اسمبلی میں معمول کی کارروائی کے دوران ایک بار پھر غیر معمولی شور شرابہ ہوا اور دھینگا مُشتی کا ماحول پیدا ہوتے ہوتے رہ گیا۔ صوبے کے سب سے بڑے منتخب ایوان کے ماحول پر رپورٹنگ کرتے ہوئے ایک چینل نے سُرخی جمائی کہ یہ منتخب ایوان ہے یا کلاس روم؟ اور ارکان ہیں یا بچے؟ یہ سُرخی شور و غُل اور ہنگامہ آرائی کے تناظر میں تھی۔ ہم حیران اور افسردہ رہ گئے کہ اس معاملے میں بچوں کا حوالہ کیوں دیا گیا۔ اگر ایم پی ایز نے ہنگامہ آرائی کی تھی اور ایوان کا تقدس مجروح کیا تھا تو یہ ان کا اپنا فعل تھا، پھول سے بچوں کو اس جھاڑی میں گھسیٹنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
اللہ جھوٹ نہ بلوائے، کبھی ہم بھی بچے تھے اور اسکول بھی جاتے تھے۔ اب یہ جو ہم لکھتے لکھاتے ہیں تو اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ ہم کوئی ابنارمل قسم کے بچے تھے۔ ہم بھی کلاس کے دوسرے بچوں کی طرح مکمل نارمل تھے یعنی شور مچانے اور ہنگامہ کھڑا کرنے میں ہم اپنی کلاس کے تمام بچوں کا بھرپور ساتھ دیا کرتے تھے! ایک اور بات بھی ہم ضرور کہنا چاہیں گے کہ بچپن میں ہم اسکول کے ساتھیوں کے ساتھ مل کر جو شور برپا کرتے تھے وہ مفادِ عامہ کے نام پر ذاتی مفادات کی تکمیل کے لیے ہرگز نہیں ہوتا تھا! ہم کبھی کلاس ٹیچر کی توجہ ہٹانے اور کسی اور کے دیئے ہوئے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے شور نہیں مچاتے تھے! ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ جب ٹیچرز ہمیں ڈانٹتے تھے یا اصول یاد دلاتے تھے تو ہم، منتخب نمائندوں کی طرح، کلاس کا بائیکاٹ نہیں کرتے تھے بلکہ اپنی اصلاح پر مائل ہوتے تھے۔
ذہن کو عاجز کردینے والی مشینی ترقی کی ''بدولت‘‘ آج کے بچے ہوش سنبھالنے کے وقت ہی سے بہت تیز اور شوخ ہوتے ہیں۔ ہم سات آٹھ سال کی عمر میں بھی ویسے نہیں تھے جیسے آج کل ڈیڑھ دو سال کے بچے ہوا کرتے ہیں۔ یہ ذہانت نہیں، ماحول سے مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کا اثر ہے۔ خیر، بہت کچھ بدل چکا ہے مگر ایک بنیادی حقیقت اب بھی نہیں بدلی۔ یہ کہ بچے تیز اور شوخ ہوں یا کم گو، وہ ہوتے معصوم ہیں۔ ان کی نیت میں کوئی ایسا ذاتی مفاد نہیں ہوتا جو کسی اور کے مفاد پر ڈاکا ڈالے بغیر تکمیل سے ہمکنار نہ ہوتا ہو۔ بچے کبھی دوسروں کے لیے مختص چیز پر ہاتھ صاف کرنے کو اپنا حق بھی نہیں سمجھتے اور ایسا کرنے پر فخر بھی محسوس نہیں کرتے۔ قصہ مختصر یہ کہ کسی منتخب ایوان میں عوامی نمائندوں کی ہنگامہ آرائی کو بچوں کی سرگرمیوں سے تشبیہ نہ دی جائے تو اچھا۔ شکر کیجیے کہ بچوں کو ابھی اس کا پتا نہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکل آئیں اور عدالت کی ڈور بیل پر انگلی رکھ دیں! بڑوں کو جو کچھ بھی کہنا اور کرنا ہے شوق سے کہیں اور کریں۔ کس نے روکا ہے؟ مگر ان کانٹوں میں بچوں کو نہ گھسیٹا جائے۔ شرافت کا تقاضا تو یہی ہے۔