"MIK" (space) message & send to 7575

پھر وہی بھیڑ چال؟

ایک زمانے سے اہل وطن فلم انڈسٹری کے بیدار ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔ 1990ء تک جیسے تیسے کام ہوتا رہا۔ اس کے بعد پروڈیوسرز کی ہمت اور ڈائریکٹرز کی صلاحیت نے جواب دے دیا۔ 
1960ء اور 1970ء کے عشروں میں پاکستان کی فلم انڈسٹری اپنے عروج پر تھی۔ ایسے میں بہت کچھ کیا جانا چاہیے تھا تاکہ کامیابی کا سفر جاری رکھنا آسان ہوتا‘ مگر افسوس کہ ایسا کچھ نہ کیا گیا۔ 1980ء کے عشرے میں وڈیو کیسٹ پلیئر کی آمد نے ہماری فلم انڈسٹری کو دیوار سے لگا دیا۔ ایسا اس لیے ہوا کہ بدلتے ہوئے زمانے سے نمٹنے کی پہلے سے تیاری نہیں کی گئی تھی۔ 
مرزا تنقید بیگ پاکستانی فلموں کے غیرمعمولی شوقین رہے ہیں۔ جب فلم انڈسٹری جوان تھی‘ تب وہ نئی فلمیں پہلے یا دوسرے شو میں دیکھا کرتے تھے۔ اور اگر فلم پسند آتی تو دوسری یا تیسری بار دیکھنے میں بھی قباحت محسوس نہیں کرتے تھے۔ جب فلم انڈسٹری پر زوال آیا تو مرزا بھی مایوسی کا شکار ہوئے۔ وہ پاکستانی فلموں کے عہدِ زرّیں کی حسین یادوں سے دل بہلاتے آئے ہیں۔ تین چار سال سے مرزا فلموں کے حوالے سے بہت پُرسکون ہیں۔ لاہور میں فلم انڈسٹری کا زوال مرزا کی طبیعت کو گراں گزرا تھا‘ مگر انہیں اندازہ تھا کہ یہ زوال بلاسبب نہیں۔ فلم انڈسٹری کو نئے خون کی ضرورت تھی۔ نئے دور کے تقاضوں کو نبھانے والی فلمیں بنانا پرانے طور طریقوں پر گزارا کرنے والے ڈائریکٹرز کے بس کی بات نہ تھی۔ ان کا تجربہ مُسلّم مگر سوال نئے زمانے کے تقاضوں کو سمجھنے کا تھا۔ یہ کام وہی کر سکتے ہیں‘ جن کا موجودہ زمانے سے تعلق ہو۔ ''خدا کے لیے‘‘ اور ''بول‘‘ جیسی فلمیں کسی حد تک متنازع ضرور تھیں‘ مگر خیر، ان فلموں سے دنیا کو اندازہ ہوا کہ پاکستان بھی جدید دور کے تقاضوں کے مطابق فلمیں بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
مرزا نے حال ہی میں ''رانگ نمبر‘‘ اور ''بن روئے‘‘ دیکھی۔ دونوں فلموں سے وہ بہت متاثر ہوئے۔ ''رانگ نمبر‘‘ اگرچہ خالص کمرشل یعنی مسالا فلم ہے مگر رائٹر ڈائریکٹر یاسر نواز کی اس فلم نے جس خوبصورتی سے سلمان خان جیسے سپر سٹار کی فلم ''بجرنگی بھائی جان‘‘ سے مقابلہ کیا‘ اس کی داد نہ دینا ناانصافی ہوگی۔ دو تین برس کے دوران کراچی، لاہور، راولپنڈی اور دیگر بڑے شہروں میں سنے پلیکس یا ملٹی پلیکس یعنی جدید طرز کے سینما ہال تعمیر کئے گئے ہیں۔ ان میں فلم جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے پیش کی جاتی ہے۔ جہازی حجم کی ایل ای ڈی سکرین پر فلم دیکھنے کا کچھ اور ہی لطف ہے۔ جدید طرز کے سینما ہال میں ساؤنڈ سسٹم بھی بہت معیاری ہوتے ہیں۔ آج کل فلمیں چونکہ جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے تیار کی جاتی ہیں‘ اس لیے ان میں ڈبنگ اور ساؤنڈ ایفیکٹس کے اعلیٰ معیار کا بھی خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی سے مزیّن سینما ہال کا ٹکٹ ہوتا تو مہنگا ہے مگر فلم دیکھنے کا لطف آجاتا ہے کیونکہ فلم کا ہر پہلو نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے۔ تقریباً ہر فلم کئی فنون میں غیر معمولی مہارت کی طالب نظر آتی ہے۔ جس نے ذرا بھی ڈھیلا پن دکھایا اُس کی پتنگ کَنّوں سے کٹی سمجھیے! 
فلم بنانے کی جدید ترین تکنیک سیکھ کر آنے والے نوجوانوں نے ثابت کیا کہ بہتر مواقع میسر ہونے پر وہ کوئی بھی کمال دکھا سکتے ہیں۔ مرزا کو یہ سب کچھ بہت اچھا لگ رہا ہے۔ کل ان سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگے: ''ہماری فلم انڈسٹری ایک زمانے کے بعد انگڑائیاں لیتی ہوئی بیدار ہوئی ہے۔ نئی نسل کمر کس کر سامنے آئی ہے تو اب فلموں کا حلیہ تبدیل ہو رہا ہے۔ کام کی چیزیں بنائی جا رہی ہیں جن میں صرف تکنیک ہی بہتر نہیں بلکہ موضوعات بھی نئے آزمائے جا رہے ہیں۔ مگر ...‘‘ ہم چونک پڑے۔ مرزا کی زبان سے ''مگر‘‘ کچھ اس طور نکلا کہ کئی داستانوں کا پتا دے گیا۔ مرزا جب اچھی خاصی بات کے درمیان ''مگر‘‘ کہتے ہیں تو ذہن میں وسوسے اٹھنے لگتے ہیں۔ ہم نے ان کے معنی خیز ''مگر‘‘ کی وضاحت چاہی تو مرزا نے کہا: ''پاکستان میں فلم انڈسٹری جاگ تو اٹھی ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ جاگتے ہی یہ بہت زیادہ ناشتہ مانگ رہی ہے!‘‘ 
یہ بات بھی ہماری سمجھ میں نہ آئی۔ فلم انڈسٹری کا ناشتے سے کا تعلق؟ مرزا بولے: ''میاں! بات یہ ہے کہ ہماری فلم انڈسٹری ضرورت اور گنجائش سے زیادہ تیز رفتاری دکھا رہی ہے۔ عوام فلموں کی طرف راغب ہوئے ہیں تو جسے دیکھیے وہ فلم بنانے پر تُل گیا ہے۔ ہر طرف فلمیں بنانے کے اعلانات ہو رہے ہیں، شوٹنگ کا سلسلہ جاری ہے اور فلم پروموشن کا میلہ لگا ہوا ہے‘‘۔ہم نے عرض کیا کہ یہ تو اچھی بات ہے۔ فلم انڈسٹری پروان چڑھ رہی ہے۔ لوگ فلموں کی طرف راغب ہو رہے ہیں اور فلم میکرز پر بھی فلمیں بنانے کا نشا سا سوار ہے۔ ایسے میں انڈسٹری تیزی سے فروغ پائے گی۔ 
مرزا نے ہماری بات سے کسی حد تک اتفاق کیا مگر پھر اپنے ''خیالاتِ معترضہ‘‘ کا سلسلہ آگے بڑھایا: ''ہماری فلم انڈسٹری پر 1970ء کے عشرے میں بھی ایسا ہی وقت آیا تھا۔ لوگ فلمیں دیکھنے کے عادی تھے۔ فلموں کا بزنس پنپتا ہوا دیکھ کر بہت سے ایرے غیرے نتھو خیرے بھی اس طرف چلے آئے‘ اور یوں زوال کی ابتدا ہوئی۔ اور اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ بیان کرنے کی ضرورت تو نہیں ہے۔ اب زمانۂ حال کی طرف آئیے۔ سینما گھروں کی تعداد گھٹتی جا رہی ہے‘ پھر بھی فلم انڈسٹری پنپ رہی ہے۔ ہر طرح کی تیاری کرکے فلمی میدان میں اترنے والوں نے خود کو منوایا ہے‘ مگر مشکل یہ ہے کہ جسے دیکھیے وہ اس صورت حال سے فیض یاب ہونے کے لیے بے تاب دکھائی دے رہا ہے۔ پھر وہی بھیڑ چال کا سماں پیدا ہونے کو ہے۔ یکسانیت زدہ فلموں نے ہماری انڈسٹری کو پہلے بھی زوال آشنا کیا تھا۔ 'گجر کلچر‘ کی فلمیں یاد ہیں ناں؟ تمام فلمیں ایک سی لگتی تھیں۔ اگر لوگ سوچے سمجھے بغیر، محض وقتی فائدہ بٹورنے کے لیے فلم میکنگ کی طرف آئے تو پھر وہی بھیڑ چال دکھائی دے گی ‘‘۔ 
مرزا کو تشویش میں اس لیے مبتلا ہوئے ہیں کہ چند باصلاحیت جواں سال فلم میکرز نے متعدد فلمیں بنانے کا اعلان کیا ہے۔ نئے پروجیکٹس کا اعلان فلم انڈسٹری کے لیے اچھا شگون ہے مگر اس معاملے احتیاط اور تیاری لازم ہے۔ 
مرزا کی طرح ہم بھی سوچ رہے ہیں کہ بڑی مشکل سے بحال ہونے والی فلم انڈسٹری کہیں پھر بھیڑ چال کا شکار نہ ہو جائے۔ ہمارے ہاں ایک بُرا ٹرینڈ یہ بھی تو ہے کہ لوگ ہر نمایاں ٹرینڈ کو اپنانے کے معاملے میں جنونی سے ہو جاتے ہیں! فلم انڈسٹری بھی اس ٹرینڈ سے مستثنٰی نہیں۔ مرزا کی طرح ہم بھی یہی چاہتے ہیں کہ ہماری انڈسٹری ''گجر کلچر‘‘ سے محفوظ رہے اور اس انڈسٹری کی رگوں میں دوڑتا ہوا تازہ خون حقیقی تازگی اور شادابی پیدا کرنے میں معاون ثابت ہو۔ ہماری فلم انڈسٹری بھی فلم کی طرح (دوبارہ) ریلیز ہوئی ہے۔ ایسے میں آرزو یہی ہے کہ اس کی نمائش زور و شور سے جاری رہنی چاہیے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں