"MIK" (space) message & send to 7575

وطن کا چہرہ

مفاد کا معاملہ بھی کتنا عجیب ہوتا ہے۔ جب کوئی اپنے یعنی ذاتی مفاد کو دیگر تمام معاملات پر ترجیح دینے کی ٹھان لیتا ہے تو پھر اِس بات کی بھی پروا نہیں کرتا کہ اُس کے ذرا سے فائدے سے کتنوں کو کتنا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ کبھی کبھی تو فائدہ بھی نظر میں نہیں ہوتا۔ محض نقصان سے بچنے کے لیے کسی بھی سطح کا نقصان ہونے دیا جاتا ہے۔ 
جب انسان صرف اپنے مفاد کو ذہن نشین رکھتا ہے تو ہر وقت اِسی فکر میں مبتلا رہتا ہے کہ دوسروں کو کس طور نقصان پہنچایا جائے، اپنا اُلّو کیونکر سیدھا کیا جائے۔ جب اپنے نشیمن کی فکر ہر وقت دامن گیر رہے تو چمن کی تقدیر کے بارے میں سوچنے کی زحمت کوئی بھی گوارا نہیں کرتا۔ حزیںؔ قریشی احمد آبادی نے اِسی نَفسی خاصیت کو یُوں بیان کیا ہے ؎ 
سلگ رہا ہے نشیمن کہ جل رہا ہے چمن 
چلو، قریب سے دیکھیں یہ روشنی کیا ہے! 
یعنی انسان اپنے نشیمن کے بارے میں کسی خدشے کو سلگنے تک محدود رہتا ہے مگر چمن کا اندیشہ ہو تو بے فکر ہوکر جلنے کی بات کر بیٹھتا ہے! اپنے مفاد کو بچانے کے فراق میں وہ اس عظیم حقیقت کی طرف بھی متوجہ نہیں ہوتا کہ چمن ہی جل گیا تو نشیمن کے محض سلگنے کی گنجائش کہاں سے پیدا ہوگی؟ 
کرپشن کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ معاشرے کا ہر فرد چاہتا ہے کہ چوری چکاری، لوٹ مار اور قتل و غارت ختم ہو مگر اِس کے لیے درکار پریکٹیکل اپروچ کم ہی لوگوں کے پاس ہے۔ یہاں بھی لوگ ذاتی مفاد کی دلدل میں پھنس کر رہ جاتے ہیں۔ کرپشن کے خاتمے کا عزم قافلے کے مانند روانہ تو ہوتا ہے مگر پہلے ہی پڑاؤ پر اُس کا حوصلہ جواب دے جاتا ہے۔ کیوں؟ اِس لیے کہ لوگ انفرادی معاملات پر غور کرتے ہیں تو بس اُسی منزل پر اٹک کر رہ جاتے ہیں۔ کسی سے سو دو سو روپے چھین لیجیے تو اُسے کئی دن تک اِس کا قلق رہتا ہے لیکن اگر قومی خزانے میں کروڑوں، اربوں روپے کی سیندھ لگائے جانے کی اطلاع ملے یا انکشاف ہو تو دل پر زیادہ بوجھ محسوس نہیں ہوتا۔ سوچ یہی ہوتی ہے کہ یہ سب کچھ کون سا ہماری جیب سے گیا ہے۔ حالاں کہ گیا تو ہماری اپنی ہی جیب سے ہوتا ہے! قومی خزانہ کون سا آسمان سے ٹپکتا ہے یا زمین اگلتی ہے؟ ہماری، آپ کی ... ہم سب کی خون پسینے کی کمائی ہی سے تو قومی خزانہ بنتا ہے۔ اور قومی خزانے میں لگائی جانے والی سیندھ سے ہونے والا نقصان بالآخر ہم سب ہی کا تو نصیب بنتا ہے۔ ہماری سہولتوں کا معیار گرتا ہے، بہتر زندگی بسر کرنے کے لیے ہمیں جو کچھ بھی درکار ہے وہ کم کم ملتا ہے اور کبھی کبھی تو بالکل نہیں ملتا۔ یہ قابل غور نکتہ ہے کہ جن سہولتوں کے لیے ہم نے اپنی محنت کی کمائی کا ایک خاص حصہ قومی خزانے میں ڈالا ہوتا ہے وہی سہولتیں ہمیں نہیں پاتیں۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے آپ کسی دکان پر جائیں، دکاندار کو چند مطلوبہ اشیاء کی فہرست دیں، رقم بھی ادا کردیں اور وہ آپ کو مطلوبہ اشیاء فراہم کرنے سے صاف انکار کردے! ایسے میں آپ کا ردعمل کیا ہوگا؟ آپ سوچیں گے یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے۔ دکاندار کو سیدھا کردیا جائے گا، اور کیا! بالکل درست۔ مگر اِسی بات کا تو رونا ہے کہ ہم یہ درست اپروچ اِس نوعیت کے ہر معاملے میں نہیں اپناتے! 
کرپشن کے بارے میں ہمیں اُسی طرح سوچنا ہے جس طرح سوچنے کا حق ہے۔ اور حق کیا؟ اب تو کرپشن کے بارے میں سوچنا، سنجیدہ ہونا فرض کا درجہ رکھتا ہے۔ شہر کے حالات خراب ہوں تو خرابی والے علاقوں میں لوگ لاکھ پریشان ہوں، جن علاقوں میں معاملات درست چل رہے ہوں وہ سُکون کے سانس لیتے ہوئے مطمئن بیٹھے رہتے ہیں۔ آگ جب تک اپنے گھر کی دہلیز کو نہ چُھوئے، ہمیں کسی کے جلنے، بھسم ہوجانے کا کوئی غم نہیں ہوتا۔ اِس سوچ کو راکھ کا ڈھیر بنانے کی ضرورت ہے۔ 
کرپشن کیا ہے؟ قومی خزانے کی بندر بانٹ۔ اور قومی خزانہ کیا ہے؟ ہماری، آپ کی ... ہم سب کی کمائی کے ایک حصے کا جمع ہوجانا۔ ایسے میں ہم یہ بات کیوں فراموش یا نظر انداز کردیتے ہیں کہ قومی خزانے کی بندر بانٹ پر بھی ہمارا ردعمل وہی ہونا چاہیے جو راہ چلتے آتشیں اسلحے کے زور پر لُٹ جانے کی صورت میں ہوا کرتا ہے۔ 
ہمارے ذہن کے پردے پر یہ ساری باتیں جرمنی کے 22 سالہ جوئیل مگلر کی کہانی پڑھ کر ابھریں۔ مگلر کو بچپن ہی سے بدن چھدوانے کا شوق تھا۔ اُس نے چہرے کو گیارہ مقامات پر چھدواکر عالمی ریکارڈ قائم کیا ہے جس کی بنیاد پر اس کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں درج کرالیا ہے۔ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز کے مطابق جوئیل مگلر کے چہرے پر سب سے بڑا سوراخ 34 ملی میٹر کا ہے جسے وہ 40 ملی میٹر کی حد تک لے جانا چاہتا ہے۔ 13 برس کی عمر میں کان چھدوانے کے بعد مگلر نے پورے جسم پر 27 چھید کرائے، 6 ٹیٹو بنوائے اور ایک پیوند کاری بھی کرائی۔ اِس پر بھی دل نہ بھرا تو مگلر نے اپنی زبان کو دو حصوں میں تقسیم کرالیا! یہ سب کچھ بہت تکلیف دہ ہے مگر کہتے ہیں کہ شوق کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ دل کا کیا ہے، وہ تو کسی پر بھی آسکتا ہے۔ اور اگر اپنے ہی پر دل آجائے تو! مگلر کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ ہر آپریشن پر اُسے تکلیف محسوس ہوتی ہے مگر جب تکلیف کم ہوتی ہے تو وہ نئے آپریشن کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔
قومی خزانے میں نقب لگاکر اپنی آنے والی سات نسلوں کے لیے بہت کچھ چھوڑ کر جانے کا سوچنے والے بھی ملک کے ساتھ وہی کر رہے ہیں جو جرمنی کے جوئیل مگلر نے اپنے چہرے اور جسم کے دیگر حصوں کے ساتھ کیا ہے۔ رات دن کرپشن کے بُت کی پوجا کرنے والوں نے پاکستان کے چہرے پر جا بہ جا سوراخ کردیئے ہیں۔ خون رِس رہا ہے مگر اِس کی پروا کیے بغیر یہ کہتے ہوئے اُس کا دل بہلانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ غم نہ کرو، خون کا بہنا بند ہوگا تو دنیا دیکھے گی کہ زینت کتنی بڑھ گئی! پاکستان کے چہرے پر کرپشن اور وسائل کی بندر بانٹ کے سوراخ بڑھتے جارہے ہیں۔ ہر سوراخ چھپانے کے لیے اِس پر نقش و نگار بنا دیئے جاتے ہیں۔ چہرے کے چھیدے جانے پر کسی ردعمل کو روکنے کے لیے پاکستان کی زبان پہلے ہی دو لخت کی جاچکی ہے! 
اور ہم؟ ہم محض تماشائی ہیں۔ یہ سب کچھ دیکھ کر ہم بھی خوشی کا اظہار کر رہے ہیں۔ 
علامہ نے کہا تھا ؎ 
اگر کج رَو ہیں انجم، آسماں تیرا ہے یا میرا؟ 
مجھے فکرِ جہاں کیوں ہو؟ جہاں تیرا ہے یا میرا؟ 
ہمارے ذہن اور زبان پر بھی وطن کے لیے کچھ ایسی بات ہے۔ ملک لُٹ رہا ہے مگر ہم چپ اور مطمئن ہیں کہ ہم تو نہیں لُٹ رہے۔ ذہن سے یہ بات مِٹ سی گئی ہے کہ ہم ہی وطن ہیں ع 
وطن چمکتے ہوئے کنکروں کا نام نہیں 
وطن تو ہمارے جسم اور ہماری روح سے عبارت ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ سوچ بدلی جائے اور وطن کے چہرے کو چھید چھید کر اپنے شوق کی تکمیل کا سامان کرنے والوں کے ساتھ بھی یہی سلوک روا رکھا جائے تاکہ اُنہیں اندازہ ہو کہ نقش و نگار کی چادر اوڑھنے سے پہلے چہرے کا زخم کتنی تکلیف دیتا ہے۔ اِس منزل تک پہنچنے کے لیے لازم ہے کہ وطن کے چہرے کو اپنا چہرہ تسلیم کرکے اُس کے دکھ کو اپنا دکھ مان لیا جائے۔ یہ سوچ کر مطمئن بیٹھ رہنے سے کچھ بھلا نہ ہوگا کہ ہمارا چہرہ تو سلامت ہے، وطن کے چہرے سے خون رِستا ہے تو رِستا رہے! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں