ہر معاملے میں جدت کی منزل تک پہنچنے کی لگن نے دنیا کو پاگل کر دیا ہے۔ بہت سی اقوام کے درمیان دوڑ سی لگی ہے کہ دیکھیں زیادہ سے زیادہ جدت کے معاملے میں کون کب کس سے آگے نکلتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہر وقت تحقیق و جستجو کا بازار گرم رہتا ہے۔ کئی اقوام اس سمندر میں ایسی غرق ہیں کہ ابھرنے کا نام ہی نہیں لے رہیں۔ مغربی دنیا کو تو جیسے تحقیق و جستجو کا ہوکا سا لگا ہوا ہے۔ بڑے اور درمیانے حجم کے بیشتر کاروباری اداروں میں اب ''تحقیق و ترقی‘‘ کا باضابطہ شعبہ بھی پایا جاتا ہے۔ اس شعبے سے وابستہ افراد کا صرف ایک کام ہے... یہ کہ ہر وقت پریشان رہیں اور دوسروں کو بھی پریشان کرتے رہیں۔ تحقیق کا ایک مسئلہ یہی ہے کہ جب ایک چیز سامنے آتی ہے تو اس کی ٹکر کی کوئی نہ کوئی چیز بازار میں ضرور لائی جاتی ہے اور پھر اُس دوسرے آئٹم کے چکر میں بھی کچھ نہ کچھ آتا ہے۔ یہ گویا ''چین ری ایکشن‘‘ کا معاملہ ہے۔ ہم تو اب تک سمجھ نہیں پائے کہ جب انسان ہر وقت سوچنے، تحقیق کرنے اور اس کے نتیجے میں کچھ نہ کچھ تیار کرنے ہی میں مصروف رہے گا تو مزے کی زندگی کیسے بسر کرے گا؟
ترقی یافتہ دنیا نے تحقیق اور ترقی سے کیا پایا ہے، ہم تو آج تک سمجھ نہیں پائے۔ ترقی یافتہ دنیا کے لوگ آج بھی پتا نہیں کس زمانے میں زندگی بسر کر رہے ہیں کہ ان کی زندگی میں ہمیں کوئی بھی لطف دکھائی نہیں دیتا۔ اب یہی دیکھیے کہ ترقی یافتہ معاشروں میں ہر طرح کی سہولتیں میسر ہونے پر بھی ہر شخص کو کام کرنا پڑتا ہے۔ گھر کے تمام افراد معاشی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں تو زندگی کی گاڑی چلتی ہے۔ معاشرتی نظام کچھ ایسا ‘‘بے ڈھنگا‘‘ ہے کہ اگر کوئی کام نہ کرے تو سب اُسے عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ مغربی اور دیگر ترقی یافتہ معاشروں میں اگر کوئی کام نہ کرے تو اپنے آپ کو بھی عجیب نظروں سے دیکھتا ہے! یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ معاشرے میں ہر طرف ترقی ہی ترقی دکھائی دیتی ہو اور انسان اُس سے بھرپور لطف بھی نہ پا سکے! اگر اِسی کا نام ترقی ہے تو ہم ترقی کے بغیر ہی بھلے!
ترقی یافتہ معاشروں کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ ترقی کا واحد فائدہ یہ ہے کہ زندگی سکون سے گزرے۔ اگر کسی کو ہر وقت کچھ نہ کچھ کرنا ہی پڑے اور دوسروں کی دیکھا دیکھی تحقیق و جستجو کے بازار میں دکان کھولنا ہی پڑے تو ترقی کس کام کی؟ ایسے میں وہ لوگ فائدے میں ہیں کہ جو ترقی سے کوسوں یا صدیوں دور رہتے ہوئے بھی بہت مزے سے جی رہے ہیں۔ پاکستانی معاشرے اس معاملے میں ''روشن مثال‘‘ کا درجہ رکھتے ہیں۔ اب یہی دیکھیے کہ ہمارے ہاں آج بھی ''ایک کمائے، کنبہ کھائے‘‘ کا اصول کارفرما ہے۔ سنا ہے امریکہ اور یورپ میں ٹین ایجرز اپنا خرچہ خود نکالتے ہیں یعنی چھوٹے موٹے کام کرکے اپنی مدد آپ کے تحت تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ گویا ماں باپ پر زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے۔ ہمارے ہاں خیر سے اب بھی کیفیت یہ ہے کہ باپ کی کمائی پر لڑکے لڑکیاں گریجویشن کی سطح تک پلتے‘ پنپتے رہتے ہیں۔ ایسے مزے اگر کسی ترقی یافتہ معاشرے میں پائے جاتے ہیں تو بتائیے!
ترقی یافتہ معاشروں کا المیہ صرف یہ نہیں ہے کہ وہاں سب کو کام کرنا پڑتا ہے بلکہ اِس سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ تحقیق و جستجو کا بازار اِس طور گرم رکھا جاتا ہے کہ کسی کو سکون کا سانس لینے کا موقع بھی مشکل سے مل پاتا ہے۔ کاروباری اداروں میں تحقیق و ترقی کا شعبہ اس بات کی علامت ہے کہ مالکان خود سکون سے بیٹھیں گے نہ کسی کو بیٹھنے دیں گے! جدت طرازی کا ایسا چسکا لگا ہے کہ سب نے اپنے آپ کو جدت طرازی کے لاک اپ میں بند کر لیا ہے! عجیب حماقت ہے کہ بازار میں کوئی بھی نئی چیز آتی ہے تو اُس کے پھیلنے سے پہلے اُس کے جواب میں کوئی چیز آ جاتی ہے۔ لوگ کسی بھی چیز سے پوری طرح محظوظ ہو پاتے ہیں نہ کام لینے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں دنیا بھر میں لوگوں کو ماڈل یا ورژن بدلنے کی بیماری لگ چکی ہے۔
جاپان کی ایک کمپنی نے 2018ء میں اپنے قیام کے 100 سال مکمل ہونے پر ایسی ٹرین متعارف کرانے کا اعلان کیا ہے جو پس منظر میں کھو جایا کرے گی! آئیڈیا یہ ہے کہ ٹرین کی بیرونی باڈی ایسے مٹیریل سے تیار کی جائے جو کیموفلاج ہو سکے یعنی بدلتے ہوئے منظر کے مطابق اپنا رنگ تبدیل کرلے۔ جس طور گرگٹ رنگ بدلتا ہے بالکل اُسی طور یہ ٹرین بھی جہاں سے گزرے گی وہاں کے ماحول کی رنگت کے مطابق اپنا رنگ تبدیل کیا کرے گی اور ذرا دور سے دیکھنے والوں کو محسوس ہو گا کہ کوئی ٹرین نہیں گزر رہی!
ہمیں یقین ہے کہ یہ آئیڈیا پڑھ کر آپ حیران رہ گئے ہوں گے۔ اور ہمیں آپ کے حیران ہونے پر حیرت ہو رہی ہے۔ ٹرین کو غائب کرنا کوئی بڑا فن ہے؟ اس پروجیکٹ پر مذکورہ جاپانی کمپنی کروڑوں ڈالر خرچ کر رہی ہے۔ یہ کروڑوں ڈالر کسی ڈھنگ کے کام پر خرچ کیے جا سکتے ہیں۔ کیموفلاج کرکے کسی ٹرین کو غائب کرنے کا تصور عملی طور پر پیش کرنے کے لیے اس قدر خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ کیا جاپانی کمپنی نے پاکستان کا نام نہیں سُن رکھا؟
ایک زمانے سے ہمارے ہاں ٹرین کی وزارت ہے مگر ٹرینیں غائب ہیں! بہت سی ٹرینیں شاید کاغذوں پر موجود ہوں تو ہوں، ٹریک پر اُنہیں تلاش کرنے نکلیے تو بعد میں اپنی کھوج میں نکلنا پڑتا ہے! سیف الدین سیفؔ نے ایسی ہی کیفیت کو یوں بیان کیا ہے ؎
لَوٹ کر پھر نظر نہیں آئی
اُن پہ قربان ہو گئی ہو گی!
اور غائب کرنے کا ہنر محض ٹرینوں تک محدود نہیں۔ ہمارے ہاں تو خیر سے ایسی وزارتیں اور محکمے بھی موجود ہیں جن میں ملازمین ہیں مگر نہیں ہیں! فائلیں کھنگالیے تو ہر طرف ملازمین دکھائی دیتے ہیں۔ اگر ''فزیکل انوینٹری‘‘ لینے کا سوچیے تو دور تک کوئی دکھائی نہیں دیتا۔ اور تنخواہ والے دن اکاؤنٹنٹ کے پاس بیٹھ کر کھاتوں کا جائزہ لیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ جو دکھائی نہیں دیتے ان کے لیے تنخواہیں تو باقاعدگی سے جاری کی جاتی رہی ہیں!
جاپانی ریلوے کمپنی کو ''گھوسٹ ٹرین‘‘ متعارف کرانے کا خیال اب آیا ہے۔ ہم تو ایک زمانے سے ہر شعبے میں گھوسٹ ملازمین، گھوسٹ مشینری اور گھوسٹ خدمات پیش کر رہے ہیں! جاپانی ماہرین کو تو کیموفلاج پر اچھا خاصا خرچ کرنا پڑے گا‘ تب کہیں جاکر ٹرین غائب ہو گی یعنی پس منظر میں گم ہو گی۔ یہاں تو حالت یہ ہے کہ ایک میٹنگ کیجیے، چند معاملات طے کیجیے اور ٹرین غائب!
''تحقیق و ترقی‘‘ کا باضابطہ شعبہ قائم کیے بغیر ہم نے بہت کچھ ایسی مہارت سے غائب کیا ہے کہ دنیا دیکھے تو حیران رہ جائے اور ہمارے پیر پڑ کر شاگردی اختیار کرے۔ کسی زمانے میں ہمارے ہاں اعلیٰ درجے کی کرکٹ اور ہاکی ٹیم ہوا کرتی تھی۔ پھر پتا نہیں جادو کی کیسی چھڑی پِھری کہ دونوں ٹیمیں اُڑن چُھو ہوگئیں! کیفیت یہ ہے کہ ع
اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لے کر
جاپان چونکہ پاکستان سے خاصا دور ہے اس لیے جاپانی ماہرین کو ہم دکھائی نہیں دے رہے۔ تحقیق و ترقی کے نام پر کروڑوں ڈالر ضائع کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ ٹرین سمیت بہت کچھ غائب کرنے کا ہنر سیکھنے کے لیے وہ ہم سے رابطہ کر لیں۔ تحقیق و ترقی کا معاملہ ہمیں ویسے بھی کبھی راس نہیں آیا۔ جب بھی ہمارے ہاں ماہرین تیار کرنے کے لیے تحقیق و ترقی کے نام پر فنڈز مختص کیے گئے ہیں، معاملہ تحقیقات کی منزل تک پہنچا ہے! بات یہ ہے کہ تحقیق و ترقی کے نام پر مختص کی جانے والی رقوم کے ذریعے جو ماہرین تیار ہوتے ہیں وہ ملک سے ایسے غائب ہوتے ہیں کہ پھر اُن کا سراغ لگانے کے لیے اچھے خاصے فنڈز مختص کرکے تحقیقات کرنا پڑتی ہے!