"MIK" (space) message & send to 7575

… مرگِ مفاجات!

شیڈول کے مطابق بجلی دو گھنٹے کے لیے گئی ہوئی تھی۔ جن کا ہاتھ اللہ نے پکڑ رکھا ہے وہ ایسے میں گرمی یا حبس سے بچنے کے لیے جنریٹر چلا لیا کرتے ہیں۔ اپارٹمنٹس یعنی فلیٹوں میں جنریٹر ضرورت بنتا جا رہا ہے کیونکہ طرزِ تعمیر کی ''برکت‘‘ سے گرمی ہو نہ ہو، حبس ضرور ہوتا ہے۔ 
طاہر عباس صاحب نے بھی اپنے اپارٹمنٹ میں جنریٹر رکھا ہوا ہے تاکہ اہلِ خانہ حبس کے شکنجے میں زیادہ دیر نہ رہیں۔ مگر اُس دن جنریٹر بند تھا۔ کوئی خرابی پیدا ہو گئی تھی۔ طاہر عباس صاحب کو بھی معلوم نہ تھا کہ خرابی کیا ہے۔ وہ شاعر ہیں۔ اور شعر کہنے والے اگر کسی مشین کو درست کرنے کے نام پر کھول بیٹھیں تو ''شہر آشوب‘‘ کی سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے! 
نزدیک ہی واقع دکان سے ایک میکینک کو طلب کیا گیا۔ وہ صاحب کاندھے پر بیگ لٹکائے تشریف لائے۔ وجود تو بھاری بھرکم تھا ہی مگر اُس سے زیادہ وزنی تھیں اُن کی باتیں! آتے ہی جنریٹر پر صرف ایک نظر ڈالنے کے بعد ''قصیدۂ خود بزبانِ خود‘‘ کی منزل سے گزرے یعنی اپنے کمالات گِنوائے! اِس عمل سے فارغ ہو کر چند لمبے لمبے سانس لیے اور پھر جنریٹر کو ''اشتہا انگیز‘‘ نظر سے دیکھا۔ پھر کچھ سوچ کر ایک نظر طاہر عباس صاحب پر بھی ڈالی جیسے اندازہ لگا رہے ہوں کہ یہ مُرغا کتنے والی چُھری سے ذبح کیا جائے! اِس رسمی کارروائی کے بعد جنریٹر کی جانچ پڑتال کا عمل شروع ہوا۔ دو تین مقامات سے دیکھنے کے بعد یعنی ہاتھ لگائے بغیر ہی استفسار فرمایا کہ زیادہ لوڈ تو نہں ڈال دیا تھا، کہیں ریفریجریٹر تو نہیں چلا دیا تھا۔ زنان خانے سے ''اعترافِ جرم‘‘ جیسی ایک دو صدائیں اُبھریں! 
''بس، یہی تو بات ہے‘‘ میکینک صاحب نے خاصے محکم لہجے میں کہا۔ اب اُن کے بھاری بھرکم بیگ کی باری تھی۔ زِپ کھول کر بیگ سے ایک پیچیدہ سا میٹر نکالا گیا۔ میٹر سے تین تار باہر آئے ہوئے تھے اور ہر تار کے سِرے پر ایک پِن لگی ہوئی تھی۔ اب جنریٹر کی نبض اور دھڑکن چیک کرنے کا مرحلہ شروع ہوا! میکینک صاحب نے میٹر آن کرکے پِن لگائی تو میٹر سے ایک عجیب آواز برآمد ہوئی اور سُوئی ہلنے لگی۔ دوسری پِن لگانے پر عجیب تر آواز اُبھری۔ اور تیسری پِن لگانے پر چند نامانوس سی آوازیں اِس طور اُبھریں جیسے نند بھاوج کی لڑائی ہو رہی ہو! 
چند لمحات تو طاہر عباس اور اُن کے اہل خانہ شش و پنج میں مبتلا رہے کہ میکینک صاحب کی کارگزاری کو کیا سمجھیں۔ کیا وہ میٹر کی مدد سے مِرّیخ کی مخلوق سے رابطے کی کوشش فرما رہے ہیں! یا پھر یہ کہ وہ جنریٹر ٹیکنالوجی میں رہ جانے والی کوئی بڑی خرابی دور کرنے پر کمربستہ ہیں! 
اب میٹر کو آف کرکے تشخیصی عمل کا نتیجہ طشت از بام کرنے کا مرحلہ تھا۔ طاہر عباس اور اُن کے اہل خانہ اندازہ لگا چکے تھے کہ اب کوئی دل دہلا دینے والی بات ہو گی۔ اور اُن کا اندازہ درست نکلا۔ میکینک صاحب نے حکیمانہ انداز سے فرمایا کہ موٹر جواب دے گئی ہے، نئے سِرے سے وائنڈنگ ہو گی۔ یہ نُسخہ سات ہزار روپے کا تھا! 
سات ہزار؟ طاہر عباس صاحب پہلے حیران اور پھر پریشان ہو اُٹھے۔ ذیشان میاں نے جب ابا میاں کی اتنی بڑی رقم کو قربانی کے بکرے میں تبدیل ہوتے دیکھا تو اُن ''غیرتِ پسری‘‘ جوش میں آئی اور دو دن بعد جنریٹر اپنے ایک دوست کی دکان پر لے گئے۔ اُس دوست نے دو تین دن جنریٹر چلایا اور پھر ذیشان میاں سے کہا لے جائیے، کچھ بھی نہیں ہوا۔ معلوم ہوا کہ ''اے وی آر‘‘ اُڑ گیا تھا جو لگا دیا گیا ہے۔ کل ملا کر 400 روپے کا نُسخہ ہوا! اور اُس دوست نے اے وی آر کے پیسے بھی نہیں لیے۔ 
یہ زندگی کا کوئی ایک معاملہ نہیں جس میں ہم اپنی لاعلمی کی سزا بھگتتے ہیں۔ ٹی وی خراب ہو جائے تو میکینک چیکنگ کے نام پر اداکاری فرما کر ہماری جیب کو ہمارے ذہن کی طرح خالی کر دیتے ہیں! دس پندرہ روپے کا معمولی سا پُرزہ لگانے کے بھی چار پانچ سو روپے اینٹھ لیے جاتے ہیں۔ 
موٹر سائیکل چلتے چلتے بند ہو جائے تو میکینک پانچ دس منٹ میں ڈیڑھ دو سو روپے کھرے کر لیتا ہے۔ پچاس روپے کا پلگ خراب ہو جائے یا پورا انجن ہی ''سیز‘‘ ہو جائے، دونوں حالتوں میں موٹر سائیکل کو چلایا نہیں جا سکتا یعنی انجن اسٹارٹ نہیں ہوتا۔ اب یہ میکینک پر منحصر ہے کہ آپ کو اپنی مہارت کے خنجر کی نوک سے محض پیار بھری خراش دے یا خنجر کو تلوار بنا کر آپ کو ذبح کر ڈالے! 
گھر میں ریفریجریٹر چلتے چلتے بند ہو جائے تو اِس کا کوئی بھی سبب ہو سکتا ہے۔ ضروری نہیں کہ کمپریسر اُڑ گیا ہو۔ اگر کمپریسر جواب دے جائے تو چار پانچ ہزار روپے جیب سے سلِپ ہو جاتے ہیں۔ اب یہ میکینک کی مرضی اور صوابدید کا معاملہ ہے کہ وہ آپ سے اصل یعنی چھوٹی سی خرابی کے تین چار سو روپے چارج کرے یا پھر کمپریسر کو بیچ میں لا کر آپ کو محنت کی کمائی کے بڑے حصے سے محروم کر دے! 
یہی حال ڈاکٹرز کا ہے۔ اگر دل میں تکلیف محسوس ہونے پر چیک اپ کرائیے تو ڈاکٹرز جگر، پھیپھڑوں، گردوں اور دوسرے بہت سے اعضاء میں بھی خرابیاں بتا کر مریض کو اِس قدر ڈرا دیتے ہیں کہ تین چار ٹیسٹ کرانا پڑتے ہیں اور اِس عمل میں اِتنا کچھ خرچ ہو جاتا ہے کہ گھر کا بجٹ تین چار ماہ تک شدید نقاہت کی لپیٹ میں رہتا ہے! اگر ہاتھ یا پاؤں پر کوئی معمولی سی خراش آجائے تو میڈیکل سٹور سے کوئی ٹیوب لے کر لگانے سے بھی معاملہ سنبھل جاتا ہے۔ اور اگر آپ نے کسی ڈھنگ کے کلینک کا رُخ کیا تو سمجھ لیجیے خراش کی قدر و قیمت دو ڈھائی ہزار کی حد کو چُھوکر دم لے گی! 
یہ تو ہوا میکینکس اور ڈاکٹرز کا معاملہ۔ اگر آپ اپنے ہی شہر کے راستوں اور علاقوں سے کماحقہ واقف نہ ہوں تو کوئی بھی رکشا یا ٹیکسی والا بھی آپ کی کھال اُتارنے میں دیر نہیں لگائے گا۔ ایک ہی فاصلے کے کوئی سو روپے لے گا، کوئی دو سو اور کوئی تین سو۔ اگر آپ کو اندازہ ہی نہیں کہ آپ کی منزل ڈیڑھ دو کلومیٹر دور ہے تو رکشا والا بھی بھانپ لے کہ آپ اناڑی ہیں تو وہ عجیب سا رُوٹ بیان کرکے آپ سے دو سو روپے دبوچ لے گا۔ 
یہی سب کچھ بہت پھیل جائے تو پوری قوم اور دیگر اقوام سے اس کے تعلقات پر بھی محیط ہو جاتا ہے۔ اگر ہم من حیث القوم ویسی ہی لاعلمی کی لپیٹ میں ہوں جیسی لاعلمی ریفریجریٹر، جنریٹر، موٹر سائیکل، ٹی وی یا بیماریوں کے حوالے سے دکھاتے ہیں تو سمجھ لیجیے کوئی بھی قوم ہمیں کسی بھی وقت چُونا لگا سکتی ہے! اور سچ تو یہ ہے کہ ہم نے علاقائی اور عالمی تعلقات کے حوالے سے اب تک اِسی نوعیت کا بھونڈا پن بارہا دکھایا ہے اور متعلقہ نتیجہ بھی بھگتا ہے۔ معاملہ انفرادی ہو یا اجتماعی، بھرپور کمائی کا موقع اُنہیں ملتا ہے جو اداکاری کرتے ہیں اور نتائج سے ڈرا کر معاملات کو اپنے حق میں کرتے ہیں۔ مگر یہ سب تو اُسی وقت ممکن ہے جب فریق ثانی متعلقہ معلومات نہ رکھتا ہو اور ذرا سی خرابی کو انتہائی پیچیدہ سمجھتے ہوئے خوفزدہ ہو جائے۔ بہت سے ممالک کم رقبے اور کم آبادی کے باوجود میکینک والی مہارت رکھتے ہیں جس کی بدولت وہ آبادی، رقبے اور وسائل میں اپنے سے کہیں بڑے ممالک کی جیب خالی کرانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں! ٹیکنالوجی میں مہارت بھی ایسا ہی تو معاملہ ہے۔ یو ایس بی تو آپ نے دیکھی ہی ہو گی۔ تین چار سو روپے میں دستیاب یو ایس بی یا میموری کارڈ میں لگے ہوئے پلاسٹک اور دھات کی کل قیمت تین چار روپے بھی نہیں ہوتی۔ ساری قیمت ٹیکنالوجی کی ہے! انجینئر اور میکینک کا درجہ پانے والی اقوام فنی مہارت ہی کا تو کھاتی ہیں۔ 
جان لیجیے کہ جاننا ضروری نہیں، ناگزیر ہے۔ قدم قدم پر لاعلمی کے گڑھے ہیں۔ دیکھ کر نہ چلنے والے کہیں بھی گِر سکتے ہیں اور یہ گِرنا بھی ایسا ہو گا کہ کسی اور کو تو کیا، خود گِرنے والوں کو بھی یقین نہ آئے گا کہ یُوں بھی گِرا جا سکتا ہے! گویا نہ جاننا کمزوری ہے، ضعیفی ہے۔ اور علامہ نے فرمایا ہے ع 
ہے جُرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں