اسلامی دنیا میں مصر کا مقام منفرد ہے۔ یہ سرزمین ہزاروں برس پرانی تہذیبی وراثت کی امین ہے۔ اسی سرزمین پر وہ انسان پیدا ہوئے جنہوں نے ہر طرح کی کمزوریوں کا حامل ہونے کے باوجود رب ہونے کا دعوٰی کیا اور پھر جب وہ عام انسانوں کی طرح موت کی وادی میں چلے گئے تو اُن کے جسم کو نشانی کے طور پر محفوظ کر لیا گیا۔ انسانوں کو بعد از مرگ محفوظ کرنے یعنی لاشوں کو حنوط کرنے کا فن بھی مصر کے لوگوں ہی نے متعارف کرایا۔ چند دوسرے ممالک اور خطوں میں بھی حنوط شدہ لاشیں پائی گئی ہیں؛ تاہم مصر اس معاملے میں قائدانہ حیثیت کا حامل رہا ہے۔
لاشیں حنوط کرنے کے فن سے مصر والوں نے اب جان چھڑا لی ہے۔ ایسا کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ بات یوں ہے کہ مصر پر مسلط قائدین یا حکمرانوں نے اب پورے ملک کو حنوط شدہ لاش میں تبدیل کر دیا ہے! نصف صدی سے زائد مدت سے مصر میں یکسر غیر نمائندہ حکومتیں سیاہ و سفید کی مالک رہی ہیں یا یوں کہہ لیجیے کہ تمام معاملات کا تیاپانچا کرتی آئی ہیں۔ امریکہ اور یورپ کے حاشیہ برداروں نے اپنے اپنے آقاؤں کی بھرپور سرپرستی سے حکمرانی کے مزے اِس طور لُوٹے ہیں کہ عوام ہر معاملے میں بے مزا ہوکر رہ گئے ہیں اور اُن کی زندگی گناہِ بے لذّت میں تبدیل ہو چکی ہے!
اہل مصر کا حال یہ ہے کہ اب تک یہ طے نہیں کر پائے کہ کس کشتی میں سفر کرنا ہے۔ ایک طرف تو جدید مغربی انداز کی لبرل زندگی پسند ہے اور دوسری طرف اسلام کا نعرہ بھی لگایا جاتا ہے۔ لبرل لائف سٹائل اپنانا تو خیر مرضی اور مزے کا سَودا ہے، اسلام کی بات البتہ خانہ پُری کا کیس معلوم ہوتی ہے۔ جب اسلام کا پرچم بلند کرنے والوں کو ووٹ دینے کا مرحلہ آتا ہے تو لوگ پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ اور اگر اسلام پسندوں کی منتخب، قانونی اور جائز حکومت کو برطرف کر دیا جائے تو عام آدمی کماحقہ احتجاج کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتا۔
حال ہی میں ایک عجیب معاملہ ہوا ہے۔ جو کچھ پاکستان میں ہو رہا تھا وہی مصر میں بھی ہوا‘ جس پر ہنگامہ برپا ہو گیا۔ جی نہیں، آپ کا اندازہ غلط ہے۔ ہم جمہوریت کے زوال پذیر ہونے کی بات نہیں کر رہے۔ اِس پر ہمارے ہاں شور برپا ہوتا ہے‘ نہ مصر میں۔ دونوں ہی ممالک میں معاملہ ٹھنڈا ٹھار ہے۔ گویا ع
دونوں طرف ہے آگ برابر ''بجھی‘‘ ہوئی!
اہل مصر اچھی خاصی ڈھنگ کی زندگی بسر کر رہے تھے اور دوسرے بہت سے معاملات کی طرح کھانے پینے کے معاملات بھی بالکل درست چل رہے تھے۔ خدا جانے انہیں کیا سُوجھی کہ اہل پاکستان کی نقالی پر اُتر آئے۔ ہمارے ہاں گدھے کے گوشت سے پیٹ کے جہنم کی آگ سَرد کرنے کا سلسلہ شروع ہوا‘ تو مصر کے لوگ بھی اظہارِیکجہتی کے طور پر ''گدھا خوری‘‘ کی راہ پر گامزن ہو گئے!
یہ بھی عجیب سلسلہ ہے کہ جب بھی انسانوں کی دنیا کے معاملات خراب ہوتے ہیں، جانوروں کی شامت آ جاتی ہے۔ بکرے کا گوشت مہنگا ہو جائے تو کتوں کے لیے جان بچانا دشوار ہو جاتا ہے! اور اگر بڑے گوشت والا دام گھٹانے پر آمادہ نہ ہو تو تان ٹوٹتی ہے گدھوں پر! گائے کا گوشت مہنگا ہونے پر لوگوں کو گدھوں کا گوشت کھلانے والے شاید اِس سوچ کے حامل ہیں کہ گدھے بھی تو اللہ میاں کی گائے ہی ہوتے ہیں!
عجیب چکر ہے کہ انسانوں پر بُرا وقت آئے تو صدقے کی مد میں بکرے ذبح کئے جائیں اور بکرے کے گوشت کی بڑھتی قیمت کے ہاتھوں خریداروں پر بُرا وقت آئے تب بھی دُم ہلانے والے بے زبان ہی مارے جائیں! یعنی مصیبت کی ہر گھڑی میں تان بے زبان جانوروں ہی پر ٹوٹتی ہے!
مصر کی غیر نمائندہ حکومت نے جب دیکھا کہ لوگ گدھا خوری کے رجحان کو پروان چڑھا رہے ہیں تو وہ پریشانی میں مبتلا ہوئی کہ یہ کام تو اُس کا ہے یعنی عوام کو گدھے سمجھ کر اُن کا تیا انچا کرنا تو حکومت کا کام ہے! انسان جو کچھ کھاتا ہے اُس کے چند اثرات بھی اُس کے مزاج پر ضرور مرتب ہوتے ہیں۔ گدھے کا گوشت کھانے سے شکایت کے بغیر کام کرتے رہنے کی خصلت بھی تو پیدا ہو سکتی ہے! یہ تو حکومت کے لیے پسندیدہ بات ہوئی! مگر مصری حکومت نے شاید یہ سوچا ہو کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ عوام گدھے کا گوشت کھا کھاکر اپنے اندر دولتّی رسید کرنے کی صفت بھی پیدا کر لیں!
جب گدھے کا گوشت فروخت کرنے کی اطلاعات تواتر سے آنے لگیں تو مصری حکومت نے گدھوں کی رجسٹریشن شروع کر دی۔ یہ بات کچھ لوگوں کو بہت عجیب لگی۔ ملک بھر کے گدھوں کو رجسٹرڈ کرکے شناختی کارڈ جاری کرنے کا نظام تو پہلے ہی کام کر رہا ہے! حکومت نے وضاحت کی کہ وہ اصلی چار ٹانگوں والے گدھوں کو بھی رجسٹریشن نیٹ میں لانا چاہتی ہے تاکہ اُن پر بھی نظر رکھی جا سکے۔
مصری حکومت چاہتی ہے کہ ملک میں پائے جانے والے ہر اصلی گدھے پر نظر رکھی جائے۔ اگر ہر گدھا رجسٹرڈ ہو گا تو اُس کے دکھائی نہ دینے کی صورت میں یہ معلوم کرنا بھی آسان ہو جائے گا کہ اُس کا کیا بنا۔ سُنا ہے مصری حکومت نے ہر ''گدھا مالک‘‘ پر لازم قرار دیا ہے کہ وہ پوچھے جانے پر بتائے کہ اُس کا گدھا کہاں ہے۔ یعنی اگر گدھا غائب ہو تو اُس کے مالک کو جواب دہ ہونا پڑے گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کسی کا گدھا مر جائے تو اُسے ڈیتھ سرٹیفکیٹ بھی بنوانا پڑے گا اور اُس مقام کی نشاندہی بھی کرنا پڑے گی جہاں گدھے کو گاڑا گیا ہو! یہ سب کچھ اس لیے لازم قرار دیا جا رہا ہے کہ کوئی اپنا گدھا چپکے سے قصاب کے حوالے کرکے سُکون کا سانس نہ لے! ہو سکتا ہے کہ مصری حکومت چار ٹانگوں والے گدھوں کی رجسٹریشن کے ذریعے اِس امر کا مشاہدہ کرنا چاہتی ہو کہ مختلف انواع کے گدھوں میں کیا فرق پایا جاتا ہے اور کون چُوں چَرا کیے بغیر زیادہ اور اچھا کام کرتا ہے! یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اصلی گدھوں کی نفسیات کا ذرا باریکی سے جائزہ لے کر یہ اندازہ لگانا مقصود ہو کہ اِنسانوں سے کس طور نمٹا جائے کہ وہ بے حساب محنت کیے جائیں اور اپنے حقوق کے لیے آواز بھی بلند نہ کریں! رہا ڈھینچوں ڈھینچوں کرنے کا معاملہ تو صاحب، اِس کی اجازت تو عوام کو ہر طرزِ حکومت کے تحت حاصل ہوتی ہے۔ معاملات صرف اُس وقت بگڑتے ہیں جب وہ دولتّی رسید کرنے پر بضد ہوں!
اکیسویں صدی بھی کیسی عجائبات کی صدی ہے۔ ہر چیز کی قدر اور قیمت ہے۔ سیل فون کے فیچرز اور قیمت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ گاڑیاں مہنگی ہوتی جا رہی ہیں۔ کپڑے بھی سستے نہیں۔ گھریلو استعمال کے برقی آلات کے لیے جیب اچھی خاصی ڈھیلی کرنا پڑتی ہے۔ اور بھی بہت کچھ ہے جسے خریدنے کے لیے جیب کے حواس مضبوط اور اعصاب توانا ہونے چاہئیں لیکن اگر کچھ قدر نہیں ہے تو بس انسان کی۔ جانور بھی اپنی کچھ نہ کچھ قیمت پا جاتے ہیں اور اُنہیں بلا وجہ کاٹنے اور کھانے کی روک تھام پر توجہ دی جا رہی ہے۔ انسان خواہ کتنی ہی تعداد میں موت کی طرف جائیں اور دھکیل دیے جائیں، کسی کو کچھ پروا نہیں۔ خانہ جنگی کے نام پر لاکھوں انسان راتوں رات موت کی نیند سُلا دیے جائیں تب بھی دنیا بھر کے انسانوں کا ضمیر کہاں جاگتا ہے؟ مغربی دنیا ہی نے یہ ٹرینڈ بھی دیا کہ کسی کتے یا بلی کو کچھ نہ کہا جائے۔ جانوروں پر ظلم برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ ہاں، انسانوں پر ہر طرح کے ظلم کا پہاڑ توڑنے کی اجازت ہے۔ اس راہ میں کوئی دیوار حائل نہیں۔ انسانوں کو کاٹ کر درندوں کے سامنے ڈال دیجیے۔ اس پر کسی کو ذرّہ بھر اعتراض نہیں، گدھوں کو کاٹ کر کھا جانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ جب تک انسان اللہ میاں کی گائے کا رُوپ دھار کر خود کو دو ٹانگوں والا گدھا ثابت کرتا رہے گا تب تک اُسے بَلی کا بکرا بنایا جاتا رہے گا اور چار ٹانگوں والے گدھوں کی جے جے کار ہوتی رہے گی!