"MIK" (space) message & send to 7575

بُری عادت چھوڑنے کا طریقہ

ہم نے کہیں پڑھا ہے کہ بری عادتیں بھی دشمنوں کی طرح ہوتی ہیں یعنی آسانی سے پیچھا نہیں چھوڑتیں۔ بات تو سچ ہے مگر ہم اس میں تھوڑی سی ترمیم کرنا چاہیں گے۔ بری عادتیں محض دشمنوں جیسی نہیں ہوتیں بلکہ بہت حد تک پکّے دوستوں جیسی بھی ہوتی ہیں۔ کیا پکّے دوست جان چھوڑتے ہیں؟ نہیں نا۔ بس تو پھر دشمنوں کو زیادہ ذلیل نہ کیا جائے! 
تحقیق کرنے والوں کا احسان ہے کہ آئے دن طرح طرح کے انوکھے تجربات کے ذریعے ہمیں بتاتے رہتے ہیں کہ کون کون سے کام آسانی سے کئے جاسکتے ہیں اور کون کون سے مشکل کام نہ کئے جائیں تو بہتر ہے! یہ اور بات ہے کہ جب آسانی کے چکر میں تحقیق کرنے والوں کا سُجھایا ہوا نسخہ آزماتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پہلے ہم یہ کام زیادہ آسانی سے کرلیا کرتے تھے! اور جب نتائج بھگتنے پر تحقیق کرنے والوں کی تلاش میں نکلیے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ سب مغربی ممالک میں رہتے ہیں! اب اگر ہمت ہے تو پاسپورٹ بنوائیے اور آٹھ دس لاکھ خرچ کرکے ویزا لگوائیے اور محققین کی تلاش میں نکل جائیے! 
معاشرتی معاملات میں بہتری لانے کے لیے بھی تحقیق کی روشنی میں بہت انوکھی تجاویز پیش کی جاتی ہیں۔ مثلاً ایک تجویز یہ ہے کہ لوگوں کی محبت اور وفاداری کو آزمانا ہے تو بُرے وقت میں آزمائیے۔ اب اگر آپ پر اچھا وقت آیا ہوا ہے تو پہلے بُرے وقت کا انتظار کیجیے! اور اگر آپ کے اچھے وقت سے کچھ لوگ اچھی طرح مستفید ہو رہے ہیں اور ان کی وفاداری کی استقامت آزمانے کے معاملے میں آپ سے صبر نہیں ہو پارہا تو اپنے لیے فوری بُرے وقت کا اہتمام کیجیے۔ اور اگر آپ کے اچھے وقت میں آپ کے ارد گرد منڈلانے والے آپ کو مشکل میں دیکھ کر بھی نہ کھسکے تو نتائج کا ذمہ دار کون؟ 
کسی بھی بُری عادت کو چھوڑنا کچھ زیادہ مشکل کام نہیں۔ تمباکو نوشی ہی کی عادت کو لیجیے۔ سگریٹ پینے کی عادت پڑ جائے تو اُس سے جان چھڑانا انتہائی دشوار دکھائی دیتا ہے مگر حقیقت کچھ اور ہے۔ معروف امریکی طنز و مزاح نگار مارک ٹوئین نے لکھا ہے کہ سگریٹ چھوڑنا کچھ مشکل نہیں، میں خود کئی بار چھوڑ چکا ہوں! مارک ٹوئین نے ایک عالمگیر حقیقت کو کتنی خوبصورتی سے محض ایک جملے میں بھگتا دیا۔ ہم اور آپ اپنی بہت سی بُری عادتوں کو اسی طور چھوڑتے (اور دوبارہ اپناتے) رہتے ہیں! 
بہت سی بُری عادتیں ایسی ہوتی ہیں جو چند مخصوص حالات ہی میں چُھوٹ پاتی ہیں۔ مثلاً اگر کسی کو بھٹکتے رہنے کی عادت ہے تو اُسی وقت چُھوٹے گی جب جسم میں چلنے کی طاقت ہی نہ رہے ۔بُری عادتوں سے چُھٹکارے کے لیے محققین کی سُجھائی ہوئی بعض تجاویز اور تراکیب بھی کچھ اِسی نوعیت کی ہوتی ہیں۔ آپ اگر مچھروں سے پریشان ہوں تو کیا کریں گے؟ مچھر مار اسپرے کریں گے، جسم پر مچھروں کو دور رکھنے والا لوش لگائیں گے، برادہ وغیرہ جلاکر دھواں کریں گے تاکہ مچھر بھاگ جائیں یا پھر ''نیٹ ورکنگ‘‘ کا سہارا لیں گے یعنی مچھر دانی تان کر سوئیں گے تاکہ مچھر اس نیٹ ورک کو توڑ کر آپ تک پہنچنے کے قابل نہ رہیں! یہ تمام آزمودہ طریقے ہیں اور کسی نہ کسی حد تک کارگر ثابت ہوتے رہے ہیں۔ مگر تحقیق کرنے والے ہمیشہ بہت دور کی، شاید کسی اور سیّارے کی کوڑیاں لاتے ہیں۔ مثلاً مچھروں سے نجات کے لیے وہ اس قسم کا نسخہ تجویز کریں گے کہ مچھر کو پکڑیے، اسے گدگدی کیجیے۔ جب وہ ہنسنے کے لیے منہ کھولے تو بے ہوشی کی دوا کا ایک قطرہ اس کے منہ میں ٹپکائیے۔ اور جب وہ بے ہوش ہوجائے تو اطمینان سے جس طرح جی میں آئے اُسے ٹھکانے لگائیے! دیکھا آپ نے۔ اتنا سا معاملہ ہے اور ہم مچھر دانی، دھویں، لوشن اور اسپرے کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں! 
بات ہو رہی تھی تمباکو نوشی سے نجات کی۔ تمباکو نوشی کا سب سے مقبول طریقہ سگریٹ پھونکنا ہے۔ جو لوگ روزانہ پندرہ بیس یا اس سے زائد سگریٹ پھونکتے ہیں ان سے اگر پوچھیے کہ وہ اس دھواں بھر حرّافہ کو چھوڑ کیوں نہیں پاتے تو جواب ملتا ہے ع 
چُھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی!
گویا اُسے کافر سمجھتے ہیں تبھی جلا جلاکر مارنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں! تمسخر برطرف، سگریٹ پھونکنے کی عادت نے ہمارا بہت کچھ پھونک ڈالا ہے۔ ہر سال اربوں روپے اِس بُری عادت کی نذر ہوجاتے ہیں۔ کوئی تو صورت ہو اِس سے نجات کی۔ ذہن پر زیادہ زور مت دیجیے۔ محققین آپ کا مسئلہ حل کرنے کے لیے ایک انوکھی کوڑی لائے ہیں جو، ظاہر ہے، بہت دور کی ہے۔ 
تحقیق کی روشنی میں ''مژدہ‘‘ سنایا گیا ہے کہ فالج کے مریضوں کے لیے سگریٹ چھوڑنا بہت آسان ہوتا ہے۔ تفصیل کچھ یوں ہے کہ ''انسولر کورٹیکس‘‘ دماغ کا وہ حصہ ہے جو انسان کو سگریٹ پھونکنے کی عادت کی طرف لے جاتا ہے۔ جب کسی پر فالج گرتا ہے تو انسولر کورٹیکس شدید متاثر ہوتا ہے یا تقریباً ناکارہ ہوجاتا ہے۔ کسی حادثے کی صورت میں بھی دماغ کا یہ حصہ کام کرنے سے انکار کرسکتا ہے۔ ایسے میں سگریٹ پھونکنے کی عادت جاری رکھنا ممکن نہیں ہوتا۔ 
سمجھ میں نہیں آتا اس ماہرانہ رائے پر داد کے ڈونگرے برسائے جائیں یا متعلقہ محققین پر ڈنڈوں کی برسات کی جائے! پہلی بات تو یہ ہے کہ جب کسی انسان پر فالج گرتا ہے تو وہ باقی سارے غم بھول جاتا ہے اور جسم کے فالج زدہ حصے کو بحال کرنے کی تگ و دو میں لگ جاتا ہے۔ ایسے میں سگریٹ پھونکنا کسے یاد رہتا ہے؟ اور اگر کوئی چاہے بھی تو تیمار دار اُسے سگریٹ پھونکنے دیں گے؟ جو لوگ فالج زدہ شخص کو دوبارہ چلنے پھرنے کے قابل بنانے میں جُتے ہوں وہ اگر اُسے سگریٹ پھونکنے پر مائل پائیں گے تو گلا دبانے میں دیر نہیں لگائیں گے! 
کتنی دیدہ دِلیری سے تجویز پیش کی جارہی ہے کہ سگریٹ پھونکنے سے باز رہنا ہے تو فالج گرنے کی ''دعا‘‘ کیجیے یا پھر انسولر کورٹیکس کو ناکارہ بنانے کے لیے کسی حادثے کو ''دعوت‘‘ دیجیے! تجویز پیش کرنے کا کمال بھی محققین پر ختم ہے۔ 
ساتھ ہی ساتھ یہ تجویز بھی پیش کی گئی ہے کہ آپریشن کے ذریعے ''انسولر کورٹیکس‘‘ کی کارکردگی کا گراف زیرو بنانے میں مدد لی جاسکتی ہے۔ گویا انسان کو سگریٹ پھونکنے سے باز رکھنے کے لیے آپریشن ٹیبل پر لِٹایا جائے! بہت خوب۔ اور اگر کوئی اونچ نیچ ہوگئی اور بندہ پہلے سے زیادہ سگریٹ پھونکنے پر تُل گیا تو ذمہ دار کون ہوگا؟ اس معاملے میں محققین نے چُپ کا روزہ رکھا ہوا ہے۔ 
محققین کا کمال یہ ہے کہ وہ بُری عادت سے چُھٹکارے کے لیے ایسے حالات تجویز کرتے ہیں کہ جب کسی بھی بُری عادت کا برقرار رہنا تقریباً ناممکن ہوچکا ہو! یعنی اگر کوئی زیادہ کھانے کا شوقین اور عادی ہے تو اُس کے جسم سے آنتیں اور معدہ وغیرہ آپریشن کے ذریعے نکال کر پھینک دیئے جائیں! اگر کوئی بہت باتیں کرتا ہے تو خاموش کرنے کی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ اُس کا منہ مچھلی پکڑنے کی ڈور سے سی دیا جائے! اگر کوئی رات دن ٹی وی سیٹ کے سامنے بیٹھا رہتا ہو تو ٹی وی سیٹ ہی توڑ دیا جائے! (مگر ذرا خیال سے، متعلقہ فرد بھی آپ کا سَر پھوڑ سکتا ہے!) 
بعض بُری عادتیں محققین کی سُجھائی ہوئی ''تیر بہ ہدف‘‘ تراکیب اور تجاویز کی روشنی میں چُھڑائی جاسکتی ہیں۔ مثلاً کوئی ہر وقت مطالعہ کرتا ہو تو گھر والے اس کی کتابیں الماری میں بند کرکے اُس کی یہ ''عادتِ بد‘‘ کسی حد تک چُھڑا سکتے ہیں لیکن اگر کوئی بچہ تعلیم میں دلچسپی نہ لیتا ہو اور کتاب کو ہاتھ لگانا ہی پسند نہ کرتا ہو تو؟ اِس حوالے سے بھی محققین نے اب تک چُپ کا روزہ نہیں توڑا۔ ابھی تک اُنہیں دماغ کے اُس حصے کا سُراغ نہیں ملا جو اچھی عادات کو اپنانے میں معاون ثابت ہو! ہماری رائے یہ ہے کہ محققین کے دماغوں کے آپریشن کئے جائیں تاکہ وہ دماغوں میں اچھی عادات کو فروغ دینے والے حصے دریافت کرنے کے قابل ہوسکیں! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں