بھارت بھی کیا ''اَدّبُھت‘‘ دیش ہے۔ سوچیے تو حیرت ہوتی ہے کہ اکیسویں صدی میں بھی وہاں کیا کیا ہو رہا ہے۔ پرکھنے جائیے تو اپنا نشاں بھی نہ پائیے۔ رسم اور رواج کے نام پر بھارتی سرزمین ایسی ایسی اوٹ پٹانگ حرکتوں سے اَٹی پڑی ہے کہ دیکھ دیکھ کر دل و دماغ پر حیرت اور صدمے کے حملے ہوتے رہتے ہیں۔
اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ناخواندہ معاشروں میں ایسا ہوتا ہے تو آپ کی سادگی پر قربان جائیے۔ جنہیں پڑھنے لکھنے کی توفیق نصیب نہیں ہوئی وہ جو کچھ کرتے ہیں اُس کا یہاں ذکر نہیں ہو رہا۔ ہم تو پورے معاشرے کی بات کر رہے ہیں جس میں پڑھے لکھے اور شہروں میں رہنے والے بابو لوگ بھی شامل ہیں۔ دنیا بھر میں شہری اور دیہی کی تفریق موجود ہے مگر بھارت جیسے معاشروں میں یہ فرق بھی خوب مٹا ہے۔ یعنی کسی بھی معاملے میں اندھی عقیدت پر مبنی رسوم اپنانے کے معاملے میں بیشتر بھارتی، شہری و دیہی کی تفریق کے بغیر، ایک پیج پر ہیں! قدم قدم پر ایسے رواج پائے جاتے ہیں کہ انسان دیکھے تو دنگ رہ جائے، کچھ بھی سمجھ میں نہ آئے۔
ہم اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں اور بھارت ورش کے بہت سے لوگ اب تک قبل مسیح کے زمانے میں جی رہے ہیں۔ قبل مسیح کے عہد میں زندگی بسر کرنے پر کوئی باضابطہ پابندی عائد ہے نہ ایسا کرنے میں کوئی قباحت ہے۔ اگر دوسروں کو تکلیف نہ پہنچتی ہو تو ایسا کر گزرنے میں بظاہر کچھ ہرج نہیں۔ ہمارے ہاں بھی ایسے لوگ معقول تعداد میں ہیں جو کسی نامعلوم گزرے ہوئے زمانے میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ کوئی کچھ بھی کہے اور کہتا رہے، اُنہیں کچھ فرق نہیں پڑتا۔ وہ اپنی مرضی کی کسی بھی فرسودہ روش پر گامزن رہتے ہیں اور یہ ثابت کرنے پر بھی بضد رہتے ہیں کہ جو کچھ وہ سوچ رہے ہیں وہ نہ صرف یہ کہ درست ہے بلکہ وہی درست ہے۔
اِدھر اُدھر بھٹکنے کے بجائے آئیے بھارت واپس چلتے ہیں۔ بات ہو رہی تھی فرسودہ سوچ کی، ایسی رسوم کی جن کا سَر سمجھ میں آتا ہے نہ پَیر۔ علاقائی بالا دستی کے خواب کو ہر حال میں مکمل طور پر شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگانے والے بھارت میں آج بھی ایسا بہت کچھ پایا جاتا ہے جو دل و دماغ کی چُولیں ہلانے، بلکہ اُن کی ''واٹ‘‘ لگانے کے لیے انتہائی کافی ہے۔ اب یہی دیکھ لیجیے کہ مذہب کے نام پر اب تک اندھی عقیدت کو یُوں گلے لگاکر رکھا گیا ہے کہ جیسے ایسا نہ کرنے کی صورت میں دونوں جہاں ہاتھ سے جاتے رہیں گے۔ کوئی لاکھ سمجھائے، یاد دلا دلاکر تھک جائے کہ صاحب! کچھ ہوش کی دوا کیجیے، کچھ تو بُدّھی سے کام لیجیے مگر بھارت واسی ہیں کہ بُدّھو بنے لکیر پیٹتے رہتے ہیں یعنی جو کچھ بے ڈھنگا کرتے آرہے ہیں اُسے نہ کرنے پر مائل نہیں ہوتے!
1970 ء کے عشرے میں مُرار جی ڈیسائی بھارت کے وزیراعظم بنے تھے۔ وزیر اعظم کی حیثیت سے تو وہ ایسا کچھ خاص نہیں کر پائے جسے بنیاد بناکر اُن کا نام سنہرے حروف میں لکھا جاسکے مگر ہاں اُنہوں نے اپنے ایک معمول کو ایسا نمایاں کرکے پیش کیا کہ اہلِ جہاں حیران رہ گئے۔ دنیا والے تو صرف حیران ہوئے، ہم جیسی اقوام خاصی بے مزا بھی ہوئیں۔ معاملہ یہ تھا کہ موصوف اپنی صحت کا گراف اور معیار بلند رکھنے کے لیے کسی سے مدد لینے کے مُکلّف نہ تھے۔ موہن داس کرم چند گاندھی بھی ایسے ہی مزاج کے تھے۔ وہ اپنا علاج خود کرتے تھے۔ دودھ اور پھلوں کے رس پر گزارا تھا۔ یہاں تو معاملہ گوارا ہے۔ گاندھی جی اپنی صحت برقرار رکھنے کے لیے ایسا کچھ نہ کرتے تھے کہ کوئی سُنے تو یقین نہ کرے اور دیکھے تو بے مزا ہوکر اور اپنی آنکھوں کو کوستا پھرے کہ جو دیکھا وہ دیکھا تو کیوں دیکھا!
ہوسکتا ہے آپ بھول گئے ہوں۔ اگر ایسا ہے تو ہم یاد دلا دیتے ہیں۔ موصوف یعنی آں جہانی مُرار جی ڈیسائی صحت برقرار رکھنے کے لیے خالص گھریلو نسخہ استعمال کرتے تھے یعنی روزانہ صبح اپنے ہی قارورے یعنی پیشاب سے جسم و جاں کو راحت بخشتے تھے! یقین نہ کریں تو آپ کی مرضی وگرنہ معاملہ یہی تھا۔ اور معاملہ اپنا پیشاب محض نوش کرنے تک محدود نہ تھا۔ آں جہانی مُرار جی ڈیسائی صحت برقرار رکھنے کے اِس نسخے کی تشہیر سے بھی مجتنب نہ رہتے تھے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ اِس پر اُنہیں غیر معمولی، بلکہ تشویشناک حد تک فخر بھی تھا! مُرار جی ڈیسائی نے یومیہ بنیاد پر اپنا قارورہ نوش فرمانے پر فخر تک خود کو محدود نہ رکھا بلکہ دوسروں اور بالخصوص نئی نسل کو بھی ایسا ہی معمول اپنانے کی تحریک دی!
ہم نہیں جانتے کہ بھارت کے دیگر قائدین میں کون کیا کیا کھاتا پیتا رہا ہے۔ قومی خزانے کے جسم پر دانت گاڑ کر بوٹیاں نوچنے کے معمول سے تو ہم بخوبی واقف ہیں کیونکہ ہمارا بھی کچھ ایسا ہی منظر آنکھوں کے سامنے رہا ہے۔ مگر گھر کی چار دیواری میں بھارت کے راج نیتاؤں کی نیتی کیا رہی ہے اِس کا ہمیں کچھ علم نہیں۔ ہاں، بھارت کی پالیسیوں سے اب تک جس طرح کی بدبو (بالخصوص پاکستان کے معاملے میں) پُھوٹتی رہی ہے۔ سیدھی سی بات ہے کہ جب قائدین کی صف کے لوگ اپنا پیشاب پینے پر فخر کرتے ہوں تو پالیسیاں عِطر بیز تو ہونے سے رہیں!
بھارت میں ایسے عقیدت مندوں کی کمی نہیں جو اپنی حقیقی ماں کو بھلے ہی ڈھنگ سے نہ رکھتے ہوں اور کبھی اُس کے ناز نہ اٹھاتے ہوں مگر گائے کو ماں کا درجہ دے کر اُس کا ایسا احترام کرتے ہیں کہ اجنبی ماحول کا کوئی آدمی دیکھے تو دیکھا رہ جائے۔ ہم اب تک گائے کے دودھ تک پہنچ پائے ہیں، بھارت ہم سے کئی قدم آگے جاچکا ہے۔ کئی ریاستوں میں گائے کے پیشاب سے بنی ادویہ اور ٹانک بازار میں دستیاب ہیں۔ ''گو مُوتر‘‘ سے بنائی جانے والی اِن ادویہ اور ٹانک کے خریدار بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ سیدھی سی بات ہے۔ اگر گاہک موجود نہ ہوتے تو گو مُوتر سے بنی اشیاء دکانوں میں کیوں سجی ہوتیں؟
امریکہ اور یورپ کے ماہرین جہان بھر کے بے ڈھنگے موضوعات پر دادِ تحقیق دیتے رہتے ہیں مگر اُن کی ''کوتاہ نظری‘‘ دیکھیے کہ اب تک بھارتی معاشرے کی ''قاروہ پرستی‘‘ کی طرف متوجہ نہیں ہوئے! آخر کچھ نہ کچھ تو فائدہ ضرور مضمر ہوگا ورنہ بھارت کا ایک وزیر اعظم اپنا پیشاب کیوں پیتا اور لاکھوں، بلکہ کروڑوں بھارتی گائے کے پیشاب کے اِتنے متوالے کیوں ہوتے!
جیسی روح ویسے فرشتے۔ شکر خورے کو شکر مل ہی جاتی ہے۔ گائے مقدس سمجھی جاتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اس کا پیشاب اور گوبر بھی متبرّک ٹھہرا ہے۔ بھارت بھر میں ہندوؤں کی اکثریت اپنے دیوتا ہنومان کی اولاد قرار دے کر بندروں سے بھی گہری عقیدت رکھتی ہے۔ گائے کے پیشاب کو عقیدت سے قبول کرنے والے اِس معاملے میں بندروں کی طرف متوجہ ہونا گوارا نہیں کرتے اِس لیے گزشتہ دنوں ریاست کرناٹک کے شہر سرنگا پٹم میں چند بندروں نے ثابت کیا کہ ''وانر مُوتر‘‘ بھی چمتکار دکھانے میں کسی سے کم نہیں! ہوا یہ کہ ایک بڑے تنے والے گھنے درخت کے نیچے پچیس تیس افراد بیٹھے تھے۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا۔ ایسے میں بلند شاخوں پر بیٹھے ہوئے تین چار بندروں کو حاجت محسوس ہوئی اور اُنہوں نے کہیں اور جانے پر وہیں بیٹھے بیٹھے فراغت پانے کو ترجیح دی اور یُوں نیچے بیٹھے ہوئے لوگوں کے لیے برسات کا سماں پیدا کردیا! بندروں کو گالیاں بکتے ہوئے وہ لوگ وہاں سے اٹھ کر چل دیئے۔ ''وانر مُوتر‘‘ سے محفوظ رہنے والے دو تین افراد البتہ وہیں، درخت کے بیٹھے رہے۔ اور پھر چند ہی لمحوں میں وہ ہوا جس کا کسی نے سوچا بھی نہ ہوگا۔ ایک طرف کو جُھکے ہوئے تنے والا یہ درخت جڑ سے اکھڑ کر ایک طرف گرگیا اور گرا بھی اُسی طرف جہاں لوگ پہلے پچیس تیس افراد بیٹھے تھے۔ اُن کے جانے کے بعد بھی وہاں بیٹھے رہنے کو ترجیح دینے والے تین افراد درخت کے تنے اور موٹی شاخوں کے نیچے پھنس گئے۔ ایک جان سے گیا اور دو شدید زخمی ہوئے۔ یہ منظر دیکھ کر اُن تمام افراد نے بھگوان کا شکر ادا کیا جو بندروں کی ''مہربانی‘‘ سے اٹھنے پر مجبور ہوئے تھے! جن بندروں کو ''غیر مہذّب‘‘ رویّے پر کوسا جارہا تھا اُنہی کی جے جے کار ہونے لگی اور اُن کے آگے کھانے پینے کی اشیاء ڈالی جانے لگیں۔
ہمیں تو بھارتی معاشرے کی ''قارورہ پرستی‘‘ سے وحشت ہی نہیں، دہشت بھی ہوتی ہے۔ ہمیں افسوسناک حد تک یقین ہے کہ جب تک جانوروں کے پیشاب کو بھی مقدس گرداننے کا ٹرینڈ برقرار رہے گا بھارتی پالیسیوں سے ہمارے ''حصے‘‘ کی بدبو ختم نہیں ہو پائے گی!