"MIK" (space) message & send to 7575

یہ ڈرامے دکھائیں گے کیا سین

ایک زمانے سے ہم کئی طرح کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ایک زندگی وہ ہے جو عطا کی گئی ہے اور ایک زندگی وہ ہے جو ہمارے ٹی وی ڈراموں اور قصوں کہانیوں میں پائی جاتی ہے۔ کبھی کبھی ذہن یہ سوچتے سوچتے الجھ جاتا ہے کہ حقیقی زندگی زندگی کہاں تک ہے اور ورچوئل زندگی کہاں سے شروع ہوتی ہے۔ ڈائجسٹوں کے قصوں کہانیوں کے بعد اب اہل پاکستان اور بالخصوص خواتین ٹی وی ڈراموں کی مدد سے اور بعض کیسز میں تو اِن ڈراموں کے سہارے زندگی بسر کر رہی ہیں۔ کبھی کبھی یہ سوچ کر حیرت ہوتی ہے کہ جب درحقیقت ہماری پوری زندگی ہی ڈرامے کی شکل اور حیثیت اختیار کر چکی ہے تو پھر الگ سے ڈرامے بنانے اور دیکھنے کی کیا ضرورت ہے! 
خیر، بات ہو رہی ہے ڈراموں کے سہارے زندگی بسر کرنے کی۔ ہم تو اب تک یہ دعوٰی سمجھ نہیں پائے کہ ڈرامے معاشرے ہی کا عکس ہوتے ہیں۔ بیشتر پاکستانی ڈراموں میں اب جو کچھ دکھائی دے رہا ہے‘ وہ ہمیں عملی زندگی میں دور تک دکھائی نہیں دیتا۔ محبوب کی آواز کو سراہتے ہوئے کسی نے خوب کہا ہے ع 
اِک رنگ میں سو رنگ دکھاتی ہوئی آواز 
ہمارے ٹی وی ڈراموں کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ انڈین ڈراموں میں قریبی رشتوں اور تعلقات کے حوالے سے بدگمانیوں اور سازشوں پر مبنی جو کھڑاگ پیش کیا جاتا رہا ہے وہ اب ہمارے ڈراموں میں بھی در آیا ہے۔ ناظرین یہ سوچ کر انگشت بہ دنداں رہ جاتے ہیں کہ آسان اور سادہ سی زندگی کو الجھنوں کا مرقّع بنانے کے آخر کتنے طریقے ہو سکتے ہیں! 
جب بھی ٹی وی ڈراموں میں ناپسندیدہ عادات و اطوار کے حامل کرداروں کی بھرمار کا تذکرہ ہوتا ہے، بالعموم یہ جواز پیش کیا جاتا ہے کہ یہ سارے کردار معاشرے میں پائے جاتے ہیں اور یہ کہ آخر میں ان کا بُرا انجام بھی تو دکھایا جاتا ہے تاکہ ناظرین کچھ سبق سیکھیں۔ ہم عرض کر دیں کہ بُرے کرداروں کا بُرا انجام اگر ہوتا بھی ہے تو آخر میں۔ تب تک تو بُرے کردار زندگی کا بھرپور مزا لُوٹ رہے ہوتے ہیں! عام آدمی اور بالخصوص خواتین کو ٹی وی ڈرامے دیکھ کر صرف اتنا یاد رہتاہے کہ بُرے کردار آخری قسط تک بھرپور اور مزے کی زندگی بسر کرتے ہیں! اور یہ کہ آخر میں تھوڑی بہت ذِلّت مل بھی جائے تو کیا فرق پڑتا ہے! ٹھیک ہے، غالبؔ نے کہا ہے ع 
کام اچھا ہے وہی جس کا مآل اچھا ہے 
مگر صاحب، ڈرامے دیکھتے وقت کسی کو اور خاص طور پر خواتین کو کب یاد رہتا ہے کہ غالبؔ نے کیا کہا تھا! ہم کئی سال سے دیکھ رہے ہیں کہ ڈراموں میں قریبی اور مقدس رشتوں کا تیاپانچا کرنے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے۔ انڈین ڈراموں میں ساس بہو اور نند بھاوج کے جھگڑوں کے نام پر دکھایا جاتا رہا ہے کہ مشترکہ خاندان میں گھریلو زندگی سازشوں کی آماجگاہ کے سِوا کچھ نہیں۔ مشترکہ خاندان کے تمام کردار ایک دوسرے کے خلاف سازشوں میں مصروف دکھائے جاتے ہیں۔ اور ناظرین کو بھی یہ سب کچھ دیکھنے کی ایسی عادت پڑ گئی ہے کہ اگر ڈراما سیدھا چل رہا ہو یعنی کوئی سازش یا ''ٹوئسٹ‘‘ نہ ہو تو ریٹنگ گر جاتی ہے! 
یہی حال اب ہمارے ڈراموں کا بھی ہے۔ آج کل ہمارے ٹی وی ڈراموں میں بھی بیشتر کہانیاں رشتوں کے درمیان شدید پائی جانے والی شدید بدگمانیوں کے محور پر گھوم رہی ہیں۔ کسی کو سالی میں دلچسپی لیتے ہوئے دکھایا جاتا ہے، کہیں لڑکی کو اپنے ''جیجو‘‘ پر ڈورے ڈالتے ہوئے پیش کیا جاتا ہے! ایک ہٹ فارمولا یہ بھی ہے کہ لڑکا اور لڑکی شادی کرنا چاہتے ہوں مگر شادی نہ ہو پائے اور پھر اُن کا رشتہ ایک ہی گھر میں ہو جائے! پھر وہی کیفیت پیدا ہوتی ہے جو میرزا نوشہ نے بیان کی ہے ؎ 
رات دن گردش میں سات آسماں 
ہو رہے گا کچھ نہ کچھ، گھبرائیں کیا 
جب قریبی، نازک اور حسّاس رشتوں کو بدگمانیوں کے چاک پر گھمایا جاتا ہے تب ہمارے ڈراموں میں بھی شروع ہوتی ہے انڈین ڈراموں والی مہابھارت! اور سب سے بڑھ کر... دو شادیوں کا چکر! انڈین ڈراموں میں دو شادیوں کا معاملہ نہیں پایا جاتا تھا۔ سبب صرف یہ ہے کہ ہندو دھرم میں ایک سے زائد بیوی رکھنا جائز نہیں۔ اگر جائز ہوتا تو انڈین ڈراموں میں بھی اِس حوالے سے قیامت برپا ہو کر رہتی! ہمارے ڈراما نگاروں نے ایک سے زائد شادیوں کی اجازت کا خوب فائدہ اٹھایا ہے جس کے نتیجے میں قدم قدم پر ''ٹوئسٹ'' کی گنجائش پیدا ہوئی ہے۔ دوسری شادی کا معاملہ پاکستانی ڈراموں میں اتنے تواتر سے پیش کیا جا رہا ہے کہ کبھی کبھی تو ہم شدید احساسِ محرومی کا شکار ہو جاتے ہیں! جی چاہتا ہے کہ ہم بھی کسی ڈرامے میں شامل ہو کر زندگی بسر کریں یا پھر کوئی ڈراما ہماری زندگی کا حصہ بن کر کچھ رنگینی پیدا کر دے! خوش فہمی اور خوش گمانی کے چند لمحات میں گم رہنے کے بعد جب ہم اپنی زندگی کی طرف واپس آتے ہیں تو ع 
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو سُنا افسانہ تھا 
والی کیفیت دل و دماغ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے۔ اور اِس کے بعد ہمیں میرزا نوشہ یاد آتے ہیں ؎ 
پھر اُسی بے وفا پہ مرتے ہیں 
پھر وہی زندگی ہماری ہے! 
ایک زمانہ تھا جب پاکستان اور انڈیا کی فلموں میں دیور بھابی اور سالی بہنوئی کے رشتے کو خاصے تقدس کے ساتھ پیش کیا جاتا تھا۔ کہانی اتنی پاکیزہ سیٹنگ میں ہوتی تھی کہ لوگ فلم دیکھ کر اپنے اخلاق اور زندگی کا ڈھب درست کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ بڑے بھائی کی بیوی ماں جیسا کردار ادا کرتی نظر آتی تھی۔ اِسی طور بیوی کی چھوٹی بہن بھی بہنوئی کے لیے چھوٹی بہن کی طرح محترم ہوتی تھی۔ اب ٹی وی کے ڈرامے بنانے اور لکھنے والوں کے پاس ایجنڈا صرف یہ رہ گیا ہے کہ پاکیزہ رشتوں کا تیاپانچا کر دیا جائے۔ قدم قدم پر سازش اور بدگمانی کارفرما نظر آتی ہے۔ ہر سین بدگمانی سے شروع ہوکر بدگمانی پر ختم ہوتا ہے۔ یہ ثابت کرنے کی منظم کوشش کی جا رہی ہے کہ رشتوں میں تقدس تلاش کرنا سعیٔ لاحاصل ہے یعنی ہر رشتہ اور تعلق صرف دولت اور مفاد کے محور پر گھوم رہا ہے۔ کمال ہوشیاری کے ساتھ اور غیر محسوس طریقے سے درس یہ دیا جا رہا ہے کہ رشتوں اور تعلقات کو مفادات کی کشمکش سے ہٹ کر کسی اور تناظر میں نہ دیکھنے کی کوشش نہ کی جائے۔ 
ایجنڈے کا تقاضا ہے کہ کہانی کا ہر ٹوئسٹ مفاد سے شروع ہو کر بدگمانی اور سازش پر ختم ہو۔ جو خواتین ڈرامے باقاعدگی سے دیکھتی ہیں وہ رفتہ رفتہ ہر معاملے کو شک کی نظر سے دیکھنا شروع کر دیتی ہیں! کسی کا مسکرا کر بات کرنا کچھ کا کچھ سمجھا جاتا ہے۔ کوئی اپنائیت کا مظاہرہ کرے تو اُس میں کسی سازش کا سِرا تلاش کیا جاتا ہے۔ شرلاک ہومز کی طرح ہر معاملے کی ٹوہ لینے کی کوشش کو اپنے آپ پر فرض کر لیا گیا ہے۔ یعنی کوئی ایسی ویسی بات ہاتھ لگے اور پوائنٹ اسکورنگ کی جائے! اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ڈرامے دیکھنے کی عادت ہر بات کے دس مفاہیم اخذ کرنے کا ہنر سِکھاتے جا رہی ہے۔ کہانی میں حقیقی ٹوئسٹ اُسی وقت آتا ہے جب کوئی ایک بات عملاً تین چار باتیں بیان کر رہی ہو! یہ خصوصیت اب عملی زندگی میں بھی در آئی ہے۔ روزمرہ گفتگو میں بھی لوگ ایک بات کے کئی پہلو تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ اور نہ ملیں تو تراش لیتے ہیں! کوئی کچھ کہے اور اُس کی کوشش کے بغیر کچھ اور ہو جائے تو فرض کر لیا جاتا ہے کہ کہنے والی نیت یہی تھی۔ ڈراموں کے کرداروں میں پائی جانے والی بدنیتی اور بدگمانی اب ہماری زندگی میں در آئی ہے۔ ہر بات کو کچھ کا کچھ سمجھنے کی عادت پختہ سے پختہ تر ہوتی جاتی ہے۔ سوچ میں پایا جانے والا شک کا بیج رفتہ رفتہ ایسا درخت بنتا جاتا ہے جس کی جڑوں میں رشتے اور تعلقات دفن ہوتے جاتے ہیں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ ڈرامے ہمیں کہاں لے جارہے ہیں۔ اب تو صرف انتظار رہ گیا ہے کہ ؎ 
یہ ڈرامے دکھائیں گے کیا سین 
پردے اُٹھنے کی منتظر ہے نگاہ! 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں