1950 ء کے عشرے میں راج کپور اور نرگس کی فلم ''آوارہ‘‘ نے دھوم مچائی تھی۔ کہانی یہ تھی کہ انسان جو کچھ بھی بنتا ہے، اپنے ماحول ہی سے بنتا ہے۔ عدالت میں جج صاحب (پرتھوی راج) سے بحث کے دوران مجرم (کے این سنگھ) اپنی صفائی میں ماحول کا بہانہ تراشتا ہے اور جب جج صاحب اُس کی بات تسلیم نہیں کرتے تو وہ جج صاحب کے بیٹے (راج کپور) کو اغوا کرکے جرائم پیشہ بناکر اپنی بات درست ثابت کرتا ہے!
''آوارہ‘‘ کا ایک منظر یُوں ہے کہ راج کپور، جو جیب کترا ہے اور اپنے حقیقی والد کو نہیں جانتا، ایک دن اپنے حقیقی والد کو جڑاؤ ہار خریدتے ہوئے دیکھتا ہے اور اپنی محبوبہ (نرگس) کو سالگرہ کا تحفہ دینے کی غرض سے ڈبّے سے ہار لے اُڑتا ہے۔ یہ ہار لے کر وہ نرگس کے گھر جاتا ہے اور سالگرہ کی تقریب میں اُسے ہار پہناتا ہے۔ وہ ہار کا ڈبہ طلب کرتی ہے تو راج کپور کہتا ہے ڈبے سے کیا ہوتا ہے، اصل چیز تحفہ ہے! چند لمحات کے بعد جج صاحب (پرتھوی راج) بھی تشریف لاتے ہیں۔ راج کپور جب دیکھتا ہے کہ یہ تو وہی صاحب ہیں جن کے ڈبے سے ہار اُڑایا ہے تو کونے میں دُبک جاتا ہے۔ جج صاحب نرگس کو سالگرہ کو تحفہ یعنی ہار کا ڈبہ دیتے ہیں۔ نرگس ڈبہ کھولتی ہے تو ...! ظاہر ڈبہ خالی ملتا ہے۔ جج صاحب حیران رہ جاتے ہیں اور کچھ بول نہیں پاتے! نرگس کہتی ہے : ''آج کا دن بھی کتنا عجیب ہے۔ کسی نے ہار پہنایا تو ڈبہ نہیں تھا۔ اور کوئی ڈبہ لایا ہے تو اُس میں ہار نہیں!‘‘
ہم جب بھی سندھ میں تعلیم کی صورت حال پر نظر ڈالتے ہیں تب ہمیں ''آوارہ‘‘ کا یہ منظر بے ساختہ یاد آجاتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ بچوں کی مشہور نظم ''بھائی بُھلکّڑ‘‘ بھی یاد آئے بغیر نہیں رہتی۔ سندھ میں اسکول تو بہت ہیں مگر اُن میں تعلیم اُسی طرح غائب ہے جس طرح نرگس کو دیئے جانے والے ڈبّے سے ہار غائب تھا! اور اگر کہیں تعلیم پائی جاتی ہے تو اسکول یعنی چار دیواری، بلیک بورڈ، فرنیچر وغیرہ کی محتاج نہیں ہوتی۔ کوئی اللہ کا بندہ بچوں کو علم کی دولت بانٹنے پر تُل جاتا ہے تو کسی گھنے درخت کے نیچے جھاڑو دے کر زمین صاف کرتا اور پھر وہاں دری بچھاکر بچوں کو بٹھاتا اور اپنا کام شروع کردیتا ہے!
سندھ میں سرکاری اسکولوں سے متعلق عجیب و غریب خبریں تواتر سے آتی ہیں۔ یہ خبر تو آئے دن اخبارات میں شائع ہوتی ہے کہ کسی اسکول کو علاقے کے وڈیرے یا کسی اور با اثر شخص نے اپنی اوطاق میں تبدیل کردیا۔ گویا ''اوطاقی‘‘ تعلیم دی جارہی ہے! (ویسے تدریس پر مامور افراد بھی تو اسکول کو بالآخر اوطاق میں تبدیل کرکے دم لیتے ہیں!) یا یہ کہ کسی اسکول میں عملہ تعینات نہیں اور بچوں نے آنا چھوڑ دیا ہے تو کسی نے موقع غنیمت جان کر اسکول کی چار دیواری میں مویشی باندھنا شروع کردیا یعنی اچھے خاصے اسکول کو تعلیمی باڑے میں تبدیل کردیا گیا!
یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اندرون سندھ ہر بے ڈھنگی حرکت کے لیے اسکول ہی پر نظر کیوں ٹھہرتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اسکول کو کچھ سے کچھ بناکر مغالطوں کی کہکشاں جگمگانے کی سازش تیار کی گئی ہے۔ اسکول تعلیم کے لیے ہوتا ہے۔ بچے علم کے حصول کا مقصد متعین کرکے اسکول میں قدم رکھتے ہیں تو وہاں مویشی بندھے ہوئے ملتے ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر اُن کے ذہنوں میں طرح طرح کے خیالات ابھرتے ہیں۔ ممکن ہے وہ یہ بھی سوچتے ہوں کہ مویشیوں کو بھی انرولمنٹ دے کر اُنہیں (بچوں کو) اور مویشیوں کو ایک صف میں کھڑا کردیا گیا ہے! یا پھر یہ کہ شاید مویشیوں کو اپ گریڈ کیا جارہا ہے!
کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی کسی اسکول میں مویشی بندھے ہوئے دیکھتا ہے تو عمارت پر باڑے کا گمان گزرتا ہے اور پھر جب کسی دن وہ برتن لے کر دودھ لینے کے خیال سے اسکول کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے تو اندر یونیفارم پہنے ہوئے بچے دیکھ کر ورطۂ حیرت میں پڑ جاتا ہے! ہوسکتا ہے کہ ایسا کوئی منظر دیکھ کر آپ کا ذہن بھی یہ سوچے کہ ہماری تعلیم ایسی ''چمتکاری‘‘ ہے کہ انسانوں کا کچھ بھلا کرے یا نہ کرے، مویشیوں کو ضرور انسان بنادیتی ہے!
کسی اسکول میں ہر وقت اوطاق سجی رہتی ہو تو کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی وڈیرے سے ملنے اسکول پہنچتا ہے تو وہاں درجنوں بچے حلق کا پورا زور لگاکر دو سے دس تک کے پہاڑوں کی گردان کرتے ہوئے ملتے ہیں!
کل ملاکر یہ ثابت ہوا کہ سندھ کے اسکول جادو کے ڈبّے جیسے ہیں۔ اِس ڈبّے سے کوئی چیز غائب نہیں ہوتی بلکہ کھولے جانے پر ہر بار کوئی نیا، انوکھا آئٹم برآمد ہوتا ہے!
سکول تعلیم کے لیے ہوتا ہے۔ آپ سوچیں گے اُس میں اوطاق قائم بنانا، باڑے بنانا یا کاٹھ کباڑ بھر دینا تو بچوں پر ظلم ہے۔ مگر صاحب! حیرت کیسی کہ ایسے مناظر تو ملک بھر میں دکھائی دیتے ہیں۔ جو قطعاتِ اراضی بچوں کے کھیل کود کے لیے مختص ہوتے ہیں اُن پر کبھی بچت بازار سجایا جاتا ہے اور کبھی سرکس لگا ملتا ہے۔
دُنیا بہت پیچھے رہ گئی ہے۔ ہم نے کسی بھی ملک میں اسکول کی عمارت کو کسی اور کام کے لیے استعمال ہوتے نہیں دیکھا۔ شدید ہنگامی حالت میں کچھ دن کے لیے اسکول کی عمارت سے کوئی اور کام لیا جائے تو اور بات ہے ورنہ عمومی حالات میں تو اسکول صرف تعلیم ہی دے رہے ہوتے ہیں۔ یہ بھی کوئی بات ہوئی۔ دنیا والے کیا جانیں کہ اسکول سے کیسے کیسے کام لیے جاسکتے ہیں! باڑے قائم کرکے بچوں کو بہت چھوٹی عمر سے ایک منافع بخش دھندا سکھایا جاسکتا ہے۔ اِسی طور وڈیروں کی اوطاق قائم کی جائے تو اسکول کی عمارت ''پنچایت‘‘ کا درجہ حاصل کرلیتی ہے یعنی گاؤں یا علاقے کے تنازعات کا فیصلہ کرنے کے کام آتی ہے۔ ایسی حالت میں بچوں کو خاصی چھوٹی عمر سے انصاف کی فراہمی کا عمل سمجھایا جاسکتا ہے!
معاملہ مویشی باندھنے کا ہو، اوطاق قائم کرنے کا یا پھر کاٹھ کباڑ بھر رکھنے کا ... یہ بات تو طے ہے کہ سندھ کے دیہی علاقوں کے بیشتر اسکول علم کی دولت عام کرنے کے سِوا سارے کام پوری ایمانداری اور تندہی سے کرتے ہیں! آپ سوچیں گے یہ تو اسکولوں کی نا اہلی ہوئی۔ جی نہیں، یہ عوام کی نا اہلی ہے۔ وہ سرکاری اسکول کی عمارت سے ایسی چیز کیوں مانگتے ہیں جو اُس کے دامن میں پائی ہی نہیں جاتی!
دیہی علاقوں میں سرکاری اسکولوں کی اصلاح کی تو جاسکتی ہے مگر ایسا کرنے سے کئی طرح کے میلے ختم ہوجائیں گے! آپ ہی سوچیے، لوگ مویشی کہاں باندھا کریں گے؟ اور جی بھر کے گپ شپ لگانے کے لیے لوگ اوطاق کہاں سجایا کریں گے؟ علاقے کا کوڑا کرکٹ، کاٹھ کباڑ اپنا ٹھکانا کہاں بنایا کرے گا؟ ایک ذرا سی تعلیم کے لیے اتنے بنے بنائے کھیل بگاڑنا کہاں کی دانش مندی ہے؟ کیا ہم چھوٹے دل کے ہیں؟ یقیناً نہیں۔ جب ہم اِس ملک میں اتنا کچھ برداشت کر رہے ہیں اور اِتنے بہت سے شعبوں کو برباد ہوتے ہوئے دیکھ ہی رہے ہیں تو پھر تعلیم کی تباہی ہر رنجیدہ ہوکر دل چھوٹا کیوں کیا جائے؟ ایک تماشا اور سہی!
آئیے، ایک بار پھر ''آوارہ‘‘ کی طرف چلتے ہیں۔ فلم کا مرکزی خیال یہ تھا کہ انسان اپنے طور پر کچھ بھی نہیں ہوتا، جو کچھ ماحول اُسے بناتا ہے وہی کچھ وہ بنتا ہے۔ ہمارے ہاں جب ہر معاملے میں سرکاری وسائل سے کچھ اور کام لیا جارہا ہے تو پھر اسکولوں نے کیا بگاڑا ہے کہ اُن سے کوئی اور کام نہ لیا جائے۔ تعلیم کے شعبے میں پرائیویٹ سیکٹر اپنی تجوری بھرنے پر تُلا ہوا ہے تو ظاہر ہے اُس کی بھرپور کوشش ہوگی کہ سرکاری اسکولوں میں تعلیم و تعلّم کا بوریا بستر گول کردیا جائے۔ اور، اِس سے بھی ایک قدم آگے جاکر، اگر موقع ملے تو اسکولوں ہی کا ڈبّا گول کردیا جائے۔ بانس ہوگا تو بانسری بجے گی نا۔ بانسری کی دُھن سے بچنے کیلئے بانس کو ٹھکانے لگانے کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ اسکول کے ڈبّے سے پہلے تو تعلیم کا ہار ٹھکانے لگایا گیا۔ اور اب اسکولوں کو جہان بھر کے کاموں کے لیے استعمال کرکے ڈبّے کو بھی ٹھکانے لگایا جارہا ہے۔ گویا زیادہ دِلّی دور نہیں!