ماننے یا نہ ماننے کا سوال ہی نہیں۔ آفاقی حقیقت یہ ہے کہ گھر کی حدود میں مرضی خواتین کی چلتی ہے۔ بیشتر معاملات میں ہوتا وہی ہے جو خواتین خانہ چاہتی ہیں، ہاں رائے طلب کرکے گھر کے دیگر افراد کو بھی ''شریکِ جرم‘‘ کرنے کا اہتمام ضرور کیا جاتا ہے۔
بہت سی، بلکہ بیشتر خواتین خانہ کا طریق واردات یہ ہے کہ روزانہ کچھ بھی پکانے سے قبل گھر والوں کو بھی طبع آزمائی کی دعوت دیتی ہیں یعنی ان سے رائے طلب کرتی ہیں۔ چند لمحوں کے لیے ؎
صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے
والی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ گھر کا ہر فرد یہ سمجھنے لگتا ہے کہ اسے عزت دی جارہی ہے۔ کچھ دیر تک گھر پولنگ بوتھ کا سماں پیش کرتا رہتا ہے یعنی سب اپنے اپنے ووٹ کاسٹ کر رہے ہوتے ہیں۔ گھر کا ہر فرد یہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ آج اس کی گڈی چڑھی ہوئی ہے، جو وہ چاہے گا وہی ہوگا۔ سب خیالوں ہی خیالوں میں خدا جانے کیا کیا پکانے اور کھانے لگتے ہیں! خاتون خانہ کی طرف سے محض ایک اشارا ہوتا ہے، یہاں تو لوگ آرزوؤں اور امیدوں کا میلہ سجا بیٹھتے ہیں۔ گویا ع
کمال اُس نے کیا اور میں نے حد کردی
جب خاتون خانہ دیکھ لیتی ہیں کہ ووٹ کاسٹ کرنے کی دعوت ملنے کے بعد گھر کا ہر فرد کامیابی کے تصور میں گم ہے، ممکنہ فتح کے نشے میں چُور ہے تب وہ اپنے ترکش کا آخری تیر نکالتی ہے اور دیکھتے دیکھتے ہی تمام ووٹ اس کے آگے ڈھیر ہوجاتے ہیں۔
جب گھر کے تمام افراد ''آج کی ڈش‘‘ کے لیے اپنی اپنی رائے دے چکتے ہیں تب خاتون خانہ کی طرف سے ارشاد ہوتا ہے کہ تین چیزیں پکائی جاسکتی ہیں۔ اور پھر وہ تین ممکنہ ڈشوں کے نام بھی گنوا دیتی ہے۔ دیکھا آپ نے؟ کوئی کچھ بھی کہتا رہے اور کیسے ہی خواب دیکھتا رہے، خاتون خانہ کو کرنا وہی ہے جو اس نے طے کر رکھا ہوتا ہے! جب وہ اپنی سہولت کے مطابق تین ڈشوں کا اعلان کرتی ہے تو گھر کے باقی افراد کی پسند کہاں گئی؟
بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔ اب تین میں سے کسی ایک ڈش پر گھر کے باقی افراد متفق ہوں تو جواب آتا ہے کہ آج تو اس چیز کا ناغہ ہے، بازار میں ملے گی ہی نہیں! لیجیے، پہلا آپشن مارا گیا!
گھر کے تمام افراد مل کر طے کرتے ہیں کہ سیکنڈ نمبر کی ڈش بنائی جائے۔ خاتون خانہ کی ذہانت، بلکہ چالاکی کا امتحان اب ہے۔ جیسے ہی گھر کے افراد دوسری ڈش کے حق میں رائے دیتے ہیں، خاتون خانہ کی طرف سے ارشاد ہوتا ہے کہ اس کے اجزائے ترکیبی میں شامل چند اشیاء کا یہ موسم ہی نہیں۔ اب اگر کوئی کہے کہ بازار میں پیکٹ کی شکل میں وہ چیز ملتی ہے تو جواب آتا ہے کہ جو مزا موسم کی یعنی تازہ چیز ڈالنے کا ہے اس کا مقابلہ پیکٹ میں بند چیز کر ہی نہیں سکتی! یہ جواب سن کر اہل خانہ وہیں کے وہیں ٹُھس ہوجاتے ہیں!
اب آئیے تیسری ممکنہ ڈش کی طرف۔ یہی وہ ڈش ہے جو آج پکے گی کیونکہ خاتون خانہ نے پہلے سے طے کر رکھا تھا کہ اس کے سوا کچھ پکانا ہی نہیں۔ اور یہ اس لیے طے کر رکھا تھا کہ ریفریجریٹر میں اِسی ڈش کا تو سامان رکھا تھا! گویا ع
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا!
اب اگر گھر کا کوئی فرد اس تیسری یعنی ''آج کی ڈش‘‘ کے بارے میں تحفظات کا اظہار کرے تو خاتون خانہ پلک جھپکتے میں اپنی ساری جمہوریت نوازی چھوڑ کر ایسا کرارا جواب دیتی ہے جو علامہ اقبالؔ کی زبان میں کچھ یوں ہوتا ہے ع
دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بندِ قبا دیکھ!
یہ ہوتی ہے ذہانت۔ سیاست دانوں کو اپنی چالاکیوں پر بہت ناز
ہے۔ وہ ذرا خواتین خانہ سے سیکھیں کہ کس طور اپنی مرضی کی چیز بھی پکانی ہے اور جمہوریت کا میلہ سجاکر سب کی رائے بھی لینی ہے تاکہ سند رہے! اور اس فن میں خواتین خانہ کے فن کی بلندی یہ ہے کہ جن کے نصیب میں شکست لکھی ہے وہ آخر تک فتح کا سوچ سوچ کر خوش ہوتے رہتے ہیں۔ گویا ؎
وہ اِس کمال سے کھیلا تھا عشق کی بازی
میں اپنی جیت سمجھتا تھا مات ہونے تک!
لوگ جمہوریت کے حُسن سے متعلق دنیا بھر کی خوش کُن باتیں کرتے رہتے ہیں۔ ہم نے اپنی ''چھوٹی سی‘‘ عمر میں جتنی جمہوریت دیکھی ہے اس کا تجزیہ کرکے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جمہوریت ایسی عمارت ہے جو ہے تو بہت مضبوط مگر اِس پر پلاستر کیا گیا ہے نہ کھڑکی دروازے لگے ہیں۔اب آئیے آمریت کے حُسن کی طرف۔ آمریت کا اصل حُسن اِس حقیقت میں پوشیدہ ہے کہ ہر شخص یہ سمجھتا رہے کہ اُس کی رائے کو اہمیت دی جارہی ہے۔ اُس کے لیے یہ خمار ہی بہت ہے۔ اور حقیقت یہ اپنی جگہ ہے کہ آمریت میں مرضی فردِ واحد کی چلتی ہے۔
ویسے تو خیر خواتین دوسرے بہت سے معاملات میں بھی ستم ڈھانے کا ہنر کمال کی حد تک جانتی ہیں مگر کھانا پکانے کا معاملہ ایسا ہے جس میں وہ یدِ طُولٰی رکھتی ہیں۔ اور اِس میں اُن کے لیے دل کی تسکین کا حسین پہلو بھی مضمر ہے۔ کسی بھی عورت کے لیے اس سے زیادہ خوشی اور اطمینان کی بات کیا ہوسکتی ہے کہ وہ گھر کے تمام افراد کو روز اپنی مرضی کی چیز کھلائے اور جب چاہے اِس حوالے سے انہیں اپنی تجربہ پسندی کی بھینٹ بھی چڑھائے!
چینلز پر پیش کیے جانے والے کوکنگ شوز کی مہربانی سے اب خواتین سائنس دان کے درجے پر فائز ہیں۔ ٹی وی پر تراکیب دیکھ کر وہ طرح طرح کے تجربے کرتی ہیں۔ اور کیوں نہ کریں؟ گھریلو زندگی کی ذمہ داریاں ''مردانِ خانہ‘‘ کو بہت پہلے چُوہا بناچکی ہوتی ہیں! کوکنگ شو کی تراکیب پر عمل کرنے والی بہت سی خواتین جب گھر والوں سے کہتی ہیں کہ آج کیا بنایا جائے ... سندھی بریانی، ممبئی بریانی یا پھر افغانی پلاؤ؟ تو گھر والوں کی طرف سے جواب ملتا ہے جو کچھ پکانا
ہے پہلے پکا لیجیے، طے کرکے نام ہم بعد میں رکھ لیں گے!
خواتین خانہ گھر کی حکمران ہوتی ہیں اور اِس حقِ حکمرانی کو وہ اپنی مرضی کے اظہار کے لیے ایسی بے دردی سے استعمال کرتی ہیں کہ اہل خانہ (اپنے) سَر پیٹتے رہ جاتے ہیں۔ گھر میں جتنے بھی کام ہیں، خواتین ہی کی مرضی سے ہوتے ہیں۔ اگر آپ کچھ خاص پہننا چاہتے ہیں تو اُس لباس کے اِتنے عیب گنوائے جائیں گے کہ آپ خود ہی سہم کر اپنی مرضی کا گلا گھونٹ دیں گے! اگر کوئی خاص شربت پینا چاہتے ہیں تو خواتین خانہ فوراً طبیبانہ مہارت کا چولا اوڑھ کر اس شربت کے اِتنے نقصانات گنوائیں گی کہ آپ کو اپنی فرمائش سے دستبردار ہوتے ہی بنے گی! اگر آپ عطر لگانا چاہتے ہیں تو بیرون ملک کا پرفیوم لگانے پر اصرار کیا جائے گا۔ اور آپ نے پرفیوم کی شیشی ہاتھ میں لی تو جھپٹ کر رکھ دی جائے گی کہ اس میں تو الکحل ہوتا ہے جس کے باعث نماز نہیں ہوتی! اب آپ لاکھ سمجھائیے کہ آپ کو پرفیوم لگانے کے فوراً بعد کون سی نماز پڑھنی ہے مگر آپ کے موڈ کو بدبودار کرنے کے بعد ہی سکون کا سانس لیا جائے گا!
قصہ مختصر یہ کہ ہم (یعنی ہم اور آپ) کیا اور ہماری مرضی کیا؟ ع
جو چاہیں سو ''وہی‘‘ کرے ہیں ہم کو عبث بدنام کیا!