میر انیسؔ کے دادا میر حسنؔ نے ویسے تو بہت کچھ کہا تھا مگر ایک غزل نے انہیں دوام بخش دیا ہے۔ اس غزل کا مطلع ہے ؎
ہم نہ نکہت ہیں نہ گل ہیں کہ مہکتے جاویں
آگ کی طرح جدھر جاویں، دہکتے جاویں
اسی غزل میں میر حسنؔ نے یہ بھی کہا ہے ؎
جو بھی آوے ہے وہ پہلو میں ترے بیٹھے ہے
ہم کہاں تک تِرے پہلو سے سرکتے جاویں!
بس کچھ ایسی ہی کیفیت سے بھولو بھی دوچار ہے۔ آپ سوچیں گے یہ بھولو کہاں سے بیچ میں آگیا۔
بات یہ ہے جناب کہ بھارت کی ریاست اتر پردیش کے ضلع اعظم گڑھ میں بریلی ہائی وے پر ایک قبر ایسی بھی ہے جس پر پُھول چڑھانے کی بجائے جوتے برسائے جاتے ہیں۔ یہ قبر ایک ایسے انسان کی ہے جو غداری کے جرم کا مرتکب ہوا تھا۔ اٹاوہ کے راجا کو ایک بار اٹیری کے راجا سے جنگ لڑنی پڑی۔ جنگ ختم ہوجانے کے بعد اٹاوہ کے راجا کو معلوم ہوا کہ اس جنگ کا ذمہ دار اس کا اپنا درباری بھولو تھا۔ اس نے حکم دیا کہ بھولو کو جوتے مار مار کر ختم کردیا جائے۔ حکم کی تعمیل ہوئی اور بھولو کو جوتے مار مار کر اس دنیا سے رخصت کردیا گیا۔ مگر معاملہ اس کی موت پر ختم نہیں ہوا۔
خدا ہی جانتا ہے کہ کن وجوہ سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ عقیدہ گھر کرگیا کہ محفوظ سفر کے لیے بھولو کی قبر پر جوتے مارنا لازم ہے۔ پھر تو یہ ہونے لگا کہ کوئی بھی سفر کے لیے نکلتا تو بھولو کی قبر پر جوتے رسید کرتا۔ یہ رسم اب تک چلی آرہی ہے۔ لوگ شاہراہ پر محفوظ سفر کے لیے بھولو کی قبر پر پانچ جوتے مارنا لازم سمجھتے ہیں۔
یہ خبر پڑھ کر ہم سہم گئے۔ بات یہ نہیں کہ ہم کوئی غدار ہیں اور جوتے پڑنے کا خوف لاحق ہے۔
خیر، بات ہو رہی تھی بھولو کے انجام کی۔ ایک بھولو ہمارے ہاں تھے جو خم ٹھونک کر کھڑے ہوجاتے تھے تو لوگ سہم کر پیچھے ہٹ جاتے تھے۔ اور ایک وہ بھولو تھا کہ جس کی قبر پر اب تک جوتے برسائے جارہے ہیں اور اس میں اتنی ہمت بھی نہیں کہ بھوت بن کر سامنے آئے اور لوگوں کو ڈراکر اپنی قبر سے بھگادے! اتر پردیش کے بھولو کے انجام سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔ اور کچھ نہیں تو یہی کہ ذرا سی دیر مزے لوٹنے پر طویل مدت تک قبر جوتے کھاتی رہے گی۔ مگر جن کی رگوں میں غداروں کا خون ہو انہیں آپ کہاں سے راہِ راست پر لائیں گے؟ وہ ایسے نکات پر سوچنا اپنے ظرف کی توہین سمجھتے ہیں۔
محترم انور مسعود کا ایک قطعہ ہمیں یاد آرہا ہے جس کا مفہوم یہ تھا کہ چوہدری شجاعت ہر معاملے میں ''مٹی پاؤ‘‘ کہتے ہیں۔ آخر چوہدری صاحب اتنی مٹی کہاں سے لائیں گے!
جو کچھ بھولو کے ساتھ ہوا وہ اگر نظیر کا درجہ پاجائے اور ہم اپنے ہاں ہر بڑے سانحے کے ذمہ دار کو یونہی جوتے مار مار کر ختم کرنے لگیں اور پھر اس کی قبر پر جوتے برسانے کا سلسلہ چل پڑے تو بنیادی سوال یہ ہے کہ ہم اتنے جوتے کہاں سے لائیں گے!
پاکستان کے ہر عظیم سانحے کی پشت پر اتنے ذمہ داران ملیں گے کہ ہر سانحے کے ذمہ داروں کو موت کے گھاٹ اتار کر ان کی قبور پر جوتے برسانے کی رسم چل پڑے تو پوری قوم کو یہ رسم ان سے زیادہ اپنے لیے سزا محسوس ہوگی! یہاں تو قدم قدم پر بھولو بکھرے پڑے ہیں۔ جسے موقع ملتا ہے وہ بساط بھر بحران پیدا کرکے قوم کو خلجان میں مبتلا کرتا ہے اور مال پانی سمیت کر ایک طرف ہو جاتا ہے۔ اور جب ان کی ڈھونڈ مچتی ہے تب پتا چلتا ہے کہ وہ تو وطن کی مٹی کو جدائی کا داغ بھی دے چکے ہیں! پہلے لندن پسندیدہ مقام ہوا کرتا تھا۔ اب ویسی ہی سہولتوں سے آراستہ دبئی منزل کا درجہ پاچکا ہے ؎
جانا تھا ہم سے دور، بہانے بنالیے
اب تم نے کتنی دور ٹھکانے بنالیے!
غدار کو کسی بھی معاشرے میں احترام کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ ہم جہاں اور بہت سے معاملات میں غیر معمولی واقع ہوئے ہیں وہی غدار پرستی کے ذیل میں بھی ایک نمایاں نظیر کا درجہ رکھتے ہیں۔ جو جتنا بڑا غدار ہے وہ اتنا ہی زیادہ ذی احترام ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی قوم نے طے کرلیا ہے کہ ملک کو بحرانوں سے دوچار کرنے پر سزا کی بجائے انعام دینے کی رسم عام کی جائے!
اور یہ بھی تو دیکھیے کہ غدار صرف وہی تو نہیں ہوتا جو خوں ریزی کی راہ ہموار کرتا ہو بلکہ جو لوگ قومی خزانے کو لُوٹ کر اپنی تجوریاں بھرتے ہیں اور عوام کو بنیادی سہولتوں تک سے محروم رکھتے ہیں وہ بھی تو غدار ہی ہیں۔ ریاستی مشینری سے وابستہ جو لوگ عوام کی خدمت کرنے کی بجائے رات دن رشوت بٹور کر انفرادی سطح پر خوش حالی یقینی بنائیں اور عوام کو مزید بدحالی کی طرف دھکیلتے رہیں وہ بھی تو غدار ہی کہلائیں گے۔ اور وہ بھی تو غدار ہی ہیں جو اپنے حصے کا کام نہیں کرتے اور دوسروں کی ذمہ داریوں میں اضافہ کرنے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ غداری کی کسی بھی جامع تعریف پر پورے اترنے والے ہر طرف موجود ہیں تو ہم کس کس کو جوتے مار کر ختم کریں گے؟ اگر غداروں کو تلاش کرنے کے بعد جوتے مار مار کر ختم کرنے کا سلسلہ چل پڑا تو یہ قوم کچھ اور کرنے کے قابل نہ رہے گی! ہم پاکستانیوں نے دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بظاہر طے کرلیا ہے کہ فی الحال غداروں کو برداشت کیا جائے۔ جب فرصت میسر ہوگی تو انہیں ٹھکانے لگانے کے بارے میں بھی پالیسی مرتب کرلی جائے گی۔
اور پھر یہ بھی دیکھیے کہ بھولو کی قبر پر جوتے کس کھاتے میں برسائے جارہے ہیں۔ سوال غدار کو سزا دینے سے زیادہ ذاتی مفاد کا ہے۔ کہاں غداری اور غداری کی سزا؟ اور کہاں شاہراہ پر محفوظ سفر؟ لوگ جب شاہراہ یعنی بریلی ہائی وے پر سفر کے لیے روانہ ہوتے ہیں تو بھولو کی قبر پر ''حاضری‘‘ دیتے ہیں اور پانچ جوتے برساکر اطمینان کرلیتے ہیں کہ اب کسی حادثے کا امکان نہیں رہا!
مرزا تنقید بیگ نے ہمیں ایک اچھی راہ سجھائی ہے کہ کسی کی قبر پر جوتے برسانے سے کہیں بہتر، بلکہ افضل یہ ہے کہ ہم اپنے نفس کی کجی کو موت کے گھاٹ اتار کر اسے اپنے وجود میں کہیں بہت گہرائی میں دفن کریں اور رات دن اس پر جوتے برساتے رہیں تاکہ کسی بھی طرح کی سرکشی کا امکان باقی نہ رہے۔ مرزا کا سجھایا ہوا نسخہ ہے تو مجرّب مگر یہ تو ظرف، غیرت اور حمیّت کی آزمائش ہے۔ ہم کہاں اور ایسی آزمائشیں کہاں؟ اپنی انا کو موت کے گھاٹ اتار کر آسانیاں پیدا کرنے کے مرحلے سے گزرنا ہمارے بس کی بات نہیں۔ ہمارے لیے تو شارٹ کٹ یہی ہے کہ کہیں نہ کہیں کسی بھولو کی قبر تلاش کرتے پھریں۔ اور جب مل جائے تو ضرورت اور مرضی کے مطابق جوتے برساکر اپنا اُلّو سیدھا کرنے کی کوشش کریں!