کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی زندہ ہو اور مسکرانے سے گریز کرے؟ زندہ رہنے کے لیے سانس لینا لازم ہے۔ سانس کے لیے آکسیجن ناگزیر ہے۔ اسی طور بہتر زندگی کے لیے مسکراہٹ بھی لازم اور ناگزیر ہے۔ جو لوگ مسکراہٹ اور خوش مزاجی کو اپنی زندگی سے نکال دیتے ہیں اُنہیں زندگی اپنی صف سے نکال دیتی ہے۔
امریکا کی 50 سالہ ٹیز کرسچین کا عجیب کیس ہے۔ وہ کم و بیش 40 سال سے نہیں مسکرائی۔ ایک نظر دیکھنے ہی اُس کے چہرے کا پتھریلا پن واضح ہو جاتا ہے۔ ذرا غور سے دیکھنے پر اندازہ ہوتا ہے جیسے آپ برف کی سِل دیکھ رہے ہیں۔ ٹیز نے طے کرلیا ہے کہ اُسے کسی حال میں مسکرانا نہیں ہے۔ ہر طرح کی صورت حال میں ٹیز کا چہرہ جذبات سے عاری رہتا ہے۔ وہ کسی پر یہ واضح نہیں ہونے دیتی کہ اس کے ذہن میں کیا چل رہا ہے یا دل پر کیا گزر رہی ہے۔
مگر کیوں؟
ایسی کیا بات ہوگئی ہے کہ ٹیز کسی حال میں مسکرانا چاہتی ہی نہیں؟ کیا کسی نے کچھ ایسا ویسا کہا تھا؟ اگر ہاں، تب بھی چار عشرے تو بیت چکے؟ مزید کتنا برا ماننا ہے؟
نہ تو ٹیز کو کسی نے کچھ کہا اور نہ ہی وہ کسی سے ناراض ہے۔ ایسی تو کوئی بات ہے ہی نہیں۔ تو پھر وہ کیوں مسکراہٹ کو ہمیشہ کے لیے الوداع کہہ چکی ہے؟ ٹیز نے اس کا ایسا سبب بیان کیا ہے کہ آپ بھی پڑھیں گے تو حیران و پریشان رہ جائیں گے۔ ٹیز کو بھی (ظاہر ہے، خاتون ہونے کے ناتے) تادیر جوان رہنے کا ہَوکا ہے۔ وہ نہیں چاہتی کہ اُس کے چہرے پر ایک بھی جُھرّی دکھائی دے۔ اس کا خیال ہے کہ ہنسنے سے چہرے پر جُھرّیاں پڑ جاتی ہیں! وہ اپنے چہرے پر عمر کا پتا دینے والی ایک بھی لکیر ابھرتی ہوئی نہیں دیکھ سکتی۔
ہم نے بڑھاپے کی راہ میں دیواریں کھڑی کرتی ہوئی خواتین بہت دیکھی ہیں۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اپنی جوانی اور بڑھاپے کے درمیان فولادی دیوار اٹھانے کے لیے بے تاب اور کوشاں دکھائی دیتی ہیں۔ بڑھاپا وہ لفظ ہے جو خواتین کے لیے ڈراؤنے خواب سے کم نہیں۔ اس ایک لفظ سے وہ اتنا ہی ڈرتی ہیں جتنا چوہوں، لال بیگ اور چھپکلی سے۔ خواتین حشرات الارض اور بڑھاپے سے جتنا ڈرتی ہیں اتنا اگر وہ اللہ سے ڈریں تو اپنے لیے جنت کا قیام کنفرم کرالیں!
جوانی کو برقرار رکھنے کے لیے خواتین کو کھیرے، ککڑی اور پتا نہیں کس کس چیز کا ماسک لگاتے تو ہم نے بہت دیکھا ہے۔ کھانے پینے کے معاملے میں بھی خواتین بہت محتاط رہتی ہیں۔ کوئی بھی چیز کھاتے وقت انہیں خوشبو اور لذت کا اتنا احساس نہیں ہوتا جتنا یہ خوف ستاتا رہتا ہے کہ کہیں کولیسٹرول تو نہیں بڑھ جائے گا، وزن میں اضافہ تو نہیں ہوجائے گا۔ دل ذرا بھی نہ چاہے تب بھی کریلوں کو اس لیے زہر مار کرتی ہیں کہ ایسا کرنے سے جسم میں چربی گھٹنے کی نوید سنائی گئی ہوتی ہے!
بہت سی خواتین کسی تقریب میں شرکت کی تیاری کرنے کے بعد زیادہ ہنسنے سے گریز کرتی ہیں کہ کہیں لپ اسٹک خراب نہ ہوجائے، پاؤڈر کی فاؤنڈیشن نہ بگڑ جائے۔ بات سمجھ میں آتی ہے۔ ہنسنے کے لیے ہونٹ تو ہلانا ہی پڑتے ہیں اور چہرے کے مسلز کو بھی حرکت دینا پڑتی ہے۔ اور اپنی جگہ سے ہلے ہوئے ہونٹوں کا ''جوڑ‘‘ دوبارہ بٹھانے کی صورت میں لپ اسٹک خراب ہوجاتی ہے!
مگر یہ کیا کہ جوان دکھائی دینے کے لیے انسان مسکرانے ہی سے توبہ کرلے! مسکرانے سے توبہ؟ یہ تو سر بہ سر کفران نعمت ہے۔ اور مسکراہٹ کے بغیر کیسی جوانی اور کہاں کی زندگی؟ ٹیز کرسچین نے حد کردی ہے۔ ایک ذرا سی جوانی کی خاطر اُس نے مسکراہٹ جیسی نعمت کو ترک کردیا؟ استغفراللہ!
مرزا تنقید بیگ کو جب ہم نے بتایا کہ ایک ذرا سی جوانی کی خاطر مسکراہٹ جیسی نعمت کو ٹھکرایا گیا ہے تو وہ یوںبھڑک اٹھے جیسے ہم نے پٹرول کو جلتی تیلی دکھا دی ہو! کہنے لگے : ''ذرا سی جوانی؟ میاں! اس ذرا سی جوانی ہی کا تو سارا جھگڑا ہے! کون ہے جو اپنے عہدِ شباب کو طول نہیں دینا چاہتا؟ سب یہی چاہتے ہیں کہ جوانی آئے تو پھر لوٹ کے نہ جائے۔ تم نے بھی وہ شعر تو سنا ہی ہوگا ؎
جو جاکے نہ آئے وہ جوانی دیکھی
جو آکے نہ جائے وہ بڑھاپا دیکھا!
جس چیز کو آکر جانا ہی نہیں لوگ چاہتے ہیں کہ وہ دیر سے آئے۔ یعنی جو جاکے نہیں آنے کی اس جوانی کو اپنے وجود کے آنگن میں لوگ زیادہ سے زیادہ دیر ٹھہرائے رکھنا چاہتے ہیں۔ مانا کہ خواتین اس معاملے میں زیادہ حساس اور بدنام ہیں مگر سچ یہ ہے کہ جوانی تو مرد بھی تادیر برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ اس خواہش ہی کے دم سے دیسی جڑی بوٹیوں کے کارخانے کام کر رہے ہیں! ہر عورت کی طرح ہر مرد بھی چاہتا ہے کہ جوانی کے زمانے کو اپنے وجود کے آنگن بٹھالے، ٹھہرالے۔ ایک عہدِ شباب میں کئی زمانے گزار کر بھی مرد اپنی جوانی سے یہی کہتا ہے ع
ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر کہ دل ابھی بھرا نہیں!
اور جاتی جوانی کو روکنے کے لیے وہ جتن بھی کچھ کچھ ویسے ہی کرتا ہے جیسے خواتین کرتی ہیں۔ بس یہ ہے کہ صنفی فرق کے باعث ہمیں یہ جتن مختلف دکھائی دیتے ہیں۔ مرد بھی چہروں کو کریم اور لوشن سے رگڑتے ہیں۔ خواتین کی طرح مردوں کو بھی چہرے کی جُھرّیاں چُھریاں دکھائی دیتی ہیں!‘‘
ہم نے عرض کیا کہ آپ کی تمام باتیں درست مگر مسکراہٹ تو بجائے خود زندگی اور بالخصوص عہدِ شباب کی علامت ہے۔ ایسی جوانی کس کام کی جس میں مسکراہٹ ہی نہ ہو؟ مرزا دم لے کر پھر شروع ہوئے : ''چہرے کی چُھرّیوں کو ٹالنے کے لیے خواتین کچھ بھی ترک کرسکتی ہیں۔ حسن کی حفاظت ان کے لیے زندگی اور موت کا معاملہ ہے۔ مسکرانے کی تو اوقات ہی کیا ہے، وہ تو بات بات پر آنسو بہانے کے فطری وصف کو بھی کھڈے لائن لگاسکتی ہیں!‘‘
ہم تو بس یونہی مرزا سے کچھ دل پشوری کر رہے تھے ورنہ کیا ہمیں معلوم نہیں کہ خواتین کیا چاہتی ہیں اور کیا نہیں چاہتیں! مرزا کی بات میں دم ہے کہ بات بات پر آنسو بہانے والی خواتین سے اگر کوئی ایکسپرٹ کہہ دے کہ زیادہ رونے سے آنکھوں کے گرد حلقے گہرے ہوجاتے ہیں اور جُھرّیاں بڑھ جاتی ہیں تو وہ رونا یوں بھول جائیں جیسے کبھی روئی ہی نہ ہوں! ٹیز کرسچین نے ثابت کردیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ دیر تک بڑھاپے کو ٹالے رکھنے کی خاطر یعنی جوانی کو برقرار رکھنے کے لیے خواتین کسی بھی حد سے گزر سکتی ہیں۔ ہم ٹیز کو اس بات کا کریڈٹ ضرور دیں گے کہ چہرے کو جُھرّیوں سے بچانے کے لیے اس نے شوہر کو مشکل میں نہیں ڈالا۔ یعنی مسکرانے سے اجتناب برتنے کو کافی سمجھا، بیوٹی ایکسپرٹس کے مشوروں کے مطابق کریمز اور لوشنز خریدنے کی خاطر شوہر کی جیب پر ڈاکا نہیں ڈالا! ہم پورے یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اگر ہمارے ہاں خواتین کو بتایا جائے کہ مسکرانے سے گریز کرکے یعنی مہنگی کریمز اور لوشنز کے استعمال سے اجتناب برت کر بھی چہرے کو جُھرّیوں سے بچایا جاسکتا ہے تو وہ اس بات کو سن کر محض مسکرانے پر اکتفا نہیں کریں گی بلکہ ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوجائیں گی! یہاں تو خواتین میں ایک دوڑ سی لگی ہے کہ دیکھیں کون کتنے مہنگے بیوٹی کیئر آئٹمز سے خود کو جوان رکھنے میں کامیاب ہوتی ہے۔ ایسے میں اگر آپ کوئی آسان سا دیسی نسخہ بتائیں تو نسخے کے ساتھ ساتھ آپ کی بھی بھد اڑے گی۔ میڈیا والے بھی ٹیز کرسچین جیسے کیسز کی زیادہ تشہیر نہیں کرتے کیونکہ ایسا کرنے سے ان کا اپنا دھندا بھی خراب ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔ اگر محض مسکرانے سے گریز کرکے چہرے کو جُھرّیوں سے دور رکھا جاسکتا ہے تو پھر جدید ترین ٹیکنالوجیز کی مدد سے تیار کی جانے والی مہنگی کریمز اور لوشنز کو کیا ویرانوں سے چڑیلیں خریدنے آئیں گی!
جوانی لوٹ کر نہیں آتی مگر خیر، جوانی کی رخصتی میں تھوڑی بہت تاخیر یقینی بنانے کی بھرپور کوشش کرنا خواتین کا فرض ہی نہیں ''استحقاق‘‘ بھی ہے! اور اس کوشش ہی کے دم سے ایک ایسا میلہ لگا ہوا ہے جس کی رونق دم توڑنے کا نام نہیں لیتی!