ایک نہیں، کئی معاملات ایسے ہیں جن میں بھارت کو غیر معمولی ایڈوانٹیج حاصل ہے۔ آبادی، رقبے اور معیشتی حجم کے اعتبار سے وہ خطے کا سب سے بڑا ملک ہے۔ ان تین معاملات میں غیر معمولی ایڈوانٹیج کی بدولت بھارت اب تک اپنی مرضی کا جُھولا جُھولتا آیا ہے۔ گڈ گورننس کا معاملہ بھی بہت حد تک قابل رشک رہا‘ جس کی بدولت بھارت کے ایڈوانٹیجز میں اضافہ ہوتا گیا۔ نسلی اور مذہبی تنوع کے باوجود ایک قوم یعنی انڈین ہونے کا تصور بھی مضبوط رہا ہے جس کے نتیجے میں بہت کچھ خود بخود درست اور سودمند ہوتا گیا ہے۔
بھارت میں تعلیم کا نظام خاصا مضبوط ہے۔ اعلیٰ درجے کی تعلیم و تربیت یقینی بنا کر نالج ورکرز کی فوج تیار کی گئی ہے جو اب بیرون ملک خدمات انجام دے کر قومی خزانے کا حجم قابل رشک حد تک بڑھانے میں مرکزی کردار ادا کر رہی ہے۔ ایسے میں اگر بھارتی قیادت نے بھرپور، بلکہ فقیدالمثال ترقی کے خواب اپنی اور اہل وطن کی آنکھوں میں سنجوئے ہیں تو کچھ حیرت کی بات نہیں۔ مگر کیا ترقی صرف کمانے کا نام ہے؟ کیا کوئی ملک محض اس بنیاد پر ترقی کر سکتا ہے کہ اس کے لاکھوں نالج ورکرز بیرون ملک کام کرکے ترسیلاتِ زر کے شعبے میں انقلاب برپا کر دیں؟ کیا محض زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم کر لینے سے کوئی ملک ترقی کی منازل طے کر لیتا ہے؟
بھارت نے معیشت کے میدان میں بہت کچھ پایا ہے مگر پھر بھی اُس کے دن نہیں پھرتے، بات نہیں بنتی، ترقی نہیں ہو پاتی اور وہ خوش حالی نظر نہیں آتی جو نظر آنی چاہیے۔ ایسا کیوں ہے؟ بھارت کے بیشتر معاملات میں ایک آدھ آنچ کی کسر کیوں رہ جاتی ہے؟ معاملہ، بلکہ واقعہ یہ ہے کہ ہر انسان اور قوم کو نیت کا پھل ملتا ہے۔ نیت خراب ہو تو اعمال بھی خراب ہی ہوتے ہیں۔ جیسا بیج ویسا درخت۔ بھارتی قیادت کا ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہ نیت کو درست کیے بغیر اچھے پھل کی توقع رکھتی ہے۔
یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ قدرت کسی کے لیے اپنے اصول تبدیل نہیں کرتی۔ اچھا کرو گے تو اچھا ہو گا اور برا کرو گے تو جواب میں برائی ہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بھارتی قیادت صرف کمانے، مال بنانے میں لگی ہوئی ہے۔ محض معیشت کو مستحکم کر لینے ہی کو ترقی یا سب کچھ سمجھ لیا گیا ہے۔ کوشش صرف یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو بیرون ملک بھیج کر زیادہ سے زیادہ ترسیلاتِ زر کا اہتمام کیا جائے‘ تاکہ قومی خزانہ مستحکم رہے۔ یہ تو ہو ہی رہا ہے مگر اس کا نتیجہ بھی سامنے ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر ہیں کہ بڑھتے جا رہے ہیں مگر ملک وہیں کھڑا ہے۔ بقول قابلؔ اجمیری ؎
راستہ ہے کہ کٹتا جاتا ہے
فاصلہ ہے کہ کم نہیں ہوتا!
بھارتی قیادت کا ایک بنیادی مخمصہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنے گھر کے معاملات درست کرنے سے زیادہ توجہ پڑوسیوں کو دبوچنے پر مرکوز رکھتی ہے۔ پڑوسیوں کو ہر حال میں زیرِنگیں رکھنے کی ذہنیت جدید دور کے تقاضوں کی روشنی میں دم تو کیا توڑے گی، مزید پنپ رہی ہے۔ صرف چہرہ چمکانے پر توجہ دی جا رہی ہے، باقی جسم بھدّا یا غیر پُرکشش ہے تو ہوا کرے۔ امور خارجہ کے میدان میں بھارتی قیادت اپنے صلاحیت اور مزاج کی جولانی دکھانے پر تُلی رہتی ہے اور امور داخلہ کا شعبہ توجہ کا محتاج ہی رہتا ہے۔
معیشت کے استحکام کو سب کچھ سمجھ لینے کا وہی نتیجہ برآمد ہوا‘ جو ہوا کرتا ہے۔ معاشرہ بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ معیشتی معاملات کا استحکام معاشرتی عدم توازن میں اضافہ کرتا جا رہا ہے۔ جو لوگ ہندوازم کو تمام معاملات پر حاوی دیکھنا اور رکھنا چاہتے ہیں وہ معاشرے کا تیاپانچا کرنے میں جُتے ہوئے ہیں۔ ہندو انتہا پسند موقع پاتے ہی مرکزی دھارے کی سیاست اور مجموعی منظرنامے پر قابض ہو جاتے ہیں۔ نریندر مودی نے بھی اِسی لہر پر سوار ہوکر اقتدار کے سمندر کی سیر کی ہے۔ اس نے ہندوازم کی مدد سے گجرات کے وزیر اعلیٰ کا منصب سنبھالا تھا‘ اور ہندوازم کی بات کرتے رہنے ہی سے ان کے اقتدار کا سورج بھی نصف النہار پر رہا۔ ''عقابی‘‘ سوچ ہی نے انہیں مرکزی سیاست میں بھی کامیابی سے سرفراز کیا۔ اب وہ ماضی سے جان چھڑانا چاہتے ہیں اور ماضی ہے کہ ان کے مستقبل کو ہڑپ کرنے کے درپے ہے! ایسا تو دنیا میں کوئی کوئی ہوتا ہے جو اپنے ماضی سے گلوخلاصی میں کامیاب ہو پاتا ہے۔ ع
یہ رتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا
مودی کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے تھی کہ اپنے ہی کیے ہوئے کو Undo کرنا کوئی بچوں کا کھیل نہیں۔ مودی کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اب تک مخمصے کی حالت میں ہیں۔ ایک طرف تو وہ وزیر اعظم کے منصب پر اپنی پوزیشن مضبوط تر کرنا چاہتے ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ انتہا پسند ہندو کے امیج سے چھٹکارا چاہتے ہیں۔ اب معاملہ یہ ہے کہ ہندو انتہا پسند اُن سے کھیل رہے ہیں! انہیں اندازہ ہے کہ مودی انتہا پسند رویّے سے دور رہ کر زیادہ دور نہیں چل پائیں گے۔ مشکل یہ ہے کہ بھارتی قیادت ملک کو بڑی قوت تو بنانا چاہتی ہے مگر اُسے یہ یاد نہیں رہا کہ ابھی درجنوں بنیادی مسائل حل نہیں ہو پائے ہیں۔ جو ملک مریخ پر بستی بسانے کا سوچ رہا ہے وہ اب تک اپنے 77 کروڑ سے زائد باشندوں کو گھر کی حدود میں ٹوائلٹ کی سہولت سے بھی ہمکنار نہیں کر سکا ہے! ع
بات تو سچ ہے، مگر بات ہے رسوائی کی!
محض نظر انداز کر دینے سے کوئی بھی حقیقت تبدیل نہیں ہوا کرتی۔ ٹوائلٹس کے عالمی دن کی مناسب سے ایک بین الاقوامی ادارے نے ''اِٹز نو جوک: اسٹیٹ آف دی ورلڈ ٹوائلٹس‘‘ کے عنوان سے رپورٹ شائع کی‘ جس میں بھارت کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ یعنی یہ کہ مریخ پر قدم جمانے سے پہلے ع
دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بندِ قبا دیکھ!
بھارتی قیادت کو سوچنا چاہیے کہ جب ملک کے 60 گھروں میں ٹوائلٹ کی سہولت میسر نہیں تو صحتِ عامہ کا معیار کیا ہوگا۔ ایسے میں ترقی کے دعوے محض مضحکہ خیز نہیں بلکہ زخموں پر نمک جیسے ہیں! بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ ''اِٹز نو جوک‘‘ والی والی رپورٹ میں یہ ''لطیفہ‘‘ بھی بیان کیا گیا ہے کہ پاکستان، نیپال اور بھوٹان نے بھی بھارت کو آئینہ دکھانے کی اپنی سی کوشش کی ہے یعنی ان تینوں ملکوں نے گھر کی حدود میں ٹوائلٹ کی سہولت یقینی بنانے کے معاملے میں نمایاں پیش رفت ممکن بنائی ہے۔ ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس بات سے بھارت میں کیا کیفیت پیدا ہوئی ہوگی۔ تین چھوٹے ممالک کا یوں حدِ ادب سے گزرنا۔ کلجگ ہے صاحب، کلجگ!
بھارت میں ٹوائلٹ کے حوالے سے شعور بیدار ہو رہا ہے۔ بہت سے اچھوتے اشتہارات کے ذریعے عوام کو گھر کی حدود میں ٹوائلٹ بنانے کی تحریک دی جا رہی ہے۔ یہ اچھی بات ہے کہ ٹوائلٹ ہی سہی، کسی بہانے تو بھارت میں کچھ شعور بیدار ہوا! کاش بھارتی قیادت میں بھی شعور کی سطح بلند ہو اور وہ یہ بات سمجھنے کی کوشش کرے کہ بنیادی مسائل حل کیے بغیر آگے بڑھنے کے خواب دیکھنے کا عمل نیند خراب کرنے سے زیادہ کچھ نہیں کرتا۔
اپنے مسائل سے نظر چُرا کر پڑوسیوں کے معاملات میں مداخلت بھارتی قیادت کا وتیرہ رہا ہے۔ یہ عمل اپنا کچرا پڑوسی کے گھر کے آگے ڈالنے جیسا ہی تو ہے۔ بھارت کے لیے زیادہ قابل عمل بات یہ ہے کہ اپنی خامیوں اور کمزوریوں کو قبول و ہضم کرے اور اصلاح پر مائل ہو۔ جب تک ایسا نہیں ہوگا، کروڑوں بھارتیوں کو فطرت کی پکار پر گھر سے باہر جانا پڑے گا!