سوچنے اور لکھنے والے ایک زمانے سے اس بات کا رونا رو رہے ہیں کہ معاشرہ خطرناک حد تک غیر شاعرانہ ہوگیا ہے۔ ہر طرح کے ادب سے بیزاری ہمارے عمومی مزاج کا حصہ ہے۔ مگر خیر، ایک ادب کو کیا روئیں کہ اب تو زندگی کا ہر مصرع بحر سے خارج دکھائی دیتا ہے اور بہت کچھ ایسا بھی ہے جو بھرتی کے مصرعوں کے مانند زندگی پر بوجھ کا درجہ رکھتا ہے! اور اِس سے بڑا ستم یہ ہے کہ جو لوگ ادب کی خدمت کے دعوے کرتے نہیں تھکتے خود اُن کی زندگی میں بھی ادب سے لگاؤ شرمناک حد تک کم دکھائی دیتا ہے۔
کتابیں پڑھنا اور اچھی شاعری سے حِظ اٹھانا تو بہت دور کا مرحلہ ہے، لوگ اخبارات بھی صرف خبروں کی حد تک پڑھتے ہیں۔ کبھی ادارتی صفحات اور ہفتہ وار ایڈیشن کی ورق گردانی کرکے اپنے اندر مطالعے کا ذوق و شوق پیدا کرنے یا اُسے پروان چڑھانے کی کماحقہ کوشش نہیں کرتے۔ خالص غیر ادب نواز ماحول میں شعری و تنقیدی نشستوں کا دم غنیمت ہے کہ کچھ کہنے اور سننے کا اہتمام تو ہو جاتا ہے۔ مگر فی زمانہ مشاعروں کا اہتمام بھی آسان نہیں۔ ہم قبضہ مافیا کے دور میں جی رہے ہیں۔ ایسے میں مشاعروں کے لیے جگہ کہاں سے لائیں! پھر بھی ادب نواز حلقے کسی نہ کسی طور جگاڑ کرتے ہیں اور چند شعراء جمع ہوکر ایک دوسرے کو اپنی موزونیٔ طبع کا دیدار کراتے ہیں۔
مشاعرے کے لیے جگہ کا انتظام مشکل سہی مگر مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ ع
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں
کچھ لوگ ہیں جو ادب سے دُوری کے اِس پژمردہ ماحول میں بھی ادب کی لازوال خدمت انجام دے رہے ہیں۔ ہم لکھنے والوں کی بات نہیں کر رہے۔ وہ ادب کی جیسی خدمت کر رہے ہیں، ہم اچھی طرح جانتے ہیں۔ اللہ کرے کہ انہیں بھی ذہن و قلم کی مدد سے کچھ کر دکھانے کی توفیق نصیب ہو۔ زیر نظر سطور میں ہم اُن بڑے دل والوں کا ذکر کر رہے ہیں جو مشاعروں کے انعقاد کے لیے اپنے گھر کے دروازے کھول دیتے ہیں۔
ایک زمانہ وہ بھی تھا کہ جب ادب اور بالخصوص شاعری سے دلچسپی رکھنے والے اصحاب کی خدمت کو اپنے لیے عزت افزائی کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ شعراء کو اپنے گھروں میں ٹھہرانے اور ان کی خدمت بجا لانے کو اپنے لیے سرمایۂ افتخار گردانا جاتا تھا۔ خاص طور پر بیرون شہر سے آئے ہوئے شعراء کے لیے وہ دیدہ و دل فرشِ راہ والی کیفیت پیدا کردی جاتی تھی۔ اردو ادب کی تاریخ میں ایسے بہت سے اصحاب کا ذکر ملتا ہے جو اہلِ قلم اور اہلِ سخن کی خدمت فرض سمجھ کر کیا کرتے تھے۔ کون نہیں جانتا کہ حاذق الملک حکیم اجمل خاں کا دیوان خانہ اہلِ سخن سے بھرا رہتا تھا اور وہ ان کی میزبانی کو اپنے لیے اعزاز سے کم نہ گردانتے تھے۔ حکیم اجمل خان ہی کی طرح بہت سے اہلِ ثروت شاعر نوازی کی مد میں اچھی خاصی رقم خرچ کر گزرتے تھے۔
جو لوگ ادب سے براہِ راست جڑے ہوئے ہیں وہ تو خیر سے اب کوئی ایسا کام کرتے نہیں کہ اُن کا نام ادب کے خدمت گزاروں میں شامل کیا جائے۔ ایسے میں غنیمت ہے کہ کچھ بڑے دل والے اپنے گھر کے دروازے شعراء پر کھول کر ادب کی خدمت کرتے دکھائی دیتے ہیں!
ہم نے ادب کی اور ادیب دونوں کی خدمت کرنے کے معاملے میں احمد سعید خان صاحب کو خاصے بڑے دل کا پایا ہے۔ اللہ نے انہیں دل کی طرح گھر بھی بڑا عطا کیا ہے اور ان کی کار بھی ماشاء اللہ خاصی بڑی یعنی تین چار بھاری بھرم شعراء کو اپنے اندر سمونے کی گنجائش والی ہے۔ وہ ہر ماہ شعری نشست کے لیے اپنے گھر کی بالائی منزل ہی دان نہیں کرتے بلکہ بزرگ و کہنہ شعراء کی حقیقی ناز برداری کا فریضہ بھی انجام دیتے ہیں یعنی اُنہیں اپنے گھر تک لانے اور پھر رات گئے اُن کے گھر تک واپس پہنچانے کی ذمہ داری بھی اپنے کاندھوں پر اٹھائے ہوئے ہیں۔ (واضح رہے کہ ہم یہاں گھر تک چھوڑ کر آنے والا محاورہ استعمال نہیں کر رہے!) فی زمانہ یہ خدمت اتنی بڑی ہے کہ حقیقی اولاد بھی ہاتھ جوڑ کر یا نظر چراکر ایک طرف ہٹ جاتی ہے!
ہم نے جب احمد سعید خان صاحب کی بے مثال ادبی خدمت کا ذکر مرزا تنقید بیگ کے سامنے کیا تو وہ چند ساعتوں کے لیے ہونٹوں پر چُپ کی مہر لگائے بیٹھے رہے۔ ہم انہیں حیرت سے تکتے رہے کہ آخر ہم نے ایسی کون سی بات کردی ہے جس کا ان پر اس قدر خطرناک اثر مرتب ہوا ہے۔ ابھی ہم اپنی بات پر شرمندہ ہونے کی تیاری کر ہی رہے تھے کہ مرزا نے چُپ کا لمحاتی روزہ توڑتے ہوئے کہا: ''بھئی آپ کے یہ احمد سعید خان صاحب بظاہر ادب نواز ہیں اور جو کچھ کر رہے ہیں وہ ادب نوازی ہی کے زمرے میں آتا ہے مگر اِن کی ذہانت کو داد دینا پڑے گی کہ ایک تیر میں دو نشانے لگا رہے ہیں۔ ایک طرف تو وہ ادب کی خدمت کرکے سُرخرو ہو رہے ہیں یعنی ہر ماہ شعری نشست کے لیے اپنے دولت کدے کی بالائی منزل وقف کرکے اہلِ سخن کی نظروں میں اپنا 'احترامی قامت‘ بلند کر رہے ہیں۔ اور دوسری طرف اہلِ خانہ کی عاقبت بھی سنوار رہے ہیں۔‘‘
ادب کی خدمت والی بات تو ہم سمجھ گئے۔ اہلِ خانہ کی عاقبت سنوارنا؟ یہ بات ہمارے ذہن کے حلق سے اتری نہیں۔ وضاحت چاہی تو مرزا نے کہا: ''دیکھو بھائی! بات کچھ یوں ہے کہ آج کے دور میں جس طرح کی شاعری کی جارہی ہے اسے جھیلنا اور سننا اور پھر داد بھی دینا ... یہ کچھ ادب نواز لوگوں کے جگرے کی بات ہے۔ ایک عام آدمی کو شاعری سے غرض ہے نہ شعراء سے۔ اس کی ترجیحات الگ ہیں۔ شعری نشستوں کے لیے آرٹس کونسل ٹائپ کے مقامات یا ہوٹل وغیرہ موزوں رہتے ہیں۔ یا پھر تعلیمی ادارے میں نشست رکھ لی جائے۔ تدریس نہ رہی، شاعری سہی۔ کچھ تو ہو جو رونق میلے کے ذیل میں آئے۔ جو شاعری سننے کا ذوق رکھتے ہوں نہ شوق اُنہیں ہر ماہ باقاعدگی سے تیس چالیس شعراء کا کلام سنوانا دراصل گناہوں کی سزا دینے کے مترادف ہے! اب تم ہی بتاؤ، جب اِسی دنیا میں گناہوں کی سزا بھگتنا پڑے تو عاقبت خود بخود سنور جائے گی یا نہیں!‘‘
مرزا کی نکتہ آفرینی نے ہمیں تصورات کے گڑھے میں دھکیل دیا۔ اس طرف تو ہمارا ذہن گیا ہی نہیں تھا کہ احمد سعید خان اور اِسی قبیل کے دیگر اصحاب شعراء کے لیے اپنے گھر کے دروازے کھول کر دراصل اپنی اور اہل خانہ کی عاقبت بھی سنوار رہے ہیں! فی زمانہ جس نوعیت کی مشقِ سخن کی جارہی ہے وہ ادب کا ذوق و شوق نہ رکھنے والوں کے لیے تو مشقِ ستم ہی گردانی جانی چاہیے۔ جو شاعری اب خود باذوق اصحاب سے ہضم نہیں ہو پاتی وہ اگر عام آدمی کو سنوائی جائے تو وہ قیامت کے دن شعریؔ بھوپالی مرحوم کے انداز سے کیوں نہ کہے؟ ؎
تصدق تیری رحمت کے، جزا دے ہم کو محشر میں
سزا کا جو زمانہ تھا وہ دنیا میں گزار آئے!
مرزا مزید کہتے ہیں : ''کراچی میں بہت سے اصحاب ہیں جو شعراء کو شعری نشست کے لیے جگہ فراہم کرتے ہیں۔ چند ماہ سے 'سہولت کار‘ کی اصطلاح کا غلغلہ ہے۔ حکومت کہتی ہے کہ جو لوگ دہشت گردی میں براہ راست ملوث نہیں مگر دہشت گردوں کو سہولتیں فراہم کرتے ہیں وہ بھی جرم میں برابر کے شریک سمجھے جائیں گے۔ فی زمانہ مشقِ سخن کا جو معیار ہے اسے دیکھتے ہوئے ہمیں ڈر ہے کہ شعری نشست کے لیے جگہ فراہم کرنے والے اصحاب بھی کسی دن 'سہولت کار‘ قرار دے کر دھر نہ لیے جائیں!‘‘
مرزا کی یہ نکتہ آفرینی ہمیں پسند نہیں آئی۔ ہم خود بھی شعر کہتے ہیں اور ہر ماہ احمد سعید خان صاحب کے دولت کدے پر حاضر ہوتے ہیں۔ دوسروں کا تو ہمیں معلوم نہیں، ہماری شاعری ہرگز ایسی نہیں کہ ہمارے احمد سعید خان صاحب ''سہولت کار‘‘ قرار دے کر قانون کی نظر میں قابلِ تادیب ٹھہریں! ہم نے جب یہ بات مرزا سے کہی تو انہوں نے چند ایسے جملوں سے ہماری تواضع فرمائی جن پر ہم داد دے پائے نہ یہاں اُن جملوں کے ذکر کا حوصلہ ہے! ہاں، اِن جملوں کو اگر ہم کبھی نظم کر پائیں تو ہجو گوئی کا سہرا ہمارے سَر بندھے اور شاید سَوداؔ جیسے عظیم المرتبت ہجو گو شعراء کے ساتھ ہمارا نام بھی لیا جائے!