"MIK" (space) message & send to 7575

… ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں!

آئے دن اس بات کا رونا رویا جاتا ہے کہ ہم آج جس معاشرے کا حصہ ہے‘ وہ بہت حد تک حیوانی جبلّت کا حامل ہے یعنی جنگل کا قانون شہر شہر، بستی بستی، قریہ قریہ نافذ ہے‘ مگر سال میں ایک موقع ایسا بھی آتا ہے جب ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ معاشرہ ابھی حیوانی سطح سے بہت دور ہے۔ عیدالاضحیٰ کی آمد پر جب قربانی کے جانوروں کی خریداری شروع ہوتی ہے‘ تب اندازہ ہوتا ہے کہ حیوان کی قدر و قیمت کیا ہے اور انسانوں کی ''زری اوقات‘‘ کتنی رہ گئی ہے! 
قربانی کے جانور سے انسان کو ایک خاص حد تک انسیت ہو ہی جاتی ہے، بالخصوص بچوں کو۔ بچے معصوم ہوتے ہیں۔ انہیں کیا معلوم کہ قربانی کے جانور تو سال میں ایک بار ذبیحے کی منزل سے گزرتے ہیں۔ یہاں تو قدم قدم پر قربانی کے ایسے بکرے پائے جاتے ہیں جو سال بھر ذبح ہوتے رہتے ہیں اور ان کے حلق سے ''جی بیگم‘‘ کے سوا کوئی آواز برآمد نہیں ہوتی اور یہ آواز بھی ایک آدھ میٹر کے محیط تک محدود رہتی ہے! 
شہر شہر قربانی کے جانوروں کی منڈیاں لگی ہوئی ہیں‘ اور ان منڈیوں میں وہ لوگ آرہے ہیں جن کے لیے قربانی سال میں ایک بار والا معاملہ نہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یہ لوگ سال بھر قربانی ''دیتے‘‘ ہیں اور سال میں ایک بار قربانی ''کرتے‘‘ ہیں! مہنگائی اور زندگی کی دیگر کلفتوں نے آج کے انسان کی ایسی حالت کردی ہے کہ جب یہ منڈی میں قربانی کا جانور خریدنے کے لیے جانچ پڑتال کا مرحلہ شروع کرتا ہے تو جانوروں کی بھی ہنسی چُھوٹ جاتی ہے اور وہ بے زبانی کی زبان سے کہنے لگتے ہیں ع 
دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بندِ قبا دیکھ! 
جب سودے بازی کی کوشش کی جارہی ہوتی ہے تب جانوروں کے بیوپاری، جو زبان و بیان کی زیادہ مہارت نہیں رکھتے، اپنے جانوروں جیسی ہی بے زبانی سے خریدار کو شرمندہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں یعنی کھردرے یا غیر مہذّب انداز یا لب لہجے سے اُسے احساس دلاتے ہیں کہ ؎ 
کیوں مانگ رہے ہوں کسی بارش کی دعائیں 
تم اپنے شکستہ در و دیوار تو دیکھو! 
قربانی کے جانوروں کی قیمتیں سن کر بہت سے متوقع خریداروں پر سکتہ سا طاری ہوجاتا ہے۔ پھر بہت دیر تک کچھ بھی سمجھ میں نہیں آتا۔ اس مرحلے کو غالبؔ نے یوں بیان کیا ہے ؎ 
آگے آتی تھی حالِ دل پہ ہنسی 
اب کسی بات پر نہیں آتی! 
ٹی وی چینلز کو ہمارے جذبات کا ذرا بھی خیال نہیں۔ چینلز کے نمائندے مائکروفون کو چُھرے کی طرح تھامے مویشی منڈیوں کی خبر لیتے پھر رہے ہیں۔ مویشی منڈیاں دکھا دکھاکر ہمارے احساس کمتری کو محکم کئے جارہے ہیں۔ جانوروں کی قیمتیں سن کر اپنی بے وقعتی کا احساس اتنی شدت سے ہوتا ہے کہ کسی سُوکھے دریا میں ڈوب مرنے کو جی چاہتا ہے۔ 
جانوروں کے بیوپاری جب بتاتے ہیں کہ انہوں نے ''ببلو‘‘ یا ''گڈو‘‘ کو اصلی گھی، مکھن، دودھ، بادام، پستے وغیرہ کھلاکر قربانی کے لیے تیار کیا ہے‘ تو یقین کیجیے سننے والوں کا خشک میوہ جات کے چھلکوں جیسا منہ نکل آتا ہے! اور ستم یہ ہے کہ ؎ 
اب تو اُتنی بھی میسر نہیں مے خانے میں 
جتنی ہم چھوڑ دیا کرتے تھے پیمانے میں 
یعنی عام آدمی کو خشک میوہ جات کے چھلکے بھی میسر نہیں۔ بادام کا تیل نکالنے کے بعد جو بُھوسا بچتا ہے وہ بھی جانوروں ہی کا مقدر بنتا ہے، انسانوں کو نصیب نہیں ہوتا۔ یعنی ع 
... بے چارے مسلماں کو فقط وعدۂ حُور! 
منڈی میں گوشت کے پہاڑ کی تصویر پیش کرنے والے قربانی کے جانوروں کو دیکھ کر جب خریدار اپنی جسمانی ساخت پر ایک غیر جانب دارانہ نظر ڈالتے ہیں تو اپنی ہی نظر میں مزید گر جاتے ہیں۔ 
ایک طرف قربانی کے جانوروں کی چڑھی ہوئی قدر و قیمت اور دوسری طرف انسان کی بے وقعتی! ہائے ہائے، کوئی مقابلہ ہی نہیں۔ ہم تو منڈی میں داخل ہونے کے بعد مقابلے سے پہلے ہی شکست تسلیم کرلیتے ہیں۔ مقابلے کا خیال آئے بھی کیسے؟ ہم کیا اپنی حالت کو نہیں جانتے؟ بے بضاعتی کا یہ عالم ہے کہ بقول شکیلؔ بدایونی ؎ 
زندگی آج مِرے نام سے شرماتی ہے 
اپنی حالت پہ مجھے خود بھی ہنسی آتی ہے! 
ہمیں یقین ہے کہ اگر مارکیٹ کے حالات کے بارے میں تھوڑی بہت بریفنگ دی جائے تو آسمان سے باتیں کرتی ہوئی اپنی قیمتوں اور انسان کی بے قیمتی کے بارے میں جان کر قربانی کے جانور بھی شرمندہ ہوجائیں! جن جانوروں کو سال بھر ٹھونس ٹھونس کر کھلایا پلایا جاتا ہے انہیں اگر خوراک کی قلّت سے دوچار انسانوں کے بارے میں بتایا جائے تو بالیقیں بے حد بے مزا ہوں۔ 
ہر سال کی طرح اس سال بھی قربانی کے تگڑے جانور منڈی
میں لائے گئے ہیں اور اب ان کی ''رونمائی‘‘ کی جارہی ہے۔ اس نیک کام میں میڈیا والے بھرپور جوش و خروش سے اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ لوگ اہل خانہ کے ساتھ مویشی منڈی پہنچ کر جانوروں کے ساتھ سیلفیاں لے رہے ہیں۔ اور یہ عمل ایسا ہے کہ جو اس میں غرق ہوجائے اسے دنیا و مافیہا کی کچھ خبر نہیں رہتی۔ کیا بچے اور کیا بڑے ... سبھی قربانی کے جانوروں کے ساتھ سیلفیاں لیتے وقت ''مجھے مست ماحول میں جینے دے‘‘ کی تصویر بن جاتے ہیں اور ان کی اجتماعی کیفیت غالبؔ کے اس شعر کی تعبیر بن جاتی ہے ؎ 
ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی 
کچھ ہماری خبر نہیں آتی! 
ہر بڑے شہر کے باہر قائم کی گئی خصوصی مویشی منڈی‘ چار دن کا میلہ ہے۔ اس میلے میں گھوم پھر کر طرح طرح کے تماشے دیکھنا بھی ایک اچھا آپشن ہے۔ مگر اس سے بڑھ کر ایک آپشن اور بھی ہے، یہ کہ انسان مویشی منڈی کو آئینہ تصور کرکے اپنے وجود کا جائزہ لے۔ یعنی کچھ تو ایسا کرے کہ کل کو اس کی قدر و قیمت بھی بڑھے اور وہ بھی توقیر پائے۔ زندگی کی چُھری سے ذبح تو ہوتے ہی رہنا ہے۔ اگر بھرپور یا کماحقہ قیمت پاکر ذبیحے کی منزل سے گزریں تو یہ احساس دل کو اطمینان دلانے کے لیے موجود ہو کہ محنت مکمل ضائع نہیں ہوئی! ہر مرحلے پر یہ تو نہیں ہونا چاہیے کہ ع 
آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لے کے رہ گئے! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں