برطانیہ کی ایک لڑکی کو نیند میں چلنے کی عادت ہے۔ گزشتہ دنوں وہ نیند میں چلتی ہوئی 9 کلو میٹر کا فاصلہ طے کرگئی۔ اس دوران اس نے بس میں سفر بھی کیا اور آخر میں ایک کزن کے گھر جا پہنچی۔ وینی کیمبل نے نیند میں جو سفر کیا وہ اسے شہرت دلا گیا ہے۔ شہر میں پولیس نے الرٹ جاری کردیا ہے تاکہ کوئی کیمبل کو نیند میں چلتے ہوئے دیکھے تو محتاط رہے، خصوصاً ڈرائیونگ کرنے والے لوگ۔
ہم یہ خبر پڑھ کر حیران رہ گئے۔ نیند میں چلنے کو کب سے کمال کا درجہ حاصل ہوگیا؟ برطانیہ میں ایک لڑکی صرف 9 کلو میٹر نیند میں چلی ہے تو ہنگامہ مچ گیا ہے اور لوگ انگشت بہ دنداں ہیں۔ یہاں عالم یہ ہے کہ نیند میں ڈوب کر یعنی مکمل غنودگی کی حالت میں لوگ زندگی گزار بیٹھتے ہیں اور کوئی متوجہ ہونے کا نام نہیں لیتا! اور دلچسپ بات یہ ہے کہ غنودگی میں زندگی بسر کرنے والے بھی اسے کوئی کمال نہیں سمجھتے! اسی لیے اخبار میں اس طرح کی کوئی خبر بھی نہیں چھپتی۔
ہمارے ہاں سرکاری دفاتر کا یہ حال ہے کہ بہت سوں کو تو یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ دفتر کب آئے اور کب گئے۔ سب کچھ کسی نادیدہ خود کار نظام کے تحت چل رہا ہے۔ گویا ع
کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے
لوگ حیرت کرتے ہیں کہ ہمارے ہاں سرکاری دفاتر میں کام کیسے ہو پاتا ہے۔ ایسا سوچنا اس کائنات کے خالق اور رب پر ''عدم اعتماد‘‘ ہے! جو اتنی بڑی کائنات چلا رہا ہے کیا وہ ہمارے دفاتر نہیں چلائے گا!
مغرب اور دیگر ترقی یافتہ خطوں کے لوگ اب ذرا ذرا سی بات پر فخر کرنے لگے ہیں۔ کوئی عام ڈگر سے ہٹ کر دو گام بھی چل لے تو سمجھا جاتا ہے کہ اس نے کوئی تیر مار لیا ہے۔ ایسا لگتا ہے اہل مغرب کے پاس اب فخر کرنے کی وجوہ ختم ہوچلی ہیں یا شارٹ ہوگئی ہیں! ہمارے پاس خیر سے فخر کرنے کے لیے اتنا کچھ ہے کہ کسی چھوٹی موٹی خاصیت کو تو ہم خاطر ہی میں نہیں لاتے۔
اب اسی بات کو لیجیے کہ دنیا بھر میں ذہنی صلاحیت یعنی ذہانت میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کرکے منفرد کارنامے انجام دینے کی دوڑ سی لگی ہوئی ہے۔ اور اس دوڑ میں حصہ لینے پر فخر بھی کیا جاتا ہے۔ اور اِدھر ہم ہیں کہ ذہن کو زحمت دینے ہی کے لیے تیار نہیں! سیدھی سی بات ہے، ذہن کو بروئے کار لاکر کوئی بڑا کام کر بھی لیا تو کون سا تیر مار لیا۔ مزا تو جب ہے کہ ذہن کو کسی بھی مرحلے میں زحمت نہ دی جائے اور کامیاب ہوکر دکھایا جائے۔ بقول کنور مہیندر سنگھ بیدی سحرؔ ؎
ہوا جو تیرِ نظر نیم کش تو کیا حاصل؟
مزا تو جب ہے کہ سینے کے آر پار چلے!
یعنی شدید بے ذہنی کی حالت میں کچھ کر دکھائیے تو ہم جانیں۔ ہم زمانوں سے یہی کرتے آئے ہیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ صدیوں سے ذہن، کبھی کبھار کے ''استثناء‘‘ کے سوا، ''حالتِ التواء‘‘ میں رہا ہے۔ ذہنی اور اس کی صلاحیتوں پر pause لگاکر ہم ایسے مست ہیں کہ کوئی غم ہمارے نزدیک آنے کی جسارت نہیں کرتا۔ اور اِس ''خوبی‘‘ پر غرور کرنے کے بارے میں ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں!
کسی ایک شعبے میں کچھ ہٹ کے کر دکھایا ہو تو ہم صبر بھی کرلیں۔ یہاں تو کمالات کا ڈھیر لگا ہے۔ اب یہی دیکھیے کہ ہمارے ہاں سوچے بغیر بولنے کا فن جادو کی طرح سَر چڑھ کر بول رہا ہے۔ ہم نے مِنی اسکرین پر کرنٹ افیئرز کے پروگراموں میں دوسروں کو سُنے اور خود سوچے بغیر بولتے چلے جانے کا فن بھی تو متعارف کرایا ہے! اور اس فن میں یدِ طُولٰی رکھنے والے جب جولانی دکھانے پر آتے ہیں تو اتنی دور کی کوڑیاں لاتے ہیں کہ سُننے والے مست و بے خود ہوکر داد دینا بھی بھول جاتے ہیں!
برطانیہ ہی سے ایک خبر یہ بھی آئی ہے کہ ایک شخص نے آنکھوں پر پٹی باندھ کر 103 گھنٹے وڈیو گیم کھیل کر عالمی ریکارڈ بنا ڈالا ہے۔ ہم حیران ہیں کہ یہ کون سی کمال کی بات ہے۔ اینڈریو سینڈرز نے تو پھر بھی آنکھوں پر پٹی باندھی، یہاں تو حال یہ ہے کہ یار لوگ آنکھوں پر پٹی باندھے بغیر بصارت سے محروم افراد جیسی بلکہ ان سے بھی زیادہ تاریک زندگی بسر کر رہے ہیں! علامہ اقبالؔ نے کہا تھا ع
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
سارا جھگڑا دیکھنے کا ہے۔ یعنی دیکھنے سے ذہن میں الجھن پیدا ہوتی ہے۔ یعنی دیکھنے کا عمل ذہن کو خواہ مخواہ پریشانی سے دوچار کرتا ہے۔ اگر دیکھا ہی نہ جائے تو؟ پھر کیسی الجھن، کہاں کی پریشانی؟
کئی زمانے اس حالت میں گزر گئے ہیں کہ ہم کوئی ہنر بھی نہیں رکھتے اور اپنے آپ کو منوانے میں کامیاب بھی ہیں! سچ یہ ہے کہ اب بے ہُنری ایسا لطف دے رہی ہے کہ کسی ہُنر یا فن کی طرف جانے کا خیال بھی آئے تو ذہن الجھنے لگتا ہے! فن کے بجائے ہم نے fun کو زندگی کا جُز بنالیا ہے۔ ہمارا اجتماعی معمول اب fun سے بھرپور ہے۔ ایسے میں فن کا سوچیے بھی تو کیوں؟ جو معمول نہ صرف یہ کہ کام کر رہا ہے بلکہ ''قابلِ رشک‘‘ نتائج بھی دے رہا ہے اُسے ترک کرنے کا خیال آئے تو کیوں آئے؟
داغؔ دہلوی کہہ گئے ہیں ع
کس فن میں نہیں طاق، مجھے کیا نہیں آتا!
داغؔ نے یہ اپنے بارے میں کہا تھا مگر اہلِ مغرب نے اِسے دانتوں سے پکڑ لیا اور دوڑ شروع کردی۔ ترقی یافتہ اور ابھرتی ہوئی دنیا میں فطری و سماجی علوم و فنون میں طاق ہونے کی دوڑ سی لگی ہے۔ ہم کبھی کبھی یہ سوچ کر حیران رہ جاتے ہیں کہ یہ سب کیوں ہے؟ کیا بے ہُنر رہ جانے سے کوئی مر جاتا ہے؟ اگر واقعی ایسا ہے کہ بے ہُنر رہنے سے موت واقع ہوجاتی ہے تو پاکستانی قوم اب تک کیوں زندہ ہے؟ کوئی کچھ سیکھنا چاہتا ہے تو ہماری طرف دیکھے کہ کچھ سیکھتے بھی نہیں اور جی بھی رہے ہیں! ؎
عجب جہاں میں ہماری مثال ہے صاحب
کسی ہُنر کا نہ ہونا کمال ہے صاحب!