ایک بار پھر ہمارا دل سہم کر رہ گیا ہے۔ جب ایک ہی انتباہ کئی ذرائع سے ہم تک پہنچے گا تو دل و دماغ کا لرز کر رہ جانا فطری امر ہے۔ ہماری جگہ آپ ہوتے تو آپ بھی چند لمحات کے لیے ضرور کانپتے۔ قصہ یہ ہے کہ ہم دو برس سے نہیں بلکہ پون صدی سے نائٹ شفٹ کر رہے ہیں۔ اخبار کی تیاری کا عمل شام پانچ بجے کے بعد شروع ہوتا ہے۔ اضلاع، شہر، تجارت اور کھیلوں کی خبروں سے متعلق صفحات تو رات گیارہ بارہ بجے تک ''فنشڈ پروڈکٹ‘‘ میں تبدیل ہوچکے ہوتے ہیں مگر نئی اور اپ ڈیٹیڈ خبروں کے آتے رہنے سے فرنٹ اور بیک پیج رات دو بجے سے پہلے مکمل نہیں پاتے۔ نیوز چینلز کے آنے سے مین نیوز ڈیسک والوں کی کم بختی آگئی ہے۔
ہم کیریئر کی ابتداء ہی سے مین نیوز ڈیسک سے وابستہ رہے ہیں اِس لیے بس یہ سمجھ لیجیے کہ عملی صحافت کے میدان میں قدم رکھتے ہی نائٹ شفٹ کو اپنے مقدر میں تبدیل کرلیا تھا۔ بس، یہی ہمارا جرم ٹھہرا۔ تب سے اب تک، بلا مبالغہ، سو بار یہ انتباہ پڑھ چکے ہیں کہ نائٹ شفٹ انسان کو مختلف عوارض میں مبتلا کردیتی ہے۔ کبھی ماہرین کہتے ہیں کہ نائٹ شفٹ کرنے والے بہتر گھریلو زندگی بسر نہیں کر پاتے اور اُن سے احباب و رشتہ دار بھی نالاں رہتے ہیں۔ (وہ تو ویسے بھی کون سے خوش رہنے والے ہیں؟ کچھ بھی کر گزریے، ان کی شکایات کا کوئی ''انت‘‘ تو آنا ہی نہیں ہے!) کبھی کہا جاتا ہے کہ نائٹ شفٹ کرتے رہنے سے جسم تیزی سے گل اور ڈھل جاتا ہے، موٹاپا طاری ہوجاتا ہے۔ (ہمیں کب بیل پچھاڑنے ہیں جو طاقت کے بارے میں سوچ کر ہلکان ہوتے رہیں یا کون سا فلموں میں کام کرنا ہے جو ''فِگر‘‘ کی فکر ہو!) کبھی یہ ''نوید‘‘ سنائی جاتی ہے کہ نائٹ شفٹ عمر گھٹادیتی ہے۔ (کسی مقصد کے بغیر سو برس جینے والے دنیا کا کون سا بھلا کردیتے ہیں؟ سو برس جی کر کیا کرنا ہے اگر زندگی میں چند لمحات بھی کام کے نہ ہوں!) نائٹ شفٹ میں کام کرنے والوں کے دماغ کو پہنچنے والے نقصان کا بھی اتنا رونا رویا جاتا ہے کہ کبھی کبھی اِس شفٹ میں پھنسے ہوئے لوگ خود کو دماغی مریض سمجھنے لگتے ہیں! بعض ماہرین تو تحقیق کے ذریعے انتباہ کرتے وقت ایسا لب و لہجہ اختیار کرتے ہیں جیسے نائٹ شفٹ کرنے والے معاشرے، بلکہ انسانیت کے مجرم ہوں!
ابھی کل کی بات ہے۔ ہم نے نائٹ شفٹ کرنے والوں کو ڈرانے یعنی متنبہ کرنے والی ایک خبر پڑھی۔ ماہرین نے مزید تحقیق کی روشنی میں بتایا ہے کہ شفٹوں میں کام کرنے والوں کے ذہن تیزی سے بوڑھے ہوتے ہیں، بالخصوص نائٹ شفٹ کرنے والوں کے ذہن۔ اور یہ کہ نائٹ شفٹ کرنے والوں کی سماجی زندگی بھی بُری طرح متاثر ہوتی ہے۔ ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ ماہرین نے نائٹ شفٹ میں کام کرنے والوں کو احتیاط برتنے کا مشورہ دیا ہے یا اُن کی ذہنی صحت کو مشکوک بنانے کی کسی سازش پر عمل پیر ہیں! ماہرین کو کیا معلوم کہ ایسی کوئی بھی خبر پڑھ کر مرزا تنقید بیگ کس طرح ہاتھ دھوکر ہمارے پیچھے پڑ جاتے ہیں! بس، خبر پڑھنے کی دیر تھی۔ مرزا نے ہمیں اپنے ''دربار‘‘ میں طلب کرلیا۔ ایسے مواقع پر مرزا بالکل اُسی طرح کی تیاری کرتے ہیں جیسی قصائی بکرے کو ذبح کرنے کے لیے کیا کرتے ہیں!
ہم دل ہی دل میں یُوں لرزتے کانپتے مرزا کے گھر پہنچے جیسے کوئی صاحب بلا جواز چار پانچ گھنٹے باہر رہنے کے بعد بیوی کے ممکنہ غصے سے کانپتے ہوئے گھر میں داخل ہو! مرزا دانت تیز کیے بیٹھے تھے۔ ہمیں دیکھتے ہی اُن کی باچھیں کِھل گئیں۔ بیٹھنے کا اشارا کیا۔ اور جیسے ہی ہم بیٹھے، مرزا شروع ہوگئے: ''یہ خبر تو تم نے پڑھ لی ہوگی، نائٹ شفٹ میں کام کرنے والوں کی ذہنی صحت کے بارے میں۔‘‘
ہم نے پڑھ لیا تھا کہ جو لوگ ایک عشرے تک شفٹوں میں اور بالخصوص نائٹ شفٹ میں کام کرتے ہیں‘ اُن کا ذہن (جسم کے مقابلے میں) 6 سال زیادہ یعنی تیزی سے بوڑھا ہوجاتا ہے! خدا جانے یہ اندازہ کس طور لگا لیا جاتا ہے کہ پورا جسم تو حساب سے چلتا رہتا ہے اور دماغ زیادہ تیزی سے بڑھاپے کی طرف چل دیتا ہے؟ انوکھے طریقوں سے تحقیق کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ نائٹ شفٹ کرنے سے دماغ کام سے جاتا رہتا ہے۔ یعنی پوری کوشش کی جارہی ہے کہ دنیا بھر میں کوئی بھی نائٹ شفٹ نہ کرے، خواہ روزگار سے محروم ہوکر، کسی روٹھی ہوئی شادی شدہ لڑکی کی طرح، گھر بیٹھا رہے!
مرزا نے سلسلۂ کلام آگے بڑھایا: ''ماہرین کو اب پتا چلا ہے کہ شفٹوں میں کام کرنے سے اور بالخصوص مستقل نائٹ شفٹ بھگتنے کی صورت میں ذہن تیزی سے بوڑھا ہوجاتا ہے۔ تمہیں دیکھتے رہنے سے ہم بہت پہلے جان گئے تھے کہ نائٹ شفٹ میں کام کرنے سے اچھا خاصا انسان صحافی بن جاتا ہے! اور تمہیں دیکھ کر ہم یہ بات بھی جان چکے ہیں کہ نائٹ شفٹ میں کام کرنے سے انسان جان سے جائے کہ نہ جائے، دماغ سے ضرور جاتا ہے!‘‘
ہماری صحافتی زندگی کا بینڈ بجانے کا مرزا کو صرف بہانہ چاہیے۔ اور یہ بہانہ ماہرین وقتاً فوقتاً انہیں فراہم کرتے رہتے ہیں۔ نائٹ شفٹ کرنے والوں کی سماجی زندگی کے شدید متاثر ہونے کی بات کو بھی مرزا نے طنز کی آمیزش سے دو آتشہ بنادیا۔ کہنے لگے : ''صحافیوں کی سماجی زندگی کے متاثر یا تلف ہونے کا رونا رونے والے یہ بات بھول جاتے ہیں کہ اللہ نے عام لوگوں کو دن رات خیالی دنیا میں بسنے اور خبروں کی پیالی میں طوفان اٹھانے والوں سے محفوظ رکھنے کا اہتمام کیا ہے! ہمارے خیال میں یہ کہنا سراسر بے محل ہے کہ خبروں کی دنیا میں بسے رہنے سے دماغ میں خلل واقع ہوجاتا ہے۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ یعنی واقعہ یہ ہے کہ جن کے ذہن میں خلل واقع ہوتا ہے وہ خبروں کی دنیا کا رخ کرتے ہیں۔‘‘ مرزا شاہی فرمان جاری کرنے کے سے لہجے میں بولے چلے جارہے تھے اور ہم سُنتے چلے جانے پر مجبور تھے۔ ؎
بات پر واں زبان کٹتی ہے
وہ ''بَکیں‘‘ اور سُنا کرے کوئی!
اللہ بھلا کرے ان اہلِ نظر کا جو یہ کہتے ہیں کہ نارمل رہتے ہوئے کوئی بھی بڑا، تخلیقی نوعیت کا کام نہیں کیا جاسکتا۔ یعنی اگر کچھ کر دکھانا ہے، اپنا آپ منوانا ہے تو تھوڑا بہت ابنارمل ہونا ہی پڑے گا۔ کبھی کبھی ہم سوچتے ہیں کہ صحافیوں کو جو کچھ سننا اور لکھنا پڑتا ہے وہ کسی صحیح الدماغ انسان کے بس کی بات ہرگز نہیں۔ یعنی ہر اعتبار سے نارمل انسان خبر کی دنیا کا حصہ نہیں بن سکتا۔ اِس میدان میں انٹری دینے کے لیے لازم ہے کہ انسان تھوڑا سا ''ہٹ کے‘‘ واقع ہوا ہو، کچھ وکھری ٹائپ کا ہو۔ خبروں کی دنیا میں وہی چل سکتا ہے جو عام ڈگر سے تھوڑا ہٹ کر سوچتا ہو۔ کون سی شفٹ سے کس کے دل و دماغ پر کون سے اثرات مرتب ہوتے ہیں یہ سب کچھ ہم بھی جانتے ہیں اور آپ بھی لاعلم نہیں۔ اور سچ تو یہ ہے کہ اب بہت دیر ہوچکی ہے۔ ہم اور میڈیا میں ہمارے بہت سے ساتھی 1992ء یا اُس سے بھی پہلے سے نائٹ شفٹ جھیلتے آئے ہیں اور ان پچیس چھبیس برسوں میں ہم نے تو کبھی یہ محسوس نہیں کہ دماغ نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے!
ماہرین نائٹ شفٹ کے اثرات کے بارے میں خواہ کچھ کہتے رہیں اور سماجی زندگی ختم ہوجانے کے حوالے سے بے پَر کی اڑاتے رہیں، حقیقت یہ ہے کہ ہم اب تک بقیدِ ہوش و حواس ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ نائٹ شفٹ کے اثرات پر بحث کرکے مرزا ہماری کالم نگاری کو مشکوک بنانے کے درپے ہیں! ہم پورے ہوش و حواس اور احساسِ ذمہ داری کے ساتھ آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ ہماری کالم نگاری صحیح الدماغی کا نتیجہ ہے۔ آپ اِس حوالے سے مرزا یا کسی اور کی کسی بھی رائے کو درخورِ اعتناء نہ گردانتے ہوئے ہماری ذہنی اور قلمی مشقّت سے محظوظ ہوتے رہیے۔ اِتنی مہربانی کیجیے گا تو ہم یہ سمجھ کر خوش ہولیں گے کہ نارمل یعنی صحیح الدماغ رہنے میں آپ ہماری معاونت فرما رہے ہیں!