ممتاز اور نمایاں ہوکر زندگی بسر کرنے کی خواہش کس کے دل میں نہیں ہوتی؟ ہر شخص زندگی بھر یہی تو چاہتا ہے کہ اُس کی الگ اور باضابطہ شناخت ہو‘ اور اِس شناخت کے قائم کرنے کی دُھن میں لوگ کیا کیا جتن کرتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ اپنے وجود کو مِٹا ڈالتے ہیں۔
علم و فن کی دنیا میں معاملہ زیادہ سنجیدہ اور سخت ہے۔ شناخت قائم کرنا ویسے تو ہر انسان کے لیے مشکل مرحلہ ہے مگر علم و فن کی دنیا میں ہر شخص غیر معمولی دباؤ کا شکار رہتا ہے۔ اور شناخت قائم کرنے سے کہیں زیادہ جاں گسل مرحلہ ہے اُسے برقرار رکھنے کا۔ شعر گوئی کی دنیا ہی کو لیجیے۔ شعراء اپنی شناخت قائم کرنے اور اُسے برقرار رکھنے کی خاطر کون کون سے جتن نہیں کرتے۔ اُن کی پوری زندگی اپنے آپ کو منواتے رہنے پر صرف ہو جاتی ہے۔ میر تقی میرؔ نے یہی بات یُوں بیان کی ہے؎
ہم کو شاعر نہ کہو میرؔ کہ صاحب ہم نے
درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا
مگر خیر وہ تو میرؔ تھے جنہیں اپنا آپ منوانے کے لیے درد و غم جمع کرنا پڑے۔ میرؔ جس کے خدا کہلاتے تھے اُس دنیائے سخن کے اطوار اب بہت بدل گئے ہیں۔ درد و غم جمع کرکے دیوان کرنے کی روایت کب کی ترک کی جا چکی ہے۔ اب اپنی جولانیٔ طبع دکھانے کی خاطر دوسروں کے لیے درد و غم کا اہتمام کرنے کو ترجیح دی جاتی ہے! شعر گوئی پر ''بضد‘‘ بہت سے اصحاب کا بنیادی فن یہ ہے کہ ''معاصرین‘‘ کو کس حد تک شہر آشوب کی سی کیفیت سے دوچار کیا جائے!
فی زمانہ شعرا کو مقبولیت دلانے میں ان کے فن یعنی سخن سے زیادہ اہم کردار دوسری بہت سی ایسی باتوں کا ہوتا ہے جن کا سخن سے دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا۔ کسی کا کلام اِس بنیاد پر بھی توجہ سے سُنا جاتا ہے کہ وہ کسی بڑے اور اہم منصب پر فائز ہے! ایک زمانہ تھا جب ٹی وی کے پروڈیوسرز کو غیر معمولی سماجی رتبہ میسر تھا۔ تب شادی کی کسی تقریب میں کوئی ٹی وی پروڈیوسر پہنچتا تھا تو لوگ کرسیوں سے اٹھ کر، پوری گردن گھما کر دیکھا کرتے تھے! شعر کہنے والے ٹی وی پروڈیوسرز اور رائٹرز وغیرہ کو گانے والے بھی آسانی سے میسر ہو جاتے تھے اور یوں ان کا کلام خاصے سجے ہوئے انداز سے لوگوں تک پہنچ کر اُن کے دلوں میں جگہ بھی بنا لیا کرتا تھا۔ مثلاً ... جانے دیجیے۔ ع
کہاں تک گِنو گے، کہاں تک گِناؤں!
چند ایک شعراء تھوڑی زیادہ توجہ پانے میں اس لیے کامیاب رہتے ہیں کہ کسی بڑے سرکاری ادارے میں اعلیٰ منصب پر فائز ہوتے ہیں اور کسی نہ کسی طور کام بھی آسکتے ہیں! گویا ؎
''شاعر ہیں فقط وہی تو اچھے‘‘
آتے ہیں جو کام دوسروں کے
نصیب کی یاوری سے چند ایک صحافی بھی شعر کہتے ہیں اور اپنے شعبے کی برکت سے دنیائے سخن میں تھوڑا بہت سکوپ پیدا کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ دنیائے ادب میں اپنا آپ منوانے کا ایک اچھا طریقہ یہ بھی ہے کہ کسی اخبار میں ادبی صفحے کے انچارج بن جائیے اور پھر کسی کو آسمان پر بٹھائیے اور کسی کو خاک میں ملائیے!
ہماری بھی چند ایک غزلیں صحافتی حلقوں میں تھوڑی بہت پی آر کی بنیاد پر شائع ہوئی ہیں! یہ غزلیں ہم نے جب بھی مرزا تنقید بیگ کو دکھائی ہیں اُنہوں نے ہمیں سخن ور تو نہیں مانا، ہاں ''شعر گوئی کا مرتکب‘‘ ضرور قرار دیا ہے! اور ایسے ریمارکس پر ہم نے ہمیشہ چُپ رہ جانے کو ترجیح دی ہے کیونکہ مرتکب قرار دیئے جانے کے بعد تادیب کا مرحلہ شروع ہوتا ہے!
خیر، ذکر ہو رہا تھا دنیائے سخن میں نام کمانے کے طریقوں کا۔ مشاعروں میں کسی بھی شاعر کو زحمتِ کلام دینے سے پیشتر چند الفاظ تعارف کی مد میں ادا کیے جاتے ہیں تاکہ حاضرین شاعر کے مرتبے سے تھوڑے بہت آگاہ رہیں۔ عملی زندگی میں مشاعرے کی حد تک کسی شاعر کے مرتبے کے ساتھ ساتھ اب اِس بات کو بھی تعارفی کلمات میں خاص اہمیت دی جاتی ہے کہ حضرت کہاں کے ہیں یا کہاں سے آئے ہوئے ہیں!
ویسے تو تمام ہی شعراء آسمان سے اِس دنیا میں آئے ہوئے ہیں مگر یہ بالکل سامنے کی بات ہے جسے کوئی اہمیت نہیں دیتا! اور یوں بھی آسمان سے آیا ہوا ہونا ہر معاملے میں کوئی فضیلت کی بات نہیں۔ آسمان سے تو بلائیں بھی نازل ہوتی ہیں! تو کیا اب شعراء کو اس کھاتے میں رکھا جائے گا؟ ویسے بعض شعراء مزاجاً ایسے واقع ہوئے ہوتے ہیں کہ اُنہیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے میرزا نوشہ نے زیر نظر مقطع میں شاید اُنہی کی طرف اشارا کیا تھا ؎
ہو چکیں غالبؔ بلائیں سب تمام
ایک مرگِ ناگہانی اور ہے!
ایک ڈیڑھ عشرے سے یہ ''وباء‘‘ پھیلی ہوئی ہے کہ لوگ کچھ دن کے لیے کہیں جاتے ہیں اور واپسی کے بعد وہاں سے آئے ہوئے ہوجاتے ہیں یا کہلاتے ہیں! اِس ''طریقِ واردات‘‘ کو اپناتے ہوئے اب بہت سے شعراء نے اپنا فنی قامت بلند کرلیا ہے اور ہماری ہی صفوں سے نکلے ہوئے ہونے کے باوجود کسی اور سرزمین کی نسبت سے اضافی و خصوصی توقیر پاتے ہیں ... اور یہ سب کچھ دیکھ کر ہم ایسے دنیائے سخن کے ''سیاسی یتیم‘‘ اپنے سے منہ لے کر رہ جاتے ہیں!
اضافی یعنی استحقاق سے زائد شہرت بٹورنے اور اِس بہانے فنی قامت بلند کرلینے کا تاثر دینے کا ایک بنیادی ''طریق واردات‘‘ یہ بھی ہے کہ کوئی شاعر امریکہ، کینیڈا یا یورپ میں بسی ہوئی اولاد سے ملنے جائے اور وہاں چند ماہ گزارنے کے بعد واپسی پر امریکہ، کینیڈا یا یورپ سے آیا ہوا شاعر کہلائے! بعض تو ایسے بھی ہیں جو ڈھائی تین سال میں ایک بار تین چار ماہ کے لیے اولاد سے ملنے مغرب کا رخ کرتے ہیں اور واپسی کے بعد ڈھائی تین سال تک امریکہ، کینیڈا یا یورپ سے آئے ہوئے شاعر کے منصب پر فائز رہتے ہیں!
اگر کوئی شاعر کہیں سے نہ آیا ہو تو ''ہوکر آیا ہوا‘‘ کے الفاظ کی مدد سے اپنا فنی قامت بلند کرنے اور حاضرین پر دبدبہ قائم کرنے کے فراق میں رہتا ہے۔ ایسے شعراء چاہتے ہیں کہ جب زحمتِ کلام دی جائے تو یہ بھی بیان کردیا جائے کہ اب تک کئی ممالک میں مشاعرے پڑھ چکے ہیں! اور یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اِس طور خود کو بلند کرنے کا ہُنر کامیاب رہتا ہے کیونکہ اہلِ وطن نے طے کر رکھا ہے کہ اب ہر اُلٹی سیدھی بات سے متاثر ہوکر ہی دم لیں گے! لوگ جب فیس بک پر کسی سِدھائے ہوئے حیوان کے ''کمالات‘‘ کا وڈیو کلپ دیکھ کر ششدر رہ جاتے ہیں تو کیا ملکوں ملکوں گھوم کر مشاعرے پڑھنے کو یکے از کمالات جان کر متاثر نہ ہوں گے!
''آئے ہوئے شاعر‘‘ کا فارمولا اب اندرونی سطح پر بھی مستعمل ہے۔ پنجاب کا شاعر سندھ میں یا سندھ کا شاعر پنجاب میں مشاعرہ پڑھے تو تعارف کراتے وقت بتایا جاتا ہے کہ کراچی، لاہور، ملتان یا راولپنڈی سے آئے ہوئے شاعر ہیں۔ یہاں تک تو بات ٹھیک ہے۔ مگر کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جسے کسی اور شہر سے آیا ہوا شاعر بتاتا جاتا ہے وہ سال بھر شہر میں مقیم ملتا ہے اور تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ موصوف نوکری کی تلاش میں جُوتیاں چٹخانے کے ساتھ ساتھ مشاعرے بھی نمٹا رہے ہیں!
کالم کے رخصتی کلمات کے تحت عرض ہے کہ کراچی بجائے خود اتنا وسیع ہے کہ شہر کے دو سِروں پر واقع علاقوں کا سفر ساری توانائی نچوڑ لیتا ہے۔ لانڈھی، کورنگی اور ملیر سے کوئی شاعر نارتھ کراچی آکر مشاعرہ پڑھے تو اُس کا اتنا حق تو بنتا ہے کہ ''لانڈھی، کورنگی یا ملیر‘‘ سے آئے ہوئے شاعر بتاکر زحمتِ کلام دی جائے! یہ بات وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو رات بارہ ایک بجے مشاعرہ ختم ہونے پر اِتنا طویل سفر کرکے ''بڑی مشکل سے گھر واپس پہنچے ہوئے شاعر‘‘ کا درجہ پاتے ہیں! چھوٹے شہروں کے شعراء مزے میں ہیں کہ دو تین کلو میٹر چلتے ہیں کہ منزل آجاتی ہے۔ کراچی میں چالیس پچاس کلو میٹر کا فاصلہ طے کرکے مشاعرہ پڑھنا پڑے تو وہی حال ہو جو غالبؔ نے بیان کیا ہے ؎
گیا ہو جب اپنا ہی جیوڑا نکل
کہاں کی رباعی، کہاں کی غزل؟