"MIK" (space) message & send to 7575

قصہ درخت پیمائی کا

کبھی کبھی ہمیں بہت شدت سے یہ احساس ہوتا ہے کہ ہم وقت سے کم و بیش پینتیس چالیس سال آگے ہیں۔ یہ کوئی اپنے منہ میاں مٹھو بننے والی بات نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے بچپن میں ''دانائی‘‘ پر مبنی ایسے بہت سے کام کئے ہیں جو ماہرین اب بیان کرکے نام کما رہے ہیں! سچی بات تو یہ ہے کہ ماہرین اِدھر اُدھر سے سُن کر ہی بہت کچھ اپنے دماغ کی پتیلی میں ڈالتے ہیں اور ہلا جلاکر ایک عجیب سا ملغوبہ تیار کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس ملغوبے میں پائی جانے والی بہت سی باتیں سُننے والوں کو اپنے احوال پر فٹ بیٹھتی محسوس ہوتی ہیں۔ کیوں محسوس نہ ہوں؟ یہ انہی کی تو باتیں ہوتی ہیں۔ بس ذرا گھوم پھر، ''ماہرین چورنگی‘‘ سے ہوکر آرہی ہوتی ہیں! 
ابھی کل کی بات ہے۔ ہم نے روزنامہ دنیا میں ایک خبر پڑھی جو ہمیں بچپن کے سنہرے دور میں لے گئی۔ خبر کے مطابق ماہرین نے بتایا ہے کہ درختوں پر چڑھنے سے دماغ تیز ہوتا ہے۔ ایک وسیع البنیاد تجربے کی روشنی میں ماہرین بیان کرتے ہیں کہ جو لوگ درختوں پر چڑھتے اور شاخوں کے درمیان توازن برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اُن کا دماغ ہی تیز نہیں ہوتا بلکہ حافظہ بھی مستحکم ہوتا ہے۔ ساتھ ہی یہ ''نوید‘‘ بھی سنائی گئی ہے کہ جو لوگ رینگتے ہوئے، رکاوٹیں عبور کرکے آگے بڑھتے ہیں ان کی دماغی صلاحیت بھی دوچند ہوجاتی ہے۔ 
درخت پر چڑھنے سے دماغ تیز ہوتا ہے، یہ بات جاننے کے لیے ہم ماہرین کے محتاج نہیں تھے کیونکہ یہ راز ہم بچپن میں جان گئے تھے۔ ہمارے اسکول میں کئی درخت ایسے تھے جن کا نصف سے زائد حصہ اسکول کی حدود سے باہر تھا۔ درختوں کے بیرونی حصے اسکول کی حدود و قیود سے باہر جانا ممکن بنانے میں ہماری غیر معمولی معاونت کیا کرتے تھے! 
اسکول میں صبح کی تازہ ہوا کھاتے ہوئے شروع کے دو پیریڈز تو ہم ہشاش بشاش رہتے تھے۔ تیسرے پیریڈ کی آمد تک ہم پر اکتاہٹ طاری ہونے لگتی تھی۔ اس کے بعد علم کا مزید حصول ہمارے لیے سوہانِ روح ہونے لگتا تھا! ہاف ٹائم کا گھنٹا بجنے سے پہلے ہی ہم طے کرلیا کرتے تھے کہ اب اسکول ہمارے پاؤں کی زنجیر نہیں بن سکتا! 
اسکول کے مرکزی دروازے پر ہٹا کٹا پٹھان چوکیدار بیٹھا کرتا تھا جو کسی بھی لڑکے کو اسکول سے باہر نکلنے سے روکنے کے معاملے میں ایسی فرض شناسی دکھایا کرتا تھا جیسے بہن بیٹی کی عزت بچا رہا ہو! جیسے ہی کوئی لڑکا مرکزی دروازے کے نزدیک پہنچتا تھا، چوکیدار بہت ہی ''پیار بھرے‘‘ لہجے میں غُرّاتی ہوئی صدا لگاتا تھا ''خوچہ، اندر غرق ہوجاؤ!‘‘ اور سہما ہوا لڑکا ''سعادت مندی‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اندر غرق ہوجانے پر مجبور ہوجایا کرتا تھا! 
ہم چونکہ بچپن ہی سے ''جینئس‘‘ واقع ہوئے ہیں اسی لیے کبھی کوئی کام معروف اور سیدھے طریقے سے نہیں کیا! اسکول میں داخل تو ہم قانونی طریقے سے ہوتے تھے مگر مقررہ وقت سے پہلے باہر آنے کے لیے خالص سیاسی یعنی غیر قانونی طریقہ اختیار کرتے تھے۔ ہمارا اسکول کوئی ایوان اقتدار تو تھا نہیں کہ اُس میں چور دروازہ ہوتا اور کسی کو داخل ہونے یا باہر نکلنے میں مدد دیتا۔ ایسے میں ہم وہی طریقہ اختیار کرتے تھے جو اُس زمانے کی لڑکیاں کسی کے ساتھ بھاگنے کے لیے اختیار کیا کرتی تھیں! یعنی لے دے کر بس دیوار پھاندنے کا آپشن رہ جاتا تھا ہمارے لیے اور ہم یہ آپشن باقاعدگی سے استعمال کیا کرتے تھے۔ اسکول میں لگے ہوئے جو درخت نصف سے زائد حد تک اسکول کی حدود سے باہر تھے وہ ہمیں مزید علم حاصل کرنے سے روکتے تھے۔ (ہمارا خلوص دیکھیے کہ ہم نے کبھی یہ ''نظریہ‘‘ پیش نہیں کیا کہ اسکول میں لگے ہوئے درخت علم و حکمت کے پھیلاؤ کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہوتے 
ہیں!) ان درختوں کی مدد سے ہاف ٹائم میں یا اُس سے بھی قبل نکل بھاگنا یعنی ''ٹُلّا‘‘ مارنا اس قدر آسان تھا کہ ایسا نہ کرنے کو ہم اور ہمارا کا ''علمی رجحان‘‘ رکھنے والے بہت سے لڑکے کفرانِ نعمت گردانتے تھے! اور سچ تو یہ ہے کہ ہم اور ہم سے ذہنی ہم آہنگی رکھنے والے چند اور لڑکے ہی ہاف ٹائم میں بھاگنے کی ہمت اپنے اندر پیدا کر پاتے تھے، وگرنہ اسکول سے بھاگ نکلنے کا سوچنے کے معاملے میں تقریباً تمام ہی لڑکے ایک پیج پر ہوا کرتے تھے! 
ماہرین نے درختوں پر چڑھنے سے دماغ کے تیز ہونے کی بات تو کردی مگر یہ بتانا بھول گئے کہ درختوں پر چڑھنے سے انسان میں ہمت اور کچھ کر دکھانے کا جذبہ بھی پروان چڑھتا ہے۔ ہمارے علاقے میں چند گھر ایسے بھی تھے جن میں لگے ہوئے درختوں پر سے پھل توڑنا جُوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ سوال صرف یہ نہیں تھا کہ ان درختوں پر چڑھنا مشکل تھا بلکہ اصل مصیبت یہ تھی کہ ان درختوں کے مالکان ذرا سی بھی اپنائیت نہیں دکھاتے تھے اور معمولی سا بھی تعاون کرنے پر آمادہ نہ ہوتے تھے! ایسے لوگوں کو جُل دے کر درخت پر چڑھنے اور حسبِ ضرورت پھل توڑ کر بحفاظت اُتر آنے کے طریقے سوچنے کے لیے ہمیں خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں کی 
صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنا پڑتا تھا! آدھا وقت تو ان درختوں کے ''کھڑوس‘‘ مالکان کی ریکی کرنے پر ضائع ہو جاتا تھا! ان درختوں پر چڑھنا ہمارے لیے ذہانت اور ہمت دونوں کا امتحان ثابت ہوتا تھا۔ بارہا ایسا ہوا کہ مشن ادھورا چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔ مگر ہم بھی ڈھیٹ واقع ہوئے تھے کہ آخر کو تو صحافت میں آنا مقدر تھا! کئی بار ہم درختوں سے گرتے گرتے بچے۔ اور ہر بار ہم نے سیکھا کہ درخت سے گرنے سے کیسے بچنا چاہیے! یعنی درختوں پر چڑھنے سے دماغ تیز ہوتا گیا۔ ماہرین اب بتا رہے ہیں، ہم یہ راز پینتیس چالیس سال قبل جان گئے تھے! اِس سے ہمارا وقت سے آگے ہونا ثابت ہوتا ہو یا نہ ہوتا ہو، ماہرین کا وقت سے چار عشرے پیچھے رہ جانا ضرور ثابت ہوتا ہے! 
اب خیال آتا ہے کہ ہمارے بہت سے سیاست دان، ٹاپ بیورو کریٹس اور نچلی سطح کے سرکاری افسران و ملازمین بھی شاید بچپن میں درختوں پر چڑھنے کے عادی رہے ہوں گے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر وہ کرپشن کے درخت پر ایسی آسانی سے کیسے چڑھ جاتے ہیں کہ کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی! اور پھر اُتر کر ''یہ جا اور وہ جا‘‘ والی کیفیت ایسی مہارت سے پیدا کرتے ہیں کہ لوگ سوچتے ہی رہ جاتے ہیں کہ آخر ہوا تو کیا ہوا! رینگ کر رکاوٹیں عبور کرنے کا فن بھی کچھ اہل سیاست اور اعلیٰ ریاستی اشرافیہ ہی پر ختم ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ ماہرین اُن کی مہارت پر غور کریں تو اپنے شعبے یعنی رائے زنی پر لعنت بھیج کر اُن کی صف میں کھڑے ہوجائیں! 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں