دو دن پہلے کی بات ہے۔ بیگم نے زوال کے وقت جگادیا۔ ویسے کسی کو بھی اس کی بیوی جب جگائے تب زوال ہی کا وقت ہوتا ہے! معلوم ہوا کہ مرزا تنقید بیگ بہت دیر سے فون کر رہے ہیں اور ہم ہیں کہ ٹس سے مس ہی نہیں ہو پارہے تھے۔ ہم نے بیگم کا شکریہ ادا کرکے (کچھ ہم ہی جانتے ہیں کہ کس دل سے اور کیسے جگرے کے ساتھ!) مرزا کا فون اٹینڈ کیا۔ موصوف چہکتے ہوئے بولے : ''بہت دنوں سے آئے نہیں۔ بالکل محبوباؤں جیسا مزاج ہوگیا ہے تمہارا، بے بات بھی روٹھ جاتے ہو!‘‘ ہم نے مرزا سے کہا کہ ناشتہ کرکے آتے ہیں، آپ تب تک اخبار پڑھیے۔ وہ مزید چہکتے ہوئے بولے : ''اخبار پڑھ کر ہی تو بیٹھے ہیں۔ اخبار کی ہر خبر لے لی، بس اب تمہاری خبر لینے کو جی چاہ رہا ہے!‘‘ اخبار کے ذکر پر ہم چونک پڑے۔ مرزا جب بھی اخبار میں کوئی ایسی ویسی خبر پڑھ کر ہماری کلاس لینے کا ارادہ کرتے ہیں تو فوراً سے پیشتر فون کرکے طلب کرتے ہیں۔ اُنہوں اخبار پڑھ لینے کی بات کی تو ہم سمجھ گئے کہ اُن کے ہاتھ کوئی ایسی خبر لگ گئی ہے جسے بنیاد بناکر وہ ہمارے سکون کی عمارت ڈھانے پر تُلے ہوئے ہیں! ناشتہ کرتے ہوئے ہم نے اخبار پر نظر دوڑائی تو ایک ''دشمنِ جاں‘‘ قسم کی خبر نے ہمیں اپنی طرف متوجہ کرلیا۔ یہ خبر بھی ستم ڈھانے والوں کی محنت کا ثمر تھی یعنی محققین نے تحقیق (یا تحقیقات) کی روشنی میں انکشاف کیا تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مردوں کی ذہانت تیزی سے ختم ہوتی جاتی ہے جبکہ خواتین کی ذہانت تادیر سلامت رہتی ہے۔
ناشتے کے بعد ہم (کسی اہتمام کے بغیر ہی) مرزا کے گھر پہنچے۔ ہم نے غالبؔ کے کہے پر عمل نہیں کیا۔ غالبؔ نے کہا تھا ؎
آج واں تیغ و تَبر باندھے ہوئے جاتا ہوں میں
عُذر میرے قتل کرنے میں وہ اب لائیں گے کیا؟
ہمیں ایسا کرنے کی ضرورت ہی کب تھی؟ مرزا خیر سے تیغ و تَبر تیار کرکے پوری شدت سے ہمارے منتظر تھے! ہمیں اپنے مقابل پایا تو خوشی کے مارے کِھل کِھل اٹھے اور بلبل کی طرح چہکتے ہوئے بولے : ''تم تو ہمارے گھر کا رستہ ہی بھول گئے۔ لگتا ہے یادداشت کچھ زیادہ ہی تیزی سے ختم ہوتی جارہی ہے۔‘‘
ہم نے (کسی نہ کسی طور ہمت کرکے) ترکی بہ ترکی جواب دیا کہ آپ کی یادداشت بھی از کار رفتہ ہوتی جارہی ہے یعنی آپ بھول بھال گئے ہیں کہ مہمان گھر میں قدم رکھے تو چائے پانی کا پوچھتے ہیں نہ کہ شِکوے کا دریا بہایا جاتا ہے!
یہ بات سُن کر مرزا کے ہونٹوں پر خاصی گہری طنزیہ ہنسی نمودار ہوئی۔ یہ ویسی ہی ہنسی تھی جیسی بکرے کو پچھاڑنے کے بعد قصائی کے ہونٹوں پر نمودار ہوا کرتی ہے! ہماری بات پر سَر ہلاتے اور سہلاتے ہوئے مرزا نے خاصے ''معصومانہ‘‘ انداز سے کہا : ''ہم تمہیں مہمان سمجھتے کب ہیں؟ تم تو ہمارے لیے گھر کے فرد ہو۔‘‘
ہم سمجھ گئے کہ مرزا کچھ زیادہ ہی تیاری کرکے بیٹھے ہیں۔ گھر کا فرد قرار دے کر وہ ہمارے ساتھ ہمیشہ گھر کی لونڈی جیسا سلوک روا رکھتے آئے ہیں! جب بھی اُنہوں نے ہمیں ''اپنا‘‘ گردانتے ہوئے ''محبت‘‘ کا اظہار کیا ہے، ہماری جان پر بن آئی ہے اور ہم نے یہ کہتے ہوئے جان چھڑائی ہے کہ ؎
عزیز اِتنا ہی رکّھو کہ جی سنبھل جائے
اب اِس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے!
اور اگر آج کی ''دبنگ‘‘ زبان میں سوناکشی سنہا کی زبانی کہیے تو ''تھپڑ سے ڈر نہیں لگتا صاحب، پیار سے لگتا ہے!‘‘
مرزا کے ہاں جب بھی ہماری بھرپور ''عزت افزائی‘‘ ہوئی ہے، کئی دن تک یہ کیفیت رہی ہے کہ ؎
جانے کیا بیت گئی ہے دل پر
پیار کے نام سے ڈر لگتا ہے!
ایمان کی تو یہ ہے کہ مرزا جب پوری تیاری کے ساتھ ''خیر مقدم‘‘ کرتے ہیں تب جی نہیں چاہتا کہ اُنہیں مایوس لَوٹایا جائے۔ ہماری کیفیت وہی ہوتی ہے جو زیرِ نظر شعر میں بیان کی گئی ہے ؎
کھینچ کر تیغ یار آیا ہے
اِس گھڑی سَر جُھکادیئے ہی بنے!
ہم نے مرزا کو یاد دلایا کہ وہ بھی مرد ہیں اور امریکا کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ایجنگ کی تحقیق کا ہدف وہ بھی ہیں۔ اِس یاد دہانی پر مرزا نے سَر ہلاتے ہوئے کہا : ''ٹھیک ہے مگر ذہانت ہمارے کس کام کی تھی، یا ہے؟ ذہانت کے ناکام ہوجانے کی پہلی علامت تھی تمہاری بھابی سے ہماری شادی! اور شادی کے بعد ہم نے اپنی ذہانت کو یُوں سنبھال سنبھال کر رکھا ہے جیسے عورتیں اپنے جہیز کے فینسی برتن سنبھال کر رکھتی ہیں۔ یعنی ذہانت کے استعمال تک نوبت کم ہی پہنچی ہے!‘‘ مرزا کی اس صاف گوئی پر آپ حیران نہ ہوں۔ صاف گوئی اپنی جگہ اور ہماری کلاس لینے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہ جانے دینا اپنی جگہ۔ دیکھیے، کس خوبصورتی سے اُنہوں نے اپنی ذہانت میں تیزی سے واقع ہونے والی کمی کا تذکرہ ہی گول کردیا!
خاکسار نے عرض کیا کہ خواتین کا تادیر ذہین رہنا اور حافظے کا بھی سلامت رہ جانا حیرت انگیز امر نہیں۔ ذہانت وہ کم کم استعمال کرتی ہیں اور یاد رکھنے کو اُن کے پاس چند ہی باتیں ہوتی ہیں۔ ایسے میں ذہانت یا حافظے پر کون سا بوجھ پڑنا ہے کہ وہ فرسودہ ہوں؟ بلکہ اگر وہ دنیا سے جاتے وقت یہ دونوں صفات ''ڈبّا پیک‘‘ حالت میں بھی لے جائیں تو کسی کو چنداں حیرت نہیں ہونی چاہیے!
مرزا نے گھر کے اندرونی حصے میں جھانکتے ہوئے ڈرتے ڈرتے ہماری تائید کی مگر طنز کا تیر برسانا نہ بُھولے۔ ''ارشاد‘‘ ہوا : ''وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یعنی ڈھلتی ہوئی عمر میں ذہانت کمزور پڑتی جاتی ہے، ذہن دم توڑتا جاتا ہے۔ مگر ایسے میں کچھ لوگ زیادہ مزے کرتے ہیں۔ مثلاً تم۔‘‘ ہم؟ یہ بات سن کر ہم مزید حیران ہوئے۔ وضاحت چاہی تو مرزا نے اپنے جَدّی پُشتی انداز سے یُوں طنز فرمایا : ''دم توڑتی ہوئی ذہانت ماہرین کے نزدیک کسی کام کی نہ ہو مگر ہم نے دیکھ لیا کہ یہ کیفیت تمہارے لیے بہت کام کی نکلی ہے۔ ماہرین کی تحقیق نے ہمارا استعجاب ختم کردیا۔ اب ہم سمجھ گئے کہ تمہاری کالم نگاری دم توڑتی ہوئی ذہانت کا براہِ راست نتیجہ ہے! جب 'آتش جوان تھا‘ تب تو تم سے کچھ نہ ہوسکا۔ اب عمر کی شام ڈھلنے لگی ہے تو جام پر جام کے مانند کالم پر کالم لڑھکائے جارہے ہو۔ پس ثابت ہوا کہ جب ذہن کام کرنے سے انکار کردیتا ہے تب کالم نگاری کا فن منطقی 'بلندی‘ کو چُھوتا ہے!‘‘ مرزا کی بات ختم ہونے تک ہمارے چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ معاملہ خواتین کی ذہانت کا تھا۔ اگر کہیں بھابھی صاحبہ بھی میدان میں آجاتیں تو ہم بے موت مارے جاتے اور پھر گھر میں بھی تو منہ دکھانا تھا! بہتر یہی تھا کہ مرزا کی جلی کٹی باتون کو غنیمت جانتے ہوئے چُپکے سے کِھسک لیں۔ اور ہم نے یہی کیا۔