"MIK" (space) message & send to 7575

ایسا موقع پھر کہاں ملے گا؟

عمل خواہ کچھ ہو، حقیقی اور غیر جانب دارانہ تجزیہ ہمیشہ نیت کو بنیاد بناکر کیا جاتا ہے۔ ایک زمانے سے پاکستان دہشت گردی کی زد میں ہے۔ بہت سے ممالک کی سازشوں نے عمل پذیر ہونے کے لیے پاکستان کی سرزمین پائی ہے۔ پڑوسی ممالک میں بھارت نے ہمیشہ نیت کے اعتبار سے یہی چاہا ہے کہ پاکستان کسی بھی معاملے میں سکون کا سانس نہ لے سکے۔ سیاسی و سفارتی ہی نہیں، معاشی و معاشرتی بگاڑ پیدا کرنے اور ہر لحظہ کوئی شدید منفی تغیّر برپا کرنے کے بھارتی منصوبے رُو بہ عمل رہے ہیں۔ 
اس میں شک کی گنجائش نہیں کہ پاکستان کو نیچا دکھانے اور پریشانی سے دوچار رکھنے کا کوئی موقع بھارت نے ضائع نہیں کیا اور اگر کبھی کوئی موقع آسانی سے نہ ملا تو پیدا بھی کرلیا گیا! مگر سوال یہ ہے کہ کوئی کسی کو کب تک پریشانی سے دوچار رکھ سکتا ہے؟ ہر خرابی کی ایک حد ہوتی ہے۔ اور جب وہ حد گزرتی ہے تو خرابی پیدا کرنے والا بھی اس کی زد میں آنے لگتا ہے۔ یہ میرا تجزیہ ہے نہ آپ کا بلکہ قدرت کا اُصول ہے۔ بھارت اب اُسی مرحلے میں داخل ہوچکا ہے۔ یعنی ع 
'لو، آپ اپنے دام میں صَیّاد آگیا‘ 
والی کیفیت پیدا ہوچلی ہے۔ صرف اتنا یاد رہے کہ قدرت کے اصول کسی کے لیے تبدیل نہیں ہوا کرتے۔ جب بھی کوئی اپنی حد بھولتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُسے حدود یاد دلاتے ہیں۔ جب بھی کسی نے کسی کے لیے بلا جواز خرابیاں پیدا کی ہیں اس کا برا ہی انجام ہوا ہے۔ 
جن طاقتوں نے اپنے سے کہیں کمزور ممالک کے لیے مسائل کھڑے کئے، ان کے لیے وہی مسائل بعد میں راہ کی دیوار بن کر کھڑے ہوتے رہے ہیں۔ ذرا سا غور کرنے پر کوئی بھی سمجھ سکتا ہے کہ بھارت کا مخمصہ کیا ہے۔ اس نے کمزور ہمسایوں کو دبوچ کر رکھنے کے لیے جو ہتھکنڈے اب تک اپنائے رکھے وہی تمام ہتھکنڈے اب اس کی گردن کے لیے شکنجہ بننے کو بے تاب ہیں! بھارت کے پالیسی میکرز شاید بھول گئے تھے کہ ہر عمل کسی نہ کسی عِلّت کا حامل اور کسی نہ کسی ارادے کا نتیجہ ہوا کرتا ہے۔ بھارتی پالیسی میکرز نے شاید اس مفروضے کو حرزِ جاں بنالیا تھا کہ بھارت کے معاملے میں قدرت نے اپنے اصولوں کو استثنا دے دیا ہے یا حقیقت سے چشم پوشی کی عادت اپنالی ہے! ایسا کچھ تھا، نہ ہے۔ 
بھارت میں انتہا پسند ہندوؤں کا جنون ایک بار پھر ہڑبڑاکر جاگ اٹھا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف گائے کا گوشت کھانے کا بہانہ بناکر نیا محاذ کھڑا کیا گیا ہے۔ عیسائیوں، سِکھوں اور بدھسٹوں کو بھی بخشنے کے لیے کوئی تیار نہیں۔ بھارت کی مرکزی حکومت خواہ کچھ چاہتی ہو، ریاستی حکومتیں مقامی مصلحتوں کے تحت یعنی ووٹ بینک کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے ہندو انتہا پسندوں کی ہاں میں ہاں ملانے پر مجبور ہیں۔ جنونی ہندو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کو نشانے پر رکھا جائے۔ ووٹ بینک برقرار رکھنے کا ''سنگھ پریوار‘‘ کے پاس اور کوئی طریقہ نہیں۔ یہی وہ ہتھیار ہے جو پلٹ کر آیا ہے اور اب بھارت کی گردن کے لیے تلوار بنتا جارہا ہے۔ ایک عرصے سے بھارتی قیادت نے پاکستان، نیپال اور سری لنکا کو اِسی ہتھیار سے تو شکار کرنا چاہا ہے۔ 
ایسا لگتا ہے کہ بیشتر مغربی اور بعض مشرقی قوتیں ترقی کی راہ پر بھارت کا تیز رفتار سفر برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ مگر اس میں حیرت کی بات کیا ہے؟ بھارت بھی تو اپنے پڑوسیوں کا استحکام اور ترقی دونوں برداشت نہیں کر پاتا۔ اور پڑوسیوں کو کمزور کرنے کا جو طریقہ بھارتی قیادت اپناتی رہی ہے وہی طریقہ اب بڑی قوتیں بھی اپنا رہی ہیں۔ بھارت میں جنونی ہندوؤں کا ایک طبقہ ہر وقت بھڑکے ہوئے جذبات کے ساتھ مہم جوئی کے لیے تیار رہتا ہے۔ یہ ''پیسہ پھینک، تماشا دیکھ‘‘ والا معاملہ ہے۔ فنڈنگ کے ذریعے کسی بھی پڑوسی کے ہاں گڑبڑ پھیلانا بھارت کا بھی بنیادی طریق واردات رہا ہے۔ 
بھارتی قیادت نے 1947ء کے بعد سے ہر دور میں جو سفارتی اطوار اپنائے ، انہیں بیک وقت دو کشتیوں میں سفر کے سوا کچھ بھی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اور یہ دو کشتیوں کا سفر اب بھارت کے لیے گرداب بن گیا ہے۔ سابق سوویت یونین کے دور میں بھارت نے دونوں طرف کے مزے لُوٹے۔ ایک طرف وہ خود کو سوویت یونین (روس) کا ہم نوا قرار دیتا تھا اور دوسری طرف مغربی دنیا کو محبت کا یقین دلاتا رہتا تھا۔ بھارتی قیادت نے اشتراکیت کو گلے لگانے کی اداکاری کی اور در پردہ ٹھیٹھ سرمایہ دارانہ نظام کو حرزِ جاں بنانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ مگر ایسا کب تک چل سکتا تھا؟ جو طاقتیں پوری دنیا کو الٹنے پلٹنے کی صلاحیت رکھتی ہیں وہ ایسی حرکتیں مصلحت کے تحت ایک خاص وقت تک ہی برداشت کرتی ہیں۔ آپ نے بھی انگریزی کا یہ محاورہ ضرور سنا ہوگا کہ دنیا میں فری لنچ جیسی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ بھارت اب تک جو فری لنچ کرتا رہا ہے اُس کا بِل چکانے کا وقت آگیا ہے! ع 
اِس طرح تو ہوتا ہے اِس طرح کے کاموں میں 
سوویت یونین کی تحلیل کے بعد کی دنیا میں روس کے لیے بہت سی مشکلات سامنے آئی ہیں۔ اب روسی قیادت دوست اور دشمن تبدیل کر رہی ہے۔ پاکستان کی طرف اس کا جھکاؤ اس کی ایک واضح مثال ہے۔ ساتھ ہی ساتھ روسی قیادت بھارت سے گریزاں بھی دکھائی دیتی ہے۔ عشروں تک عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ٹیکنالوجی اور جدید ترین مشینری کے حوالے سے بھارت نے مزے لُوٹے مگر سرد جنگ ختم ہوتے ہی اس نے روس کو طاقِ نسیاں پر رکھ دیا! 
اِدھر پاکستان کے لیے بھی فیصلے کی گھڑی آ پہنچی ہے۔ امریکہ اور یورپ نے تمام وعدے نہیں نبھائے ہیں۔ روس نے سرد جنگ کے زمانے میں بھی پاکستان سے اظہارِ التفات کیا تھا۔ پاکستان کے لیے تب روسی (یعنی سوویت) قیادت کی طرف متوجہ ہونا زیادہ ممکن نہ تھا۔ اس بات کو تب کی روسی قیادت بھی سمجھتی تھی۔ 
اب بہت کچھ بدل چکا ہے۔ بیک وقت دو کشتیوں کا سفر بھارت کو مہنگا پڑ رہا ہے۔ ترقی نے بھارتی قیادت کی سَرکشی بڑھادی ہے جو بڑی قوتوں کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ ایسے میں سفارتی سطح پر طاقت کا توازن درست کرنے کی خاطر اب چین کے ساتھ ساتھ روس کا جھکاؤ بھی پاکستان کی طرف ہے۔ اگر چین کو راہداری درکار ہے تو گرم پانیوں تک رسائی کی روسی ضرورت بھی ختم نہیں ہوئی۔ یخ بستہ سمندروں کے باعث روس بہت حد تک خشکی سے گِھرا ہوا ملک ہی ہے۔ 
بھارت کا عدم استحکام اگر مشرقی اور مغربی دونوں طاقتوں کی ترجیح ہے تو اس کیفیت کو پاکستان کے لیے بِلّی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا والا معاملہ سمجھیے۔ چاروں طرف امکانات کا ڈھیر ہے۔ بھارت جیسے بڑے اور طاقتور ملک کو قابو میں رکھنا پاکستان جیسے چھوٹے اور نسبتاً خاصے کمزور ملک کے بس کی بات نہیں۔ چند بڑی طاقتیں مل کر یہ فریضہ انجام دے رہی ہیں تو اسے اللہ کا انعام سمجھ کر قبول کیجیے اور اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے پر توجہ دیجیے۔ 
محل وقوع نے پاکستان کو کئی طاقتوں کے لیے قابلِ التفات بنا دیا ہے۔ معاملات میں توازن قائم رکھتے ہوئے صورت حال سے زیادہ سے زیادہ فوائد بٹورنا بہت بڑا سفارتی ہنر ہے جس کا مظاہرہ ہماری قیادت پر اب فرض اور قرض ہے! یہ ہنر جنرل ضیاء الحق کو خوب آتا تھا۔ افغانستان پر سوویت تسلط کے دور میں انہوں نے مغرب سے خوب فوائد بٹورے۔ 
پاکستان آج پھر اہم موڑ پر ہے۔ بہتر انداز سے آگے بڑھنے اور ترقی و خوش حالی یقینی بنانے کا ایسا موقع پھر کہاں ملے گا؟ وقت کا تقاضا ہے کہ ہماری قیادت وقت کے تقاضوں کو سمجھے اور مثالی تدبّر و بُرد باری کا مظاہرہ کرتے ہوئے چند ڈھنگ کے فیصلے کرے تاکہ کوئی ایک بھی امکان ضائع نہ ہو۔ امریکہ اور یورپ سے بار بار دھوکا کھانے کے بعد اب لازم ہے کہ چین اور روس سے معاملات متوازن رکھے جائیں اور ان کے اعتماد کو ٹھیس لگانے سے بچا جائے! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں