حالات کی روش کا تقاضا خواہ کچھ ہو، ہم کرتے وہی ہیں جو ہمیں پسند ہو۔ یہ بظاہر زیادہ حیرت انگیز بات نہیں۔ دنیا کا ہر انسان اپنی پسند و ناپسند کے مطابق زندگی بسر کرتا ہے مگر جب ضرورت محسوس ہو تو اپنی پسند اور ناپسند دونوں ہی کو بالائے طاق بھی رکھنا پڑتا ہے۔ اور یہی اصول اجتماعی زندگی یعنی قومی سطح پر بھی اطلاق پذیر رہتا ہے۔ ہر قوم اپنی ترجیحات سے مطابقت رکھنے والی طرزِ فکر و عمل ہی اختیار کرتی ہے مگر جب حالات کا تقاضا ہو تو اپنی روش کو کسی حد تک ترک بھی کردیا جاتا ہے تاکہ معاملات کو درست کرنے یا درست رکھنے کی گنجائش پیدا ہو۔
پاکستان کی 68 سالہ تاریخ گواہ ہے کہ ریاستی امور کے سیاہ و سفید کا اختیار جن کے ہاتھوں میں تھاوہ ہر عقلی تقاضا نظر انداز کرتے ہوئے وہی کچھ کرتے آئے ہیں جو اُن کے ذاتی مفادات سے مطابقت رکھتا ہو۔ ملک اور قوم کا مفاد اُن کے نزدیک کبھی زیادہ قابلِ توجہ یا قابلِ احترام تھا، نہ ہے۔
اب اِسی بات کو لیجیے کہ پہلے وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان شہید نے روس کے بجائے امریکہ جانے کو اولیت دی تو یہاں سب نے طے کرلیا کہ آسماں پہ ہے خدا اور زمیں پہ امریکہ! جن کے ذہنوں میں انگریزوں کی غلامی کا خُمار ابھی تازہ تھا اُنہوں نے محسوس کرلیا کہ اپنے طور پر جینا تو بہت مشکل ہے۔جو کچھ پاکستان میں اور پاکستان کے ساتھ 68 برس سے ہوتا آیا ہے اس کا جائزہ لیجیے تو اِس امر میں کوئی شک نہیں رہتا کہ امریکہ نے زیر اثر لینے کے بعد اِس مملکتِ خداداد کو ڈھنگ سے جینے کا کوئی موقع نہیں دیا اور جینا حرام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ اقتدار کے ایوانوں میں اُنہیں لایا جاتا رہا ہے جو ملک کی زمین سے محبت کرتے ہیں نہ اِس پر بسنے والوں کی بہبود کا اُنہیں کچھ احساس ہے۔ ذاتی مفادات کی زنجیروں میں جکڑا ہوا حکمراں طبقہ قدم قدم پر صرف اپنے مفادات کو تقویت بہم پہنچانے کے لیے سرگرم رہا ہے۔ ملک اور قوم کے حقیقی مفاد کی اِس طبقے کو پہلے پروا تھی نہ اب ہے۔
پاکستان نے منصۂ شہود پر جو مدت گزاری ہے اُس کے دوران کئی موڑ ایسے آئے جب پالیسی کے حوالے سے انتہائی بنیادی نوعیت کے فیصلے کرنے تھے مگر نہیں کیے گئے۔ سرد جنگ کے خاتمے پر پاکستان کو بھی اپنی ترجیحات کا نئے سِرے سے تعین کرنا چاہیے تھا۔ امریکہ کی ایماء پر سابق سوویت یونین کے خلاف جانا ہمارے لیے کبھی سودمند نہیں تھا۔ ایک قوم کی حیثیت سے ہم خواہ مخواہ ذلیل ہوئے۔ امریکہ کے حکم پر سابق سوویت یونین کو کمزور کرنے کی پالیسی حکمرانوں کے ذاتی مفادات کے لیے یقینی طور پر موزوں تھی مگر ملک اور قوم کی حیثیت سے تو اِس پالیسی نے ہمیں محض نفرت اور دِھتکار ہی دی۔
1979 میں افغانستان پر سوویت یونین کی لشکر کشی پاکستان کے حکمراں طبقے کے لیے بِلّی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا جیسا معاملہ تھا۔ امریکہ اور یورپ کی طرف سے پاکستان کے حکمراں طبقے کو مجاہدین کی مدد سے سوویت افواج کو گرم پانیوں کی طرف بڑھنے سے روکنے کا ٹھیکا ملا تو اِس طبقے کے لیے معاملہ پانچوں انگلیاں گھی میں اور سَر کڑاہی میں جیسا ہوگیا۔
سوویت یونین کی شکست و ریخت واقع ہوئی تو دنیا بھر میں تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ ہر خطے نے اپنے لیے نئی ترجیحات اور مقاصد کا تعین کیا۔ ہمارے ہاں اِس پورے معاملے کو یُوں لیا گیا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ جنہیں قومی خزانے کو محروم رکھ کر اپنی ذاتی تجوریاں بھرنا تھیں وہ ایسا ہی کرتے رہے۔ قوم کو نئی سمت درکار تھی جو نہ دی گئی۔ پالیسیوں میں توازن پیدا کرنا لازم تھا مگر ایسا کرنے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔ سرد جنگ کے بعد کی دنیا میں امریکہ اپنے ''دوستوں‘‘ کی طرف متوجہ ہوا۔ سوویت یونین کی شکل میں دشمن تو ختم ہوچکا تھا۔ ایسے میں اچھے بُرے کاموں میں ساتھ نبھانے والے ہر ''محرمِ رازِ درونِ مے خانہ‘‘ کو خاموش کرنے پر توجہ دینا لازم تھا۔ اور توجہ دی گئی۔ پاکستان کا حکمراں طبقہ سمجھ رہا تھا کہ سرد جنگ میں ساتھ نبھانے پر اُسے کچھ نہ کچھ تو ملے گا اور بھارت کے مقابلے میں پاکستان کی علاقائی حیثیت کو مستحکم ہونے دیا جائے گا مگر امریکہ کی ترجیحات کچھ اور تھیں۔ ہمارے حکمراں یہ بھول گئے تھے کہ غلام کو غلام ہی سمجھا جاتا ہے، دوست یا رفیق نہیں۔ جو کچھ امریکہ ہمیں دیتا تھا وہی ہمیں لینا پڑتا تھا۔ ہماری پسند و ناپسند کی کچھ حیثیت نہ تھی۔
ہم امریکہ سے نفرت بھی کرتے ہیں اور اُس کے آغوش میں سمانے کے لیے بے تاب بھی رہتے ہیں۔ جو لوگ امریکہ کے خلاف نعرے لگاتے نہیں تھکتے وہ امریکی ویزا کے حصول کے لیے انتہائی بے قرار بھی دکھائی دیتے ہیں! یہ دُہرا معیار عوام کا ہے، حکمرانوں کا نہیں۔ ہمارے حکمراں امریکہ کو مائی باپ گردانتے آئے ہیں اور کبھی یہ روش ترک نہیں کی! کبھی کبھی تو یہ بھی ہوا کہ امریکیوں نے ہمیں کسی معاملے میں تھوڑا سا نواز کر رام کرلیا اور اہلِ جہاں کہتے ہی رہ گئے ع
تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کرگیا!
اب مشکل یہ آن پڑی ہے کہ یورپ تو بہت حد تک قتل و غارت سے دور ہوچکا ہے۔ وہ ''نرم‘‘ قوت یعنی ٹیکنالوجی، کاروبار اور سفارت کے ذریعے اکیسویں صدی میں اپنا الگ مقام بنانا چاہتا ہے مگر امریکہ اب تک چالیس پچاس سال پہلے کے دور میں جی رہا ہے اور، ظاہر ہے، اُس کے حاشیہ برداروں کو بھی اُسی دور میں جینا پڑ رہا ہے۔ پاکستان جیسے کئی ممالک عجیب مخمصے کی حالت میں ہیں۔ کہنہ مشق شاعر لیاقت علی عاصمؔ نے کہا ہے ؎
چاہتے ہیں رہیں بیدار غمِ یار کے ساتھ
اور پہلو میں غمِ یار کے سو جاتے ہیں!
ہمارا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ امریکہ سے یاری اب اپنے ہی وجود پر بھاری پڑ رہی ہے۔ جب کبھی ہمارا احساسِ زیاں اتنا بڑھ جاتا ہے کہ خود امریکی پالیسی میکرز کو بھی محسوس ہونے لگتا ہے تو چند طیارے اور ہتھیار وغیرہ ہمارے کشکول میں ڈال دیئے جاتے ہیں تاکہ ہم کسی اور سمت دیکھنے سے مجتنب رہیں! مجموعی کیفیت یہ ہے کہ ہم کمبل کو چھوڑنا چاہتے ہیں مگر کمبل ہمیں چھوڑنے کو تیار نہیں۔
یہ کہنا اب سُوئے فہم ہے کہ دنیا بدل رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا بدل چکی ہے! دو کشتیوں میں سوار دوسرے بہت سے ممالک کی طرح اب ہمارے پاس بھی زیادہ وقت نہیں۔ یہ فیصلہ بہت جلد کرنا ہے کہ ہمارے لیے غمِ یار کے پہلو میں خوابِ خرگوش کے مزے لینا زیادہ مفید ہے یا غمِ یار کو لات مار کر ایک طرف ہٹانا بہتر ہے! اب تک امریکہ نے ہم سے جو سلوک روا رکھا ہے اُسے بیان کرنے کے لیے ہمیں ایک بار پھر لیاقت علی عاصمؔ کو زحمت دینا پڑے گی ؎
حوصلے دیدۂ بیدار کے سو جاتے ہیں
نیند کب آتی ہے، تھک ہار کے سوجاتے ہیں!