اسد اللہ خاں غالبؔ اور علامہ اقبالؔ کو اللہ غریقِ رحمت کرے کہ تقریباً ہر موقع کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور کہہ گئے ہیں۔ غالبؔ نے کہا ہے کہ ؎
پھر جگر کھودنے لگا ناخن
آمدِ فضلِ لالہ کاری ہے
آج ہمیں یہ مصرع بہت زور سے یاد آیا ہے۔ آپ سوچیں گے کہ یہ کون سا موقع ہے اس شعر کو یاد کرنے کا۔ فصلِ گل تو کب کی جاچکی۔ بلکہ اب تو گرمیوں کے بعد برسات کا موسم بھی رخصت ہونے کے لیے پر تول رہا ہے۔ جو کچھ آپ سوچ رہے ہیں وہ غلط نہیں۔ مگر ہمیں جو یہ شعر یاد آیا ہے تو اس کی ''وجہِ تسمیہ‘‘ کچھ اور ہے۔ بات یہ ہے کہ جناب! کہ ہر سال عیدالاضحٰی کی آمد پر ہم تھوڑے سے ملول ہوجاتے ہیں۔ سبب اس کا یہ ہے کہ عیدالاضحٰی سے تقریباً پندرہ بیس دن قبل ہی ایسا بہت کچھ ہونے لگتا ہے جو ہمارے لیے سوہانِ روح ہوجاتا ہے۔ آپ پھر سوچیں گے کہ عیدالاضحٰی کی آمد پر ملول تو قربانی کے جانور ہوتے ہیں کہ اُن کے حلقوم پر چُھریاں پِھرنے والی ہوتی ہیں۔ ایسے میں ہمارا ملول ہونا چہ معنی دارد؟ آپ کی سوچ پھر درست ہے مگر جب ہم دل کی بات بتائیں گے تو آپ بھی ہمارے ملول ہونے کو بلا جواز نہ سمجھیں گے۔
ہم اور آپ جس دور میں جی رہے ہیں اس کی نمایاں ترین خصوصیات میں قدر ناشناسی بھی شامل ہے۔ باصلاحیت لوگوں کو پسند نہیں کیا جاتا، بلکہ باضابطہ نظر انداز کیا جاتا ہے۔ ہم بھی خیر سے، زیادہ نہ سہی تو تھوڑے بہت ہی سہی، باصلاحیت ہیں۔ اور برسوں سے کالم لکھ لکھ کر اپنے باصلاحیت ہونے کا ثبوت فراہم کرنے کی کوشش بھی کرتے آئے ہیں۔ مگر اب تک ہمیں قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا۔ اس کے برعکس، حقیقت یہ ہے کہ جب بھی کسی کو معلوم ہوا ہے کہ ہم کالم لکھتے ہیں تو اُس نے شک اور تشویش کی نظر سے دیکھا ہے!
مرزا تنقید بیگ کا کہنا ہے کہ کالم لکھنے پر لوگوں سے داد کی توقع رکھنا انتہائے حماقت ہے کیونکہ قدر ناشناسی کا ایک بڑا سبب یہ کالم نگاری ہی تو ہے! جسے کچھ نہیں آتا وہ کالم لکھتا ہے، شعر کہتا ہے یا پھر کوئی بھی انٹ شنٹ آئیڈیا منظور کراکے ٹی وی پر بک بک کرنے لگتا ہے!
ہم نے مرزا کی خدمت میں بارہا عرض کیا ہے کہ ہم بہت زیادہ نہیں، بس تھوڑی سی قدر شناسی چاہتے ہیں۔ اور عیدالاضحٰی کی آمد پر دِل دُکھنے کا بنیادی سبب یہ ہے کہ جیسے جیسے چُھریوں اور بُغدوں کی دھار تیز ہوتی جاتی ہے، قربانی کے جانوروں کی قدر و قیمت بھی بڑھتی جاتی ہے۔ اور ایسے میں اپنی کم مائیگی کا احساس ہمیں شدت سے ستاتا ہے! زمانے کا ساتھ نبھاتے نبھاتے، متعلقین کے لیے بہتر زندگی کا اہتمام کرنے کی خاطر محنت کرتے اور قربانیاں دیتے ہوئے ہم بھی اب، دوسرے بہت سے پاکستانیوں کی طرح، خاصی حیوانی سطح پر آچکے ہیں۔ اس سے پہلے کہ حیوانی سطح سے کچھ اور مراد لیا جائے، ہم عرض کردیتے ہیں کہ جس طور حیوان سوچے سمجھے بغیر زندگی بسر کرتے ہیں اور ناک کی سیدھ میں چلتے چلے جاتے ہیں، ہم بھی کچھ اُسی طور جی رہے ہیں۔ لکھنے لکھانے کے حوالے سے ہمارا عملی رجحان ع
نہ ستائش کی تمنا صلے کی پروا
مرزا کے سامنے ہم نے جب بھی عیدالاضحٰی کے دنوں میں مویشیوں کے مقابل اپنی بے قیمتی کا رونا رویا ہے، انہوں نے یہ کہتے ہوئے ہمیں غلط ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ قربانی کے جانور ہیں اس لیے ان کی قیمت بھی زیادہ ہے اور قدر بھی۔ یہ بات سن کر ہم نے انہیں ہمیشہ یاد دلایا ہے کہ ہم بھی تو قربانی کے بکرے ہیں اور زندگی بھر ذبح ہوتے آئے ہیں! مرزا یہ ہر بار یہ کہتے ہوئے ہماری قربانی کے بکروں والی حیثیت کو بے وقعت کرنے کی کوشش کی ہے کہ قربانی کے بکروں میں جو کچھ ہوتا ہے کہ وہ بہ رغبت کھایا جاتا ہے، آپ میں ہے کیا جو کوئی قربان کرکے کچھ پائے؟ وہاں تو گوشت ہے، سری پائے ہیں۔ اور یہاں؟ دماغ میں کالم بھرے ہیں جن کا اثر دل تک گیا ہے اور دل کو بھی ناکارہ بناگیا ہے!
قربانی کے جانوروں کو جب اعلیٰ درجے کے چاول والی قیمت کا چارا کھلایا جاتا ہے تو اپنے ''بے چارگی‘‘ کا احساس شدت اختیار کرتا ہے اور ہم دل مسوس کر رہ جاتے ہیں۔
آج کی دنیا میں ہر چیز تجارت کے اصولوں کی چوکھٹ پر قربان ہوچکی ہے۔ محنت اور صلاحیت ہی کو نہیں بلکہ رشتوں کی نزاکت کو بھی تجارت کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے۔ ہم اور آپ بھی اسی معاشرے اور زمانے کا حصہ ہیں۔ جو اصول سب کے لیے ہیں وہ ہمارے اور آپ کے لیے بھی ہیں۔ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔ مگر یہ کیا کہ منڈی سجتے ہی قربانی کے جانوروں کی قدر و قیمت کہیں سے کہیں جا پہنچے اور ہماری بے قیمتی اپنے گریبان میں جھانک کر مزید شرمندہ ہو!
قربانی کے جانوروں کی توقیر ہم سب پر لازم ہے۔ صحت مند اور جاذبِ نظر جانور کی قربانی افضل ہے اور ایسا جانور تو مہنگا ہی ملتا ہے۔ ٹھیک ہے، ہم بھی اس بات کے قائل ہیں کہ اللہ کے نام پر ذبح کیا جانے والا جانور صحت مند اور جاذبِ نظر ہو مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ قربانی کے جانوروں کے مقابل انسانوں کی کوئی حیثیت ہی نہ ہوں اور وہ بے چارے دن رات اور بات بے بات قربانیاں دینے کے باوجود قربانی کے جانور کا سا درجہ بھی نہ پاسکیں! قربانی کے جانور کے جتنے ناز اٹھائے جاتے ہیں اگر ان کے عشر عشیر کے برابر بھی ہمارے ناز اٹھائے جائیں تو ہمارے دل میں کوئی حسرت نہ رہے اور ہم ''پریم رتن دھن پایو‘‘ کی منزل تک پہنچ جائیں!
قربانی کے جانور کے لیے اعلیٰ ترین معیار کے چارے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ جہاں اسے باندھا جاتا ہے وہاں صفائی کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ قابلِ تعریف ہے۔ لیکن اگر بیگمات گھر کے سکھ چین کی خاطر دن رات گدھوں اور پتہ نہیں دوسرے کون کون سے جانوروں کی طرح محنت کرنے والے شوہروں کا بھی اِسی طرح خیال رکھا کریں تو بے چاروں کی کچھ ڈھارس بندھے اور جینا اکارت نہ جائے! مگر صاحب، کم ہی خواتین کو اللہ نے ''حیوان پسند‘‘ دل سے نوازا ہے یعنی جتنے احترام سے وہ قربانی کے جانور کو دیکھتی ہیں اتنے ہی احترام سے سال بھر قربانی کے بکرے کا کردار ادا کرنے والوں یعنی شوہروں کو بھی دیکھتی ہیں!
آج کل پاکستان میں طرح طرح کے ٹرینڈز آئے ہوئے ہیں۔ ایک ٹرینڈ تبدیلی کے نعرے لگاتے رہنے کا ہے۔ عمران خان نیا پاکستان بنانے کا دعوٰی کرتے نہیں تھک رہے۔ اور انہیں مکمل ناکام بھی قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ شادی کرکے انہوں نے کم از کم نجی زندگی کے خدوخال تو تبدیل کر ہی لیے ہیں! تبدیلی کے نعرے لگانے والے دیگر حضرات سے بھی التماس ہے کہ اور کچھ تبدیل کریں نہ کریں، کسی نہ کسی طرح اتنی تبدیلی تو یقینی بنائیے کہ پورا سال گھر بھر کی خاطر قربانی کے بکرے کا کردار عمدگی سے ادا کرنے والے شوہروں کو کم از کم اتنی ہی اہمیت دی جائے جتنی عیدالاضحٰی کے موقع پر قربانی کے جانوروں کو دی جاتی ہے! اگر اتنا بھی ہوجائے تو ہم سمجھیں گے کہ سال بھر گھر کا بوجھ اٹھانے والے بے زبان شوہروں کے لیے نیا پاکستان معرض وجود میں آگیا!