کوئی بھی معاشرہ خواہ کتنی ترقی کرلے، توہمات کو شکست نہیں دے پاتا۔ شکست تو خیر کیا دینی ہے، معاشرے توہمات کی غلامی میں سکون محسوس کرتے ہیں۔ سہولتوں کا انبار لگا ہو تب بھی تصور کی دنیا میں راحت تلاش کی جاتی ہے اور اگر کوئی خوف لاحق نہ ہو تو کہیں نہ کہیں سے کوئی خوف لاکر اپنے سَر پر مسلط کیا جاتا ہے۔
ایک بار ہم نے ایک ٹی وی پروگرام میں نجومی کو ٹیلی فونک سوالوں کے جواب دیتے ہوئے سُنا۔ ایک کال جرمنی سے آئی۔ کوئی خاتون لائن پر تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کا تعلق ایک پاکستانی گھرانے سے ہے جو جرمنی میں آباد ہوچکا ہے۔ یہ گھرانہ متمول تھا یعنی روپے پیسے کی کمی نہ تھی۔ اب آپ ہی اندازہ لگائیے کہ جرمنی میں جو گھرانہ کھاتا پیتا ہوگا وہ پاکستانی معیارات کے لحاظ سے کس قدر متمول اور خوش حال ہوگا!
محترمہ نجومی سے اپنے اور اپنے گھرانے کے مستقبل کے بارے میں جاننا چاہتی تھیں۔ ہم سوچنے لگے جب جرمنی میں سکونت اختیار کرلی، بہترین طرز زندگی سے ہمکنار ہوگئے، بہترین تعلیم پانے کا موقع مل گیا، صحت عامہ کی سہولتوں کا اعلیٰ ترین معیار حاصل ہوچکا، معاشی امکانات کی کوئی کمی نہیں تو پھر اب کون سا مستقبل ہے جس کے بارے میں کچھ معلوم کرنا ہے! پھر خیال آیا کہ شاید ہم پاکستانی ہوتے ہی ایسے ہیں۔ مگر ساتھ ہی یہ خیال بھی آیا کہ ایک ہم کیا، پورے برصغیر بلکہ جنوبی ایشیا کی یہی سوچ ہے۔ اب سوچتے ہیں کہ ہم بھی کیا سادہ ہیں کہ صرف اپنے خطے کے لوگوں کو خبطی اور توہم پرست سمجھ کر شرم سی محسوس کرتے آئے ہیں۔ اب یہ جان کر دل کو عجیب سا اطمینان ہو رہا ہے کہ توہم پرستی صرف پس ماندہ یا ناخواندہ اقوام کا وتیرہ نہیں۔ انتہائی ترقی یافتہ اقوام بھی اس بیماری میں مبتلا ہیں بلکہ اس دلدل میں گردن تک غرق ہیں! ؎
ہم ہوئے، تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے
سب ہی تقدیر کے اسیر ہوئے!
جاپان سے خبر آئی ہے کہ بہت سے جاپانی اپنی تقدیر بدلنے کے ''درپے‘‘ ہیں اور اس مقصد کے حصول کے لیے ستاروں کی چال پر نظر رکھنے والوں اور علم الاعداد میں مہارت رکھنے والوں کے ساتھ ساتھ جدید ترین طریقوں سے کی جانے والی سرجری کا سہارا بھی لے رہے ہیں! ہمیں یقین ہے کہ آپ اس بات سے ضرور حیران ہوئے ہوں گے کہ جاپان جیسے غیر معمولی اور قابل رشک حد تک ترقی یافتہ ملک کے لوگ اب کون سی تقدیر تلاش کر رہے ہیں۔ اہل جہاں جب اپنا مقدر بدلنے کے بارے میں سنجیدہ ہوتے ہیں تو امریکا، یورپ اور جاپان وغیرہ کی طرف دیکھتے ہیں۔ پاکستان جیسے درجنوں ممالک کے لوگ اپنی تقدیر بدلنے کے لیے جاپان کا رخ کرتے ہیں۔ ایسے میں جاپان کے لوگ کون سی تقدیر کو زندگی کا حصہ بنانا چاہتے ہیں؟ اور وہ بھی سرجری کی مدد سے؟
جاپانیوں میں یہ خیال زور اور جڑ پکڑتا جارہا ہے کہ سرجری کے ذریعے ہاتھوں کی لکیروں کو بدل کر تقدیر بدلی جاسکتی ہے۔ نجومی ہاتھوں کی لکیریں دیکھ کر ہی تقدیر کا حال بیان کرتے ہیں۔ جاپانیوں نے سوچا کہ جب تقدیر ہاتھوں کی لکیروںمیں پائی جاتی ہے کہ پھر کیوں نہ ہاتھوں کی لکیریں بدلنے پر توجہ دی جائے۔
سرجری کے ذریعے ہاتھوں کی لکیریں تبدیل کرنے سے تقدیر بدلتی ہے یا نہیں یہ تو ہم نہیں جانتے مگر ہاں اس نوعیت کی سرجری کے ماہرین کی ضرور چاندی ہوگئی ہے اور ان کی تقدیر ایسی جاگی ہے کہ سونے کا نام نہیں لے رہی۔ جاپانی اپنے ہاتھوں کی لکیریں تبدیل کرانے کے لیے سرجنز سے رابطے کر رہے ہیں۔ شادی، خوش حالی اور عمر کی لکیر کو تبدیل کرانے یعنی طُول دینے پر خاص توجہ دی جارہی ہے۔ سرجن بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں، بلکہ اب تو مرحلہ اشنان کا آگیا ہے! ثابت ہوا کہ سرجری سے تقدیر بدل بھی سکتی ہے اور جاگ سکتی ہے۔ یہ بات البتہ طے نہیں ہے کہ جاگنے یا تبدیل ہونے والی تقدیر کس کی ہوگی۔ سرجری کرانے والی کی نہ سہی، سرجری کرنے والے کی سہی!
عمر کے معاملے میں ہاتھ کی لکیر تبدیل کرانے کا پڑھ کر بھی ہم چکراگئے۔ اُن کے ہاں اوسط عمر ویسے ہی دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ 100 سال سے زائد جینا جاپانیوں کے لیے عام بات ہے۔ سرجری کے ذریعے جاپانی عمر کی لکیر بھی زیادہ لمبی کرانا چاہتے ہیں تو کیا اب ڈیڑھ ڈیڑھ سو سال جینے کا ارادہ ہے؟
چلیے، مان لیا کہ جاپانیوں کے دل میں مزید جینے کی تمنا جاگ اٹھی ہے۔ خوش حالی کی لکیر کو تبدیل کرانا؟ جاپان کا شمار اب بھی پانچ بڑی معیشتوں میں ہوتا ہے۔ فقید المثال، بلکہ قابل رشک خوش حالی سے تو جاپانی اب بھی ہمکنار ہیں۔ ایسے میں مزید کون سی خوش حالی درکار ہے؟ اور یہ ساری خوش حالی کس عمل کا نتیجہ ہے؟ محنت کا یا محض تقدیر پرستی کا؟ کیا سات آٹھ عشرے قبل جاپانیوں نے سرجری سے ہاتھ کی لکیریں تبدیل کرواکے مثالی ترقی ممکن بنائی تھی؟ کیا جاپانیوں کو اپنے اسلاف کے حوالے سے کچھ بھی یاد نہیں؟ ثابت ہوا کہ جب کسی قوم میں ترقی اور خوش حالی چوتھی یا پانچویں نسل تک پہنچتی ہے تو حافظے کا گلا گھونٹ کر دم لیتی ہے!
پاکستانی معاشرے میں توہم پرستی دیکھ کر ہم سوچا کرتے تھے کہ یہ قوم کب سُدھرے گی ... اور یہ کہ کبھی سُدھر بھی سکے گی یا نہیں! اب جاپان جیسے ''خطرناک حد تک ترقی یافتہ‘‘ ملک میں توہم پرستی دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ ایسا معاشرہ بھی ہزاروں سال پہلے کے معاشرے میں سانس لے سکتا ہے۔ اور سانس لے کیا سکتا ہے، لے رہا ہے!
ہر معاملے میں جاپان سمیت ترقی یافتہ ممالک کی مصنوعات اور رجحانات کو ترجیح دینے کا چلن ہمارے ہاں عام ہے۔ ہمیں ڈر ہے کہ سرجری سے تقدیر بدلنے کی خبر پڑھ کر کہیں پاکستان میں بھی سرجری کے ماہرین کی تقدیر نہ بدل جائے! موٹاپے سے نجات پانے کے خواہش مند پاکستانیوں نے پہلے ہی متعلقہ سرجری کے ماہرین کو بھاری بھرم معاوضوں کی گنگا میں اشنان کا موقع فراہم کر رکھا ہے! اگر کہیں معاملہ تقدیر تک پہنچ گیا تو سمجھ لیجیے رہی سہی کسر بھی پوری ہوجائے گی۔ ہمارے ہاں کون ہے جو تقدیر نہیں بدلنا چاہتا؟ کوئی جھونپڑے میں رہتا ہو یا محل میں، جو کچھ تقدیر سے ملا ہے اس سے خوش ہے نہ مطمئن۔ رات دن تقدیر کا رونا رونے سے فرصت نہیں۔ عقل رکھنے والے اسی نفسیاتی کمزوری کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ جب تک تقدیر سے ناخوش رہنے کا چلن برقرار ہے، تقدیر کے دھندے سے وابستہ شاطروں کو کامیابیاں مبارک!